یومِ راست اقدام ۔۔۔ پراپیگنڈا اور حقیقت/ژاں سارتر

تحریر طویل ہے جس پر معذرت کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔
گزشتہ روز ایک دوست نے وٹس ایپ پر کسی زیر تعمیر دانشور کی ایک تحریر بھیجی جس میں مصنف نے حسب معمول آدھے ادھورے اور یکطرفہ تاریخی مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا اگست 1946 میں قائد اعظم کی ہدایت پر مسلم لیگ نے ڈائریکٹ ایکشن ڈے منا کر بر صغیر میں فرقہ وارانہ فسادات کی بنیاد رکھی اوریہ ایک بڑا ظالمانہ اقدام تھا۔آئیے ذرا اس الزام کی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس وقت کے سیاسی حالات کیا تھے۔ 1945-46 کے انتخابات نے یہ امر واضح کر دیا تھا کہ مسلم لیگ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی جسے مرکزی اسمبلی میں صد فی صد مسلم نشستیں حاصل تھیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں میں اس کی کامیابی کا تناسب 86 فیصد سے زاید تھا۔ انتخابات کے نتائج تو واضح تھے لیکن برصغیر کے سیاسی مسئلے کے حل کے لیے گورنر جنرل نے شملہ کانفرنس منعقد کی جہاں مستقبل کی حکومت سازی کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل طے نہ ہو سکا جس کے بعد برطانوی حکومت نے اپنے تین وزراء پر مشتمل ایک مشن ہندوستان بھجوایا جسے کیبنٹ مشن کہا جاتا ہے۔ اس مشن نے برصغیر کی ایک مرکزی حکومت کے ساتھ تین صوبائی گروپس کی حکومتوں کی تجویز پیش کی جسے مسلم لیگ نے بعض تحفظات کے ساتھ قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کردی کہ اس میں صوبوں کی گروپنگ اس طرح کی گئی تھی جس کے نتیجے میں مستقبل میں ایک علیحدہ وطن کا قیام ممکن تھا۔ دوسری جانب ابوالکلام آزاد نے مسلم لیگ کی اس آمادگی سے یہ نتیجہ (غلط طور پر) اخذ کیا کہ لیگ مطالبہ پاکستان سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ اس پر مستزاد جواہر لال نہرو جو آزاد کی جگہ کانگریس کی صدارت سنبھال چکے تھے، انہوں کہا کہ ہم کابینہ مشن پلان کو صرف اس لیے قبول کریں گے تاکہ اسے تباہ کیا جا سکے۔ ہم برصغیر ہندوستان کی مرکزی حکومت کو مزید اختیارات دینے کے حامی ہیں اور اقتدار میں آ کرصوبوں کی گروپنگ کو بھی تبدیل یا ختم کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
بحوالہ: دی ٹرانسفر اَو پاور از وی پی مینن ۔۔۔۔۔۔ 1957 ۔۔۔۔۔ صفحہ 269-270
دی گریٹ ڈیوائڈ از ایچ وی ہڈسن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1969 ۔۔۔۔۔ صفحہ 527-529
دی انڈین اینوئل رجسٹر ، جلد دوم، ۔۔۔۔۔۔۔ 1946 ۔۔۔۔۔ صفحہ 132

نہرو کے اس بیان نے ابوالکلام آزاد کو بھی چونکا دیا۔ اپنی کتاب انڈیا ونز فریڈم کے صفحہ 154-155 پر انہوں نے لکھا کہ نہرو کا یہ بیان بدقسمتی کی انتہا اور خود آزاد کے لیے ایک دھچکا تھا۔ نہرو کے ان عزائم نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا اور برصغیر کے متحد رہنے کی امید دم توڑ گئی۔ نہرو کے عزائم نے سیاسی تجزیہ نگاروں کو بھی حیران کر دیا۔ ایک برطانوی محقق لیونارڈ موسلے نے لکھا کہ نہرو نے یہ واضح کر دیا کہ کانگریس اپنی عددی اکثریت کے باعث کسی کو بھی سیاسی فریق تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔یہاں تک کہ نہرو کی اس خود ساختہ تشریح نے برطانوی وزراء کو بھی حیران کر دیا۔ سر پیتھک لارنس اور سٹیفورڈ کرپس نے کہا کہ کسی فریق کو یہ منصوبہ قبول کرنے کے بعد اس میں من چاہی تبدیلیوں کا اختیار نہیں ہوگا کیونکہ یہ آئینی مسائل کے حل کے لیے دی گئی ضمانتوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوگی۔
بحوالہ:
The Last Days of the British Raj by Leonard Mosley …. 1961, London …. P27-28

مئی اور جون 1946 تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ کانگریس آئین ساز اسمبلی کے اختیارات کے معاملے میں کسی سمجھوتے پر قائل نہیں اور وہ برطانوی راج کے خاتمے پر اپنی عددی اکثریت سے ہر آئینی بندوبست کو بلڈوز کرنے پر تلی بیٹھی ہے (طاقت کا وہی مظاہرہ جو ہم آج بھارت میں مودی حکومت کا کشمیر کے معاملے میں دیکھ رہے ہیں)۔ ایک طرف کانگریس اپنے سوا کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تھی تو دوسری جانب برطانوی حکومت بھی اس معاملے میں اپنا کردار منصفانہ طور پر ادا کرنے سے قاصر نظر آ رہی تھی۔ دونوں جانب سے مایوسی کے بعد مسلم لیگ نے 25 جولائی 1946 کو اپنے اجلاس میں کابینہ مشن پلان کی منظوری واپس لے لینے کا اعلان کیا اور دوسری قرارداد منظور کی جس میں واضح کیا گیا کہ مسلمان برصغیر کی دوسری بڑی قوم ہیں، انہیں ایک معمولی اقلیت کی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ اگر کانگریس دستوری اور قانونی طریقے سے قیام پاکستان کی کوششوں کی راہ میں روڑے اٹکائے گی تو مسلمان اس پر مجبور ہوں گے کہ وہ اپنی منزل کے حصول کے لیے وہی طریقے اختیار کریں جو کانگریس بارہا استعمال کر چکی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا :
اب وقت آگیا ہے مسلمان بحیثیت ایک قوم کے حصول پاکستان، اپنے جائز حقوق کے تحفظ، اپنے وقارکی سربلندی اوربرطانوی غلامی کا طوق اتارنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اونچی جات کے ہندوؤں کی غلامی سے نجات کے لیے راست اقدام کریں۔
بحوالہ:
Speeches and Documents on the Indian Constitution 1921-1947 ….. Bombay, 1957 ….. P 618-621

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے اس کی وضاحت کی مسلم لیگ کو یہ فیصلہ کیوں کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا:
“اپنی پوری تاریخ میں مسلم لیگ نے کبھی غیر آئینی راستہ اختیار نہیں کیا۔ ہم نے ہمیشہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے مسائل سلجھانے کی راہ اختیار کی لیکن اب ہمیں باقی دونوں فریقوں یعنی کانگریس اور انگریزوں کی جانب سے یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ہم بات چیت کے ذریعے انصاف پر مبنی حق کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ہمیں دو محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے ۔۔۔۔۔ کانگریس کا محاذ اور انگریزوں کا محاذ۔۔۔ اسی باعث آج ہم مجبور ہوئے ہیں کہ آئینی جدوجہد اور طریقے کو خدا حافظ کہہ دیں۔ گزشتہ مذاکرات کے دوران کانگریس اور انگریز سرکار دونوں ہم پستول تان کر بیٹھے رہے کہ ہم اپنے مطالبات سے دست بردار ہو جائیں۔ انگریز سرکار ہمیں مشین گنز اور اپنی قوت سے ڈرانا چاہتی ہے جبکہ کانگریس کے ہاتھ میں عدم تعاون اور سول نافرمانی کی دھمکیوں والا پستول ہے۔ ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی۔ اب ہم بھی یہی پستول استعمال کریں گے۔
بؔحوالہ:
دی انڈین اینوئل رجسٹر ، جلد دوم، ۔۔۔۔۔۔۔ 1946 ۔۔۔۔۔ صفحہ 178

جمیل الدین احمد نے قائد اعظم کی تحاریر و تقاریر کے ریکارڈ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس تقریر کے آخر میں قائد نے مشہور فارسی شاعر فردوسی کے ایک شعر کا ترجمہ بھی پڑھا:
اگر تم امن چاہتے ہو تو ہم بھی جنگ کے خواہاں نہیں
لیکن اگر تم جنگ چاہتے ہو تو ہم اسے بغیر ہچکچاہٹ کے قبول کرتے ہیں۔
مسلم لیگ کے اس اعلان پر کانگریس نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ دوسری جانب انگریز سرکار بھی مسلم لیگ سے یہ اعلان واپس لینے پر اصرار کرنے لگی۔ 30 جولائی 1946 کو مسلم لیگ نے 16 اگست کی تاریخ یوم راست اقدام کے لیے مقرر کر دی اور تمام مسلمانوں سے اپیل کی وہ اس روز اپنے کاروبار بند رکھیں، بازاروں مارکیٹوں میں ہڑتال کی جائے، سرکاری تقریبات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور احتجاجی جلسے منعقد کیے جائیں۔
جولائی 31، 1946 کو قائد اعظم نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹ ایکشن کوئی اعلان جنگ نہیں ہے اور نہ ہی کسی قومیت کے خلاف ہے۔ جن اقدامات کا اعلان ہم نے کیا ہے، یہ سب کانگریس کر چکی ہے لیکن ہمارے اقدامات کا مقصد کسی دوسری قومیت کو دھمکانا نہیں بلکہ صرف اپنی قوم کا تحفظ ہے۔
اب اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سوچیے کہ یوم راست اقدام ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے منایا لیکن سوائے بنگال (اور اس میں بھی خصوصاً کلکتہ) کے کہیں کوئی خاص ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اگر مسلم لیگ کا مقصد ہندو مسلم فسادات کرانا تھا تو درجنوں مقامات ہو سکتے تھے جہاں ایسے واقعات پیش آ سکتے تھے۔ دوسری جانب ہندو پریس کا رویہ اس معاملے میں انتہائی معاندانہ تھا۔ ان اخبارات نے زرد صحافت کی انتہا کرتے ہوئے لیگ کی ہڑتال اور جلسوں کی کال کو اس طرح پیش کرنا شروع کیا جیسے مسلم لیگ نے ہندوستان میں اعلان جنگ کر دیا ہو حالانکہ اس طرح کی ہڑتالیں اور سول نافرمانی کانگریس متعدد بار کر چکی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ کانگریس اور مہا سبھا نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ لیگ کے ڈائریکٹ ایکشن ڈے کو ہر صورت ناکام بنایا جائے۔ یہ معاملات کو تشدد کی جانب لے جانے کی باقاعدہ کوشش تھی۔
بحوالہ:
Old Country New Nation by Ian Stephen …..1964 ….. P 127

آئن سٹیفن روزنامہ “دی سٹیٹسمین” دلی اور کلکتہ کے 1942 سے 1951 تک مدیر بھی رہے۔
یوم راست اقدام کے سلسلے میں سرکاری اداروں کو جو خفیہ رپورٹس موصول ہو رہی تھیں، ان کے مطابق مسلم لیگ اور مہا سبھائیوں کے درمیان تصادم کا سب سے زیادہ خدشہ کلکتہ میں تھا۔ اسی خدشے کے پیش نظر بنگال کے وزیر اعلی حسین شہید سہروردی اور گورنر سر فریڈرک بروز نے سولہ اگست کو عام تعطیل کا اعلان کر دیا۔ گورنر نے اس قدم کے لیے وائسرائے کو بھی اعتماد میں لیا اور اپنے خط میں لکھا کہ عام تعطیل کا بڑا مقصد کسی تصادم یا فساد کی صورت میں انگریز شہریوں اور تاجروں کا تحفظ ہے جو کلکتہ میں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ لیگی اور کانگریسی نیز مہا سبھائی کارکنوں کے درمیان تصادم سے بچا جا سکے کیونکہ لیگی اس روز ہڑتال کرانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے جبکہ ہندو انہیں روکنے کے لیے اپنا پورا زور لگائیں گے۔ 22 اگست 1946 کو لکھے گئے خط میں گورنر نے واضح طور پر عام تعطیل کے اعلان کی ذمہ داری قبول کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ قدم وائسرائے کی منظوری سے اٹھایا گیا تاکہ مسلم۔ہندو تنازعہ، مسلم۔انگریز تنازعہ نہ بن سکے۔ دوسری جانب ہندو پریس اور مورخ اس تعطیل کو حسین شہید سہروردی کی سازش قرار دیتے رہے کہ سہروردی نے ہڑتال کو موثر بنانے کے لیے تعطیل کا اعلان کیا تھا۔
بحوالہ:
Governor of Bengal to the Viceroy, 22 August, 1946, The Transfer of Power 1947-47 by Nicholas Mansergh and Penederel Moon ….. P 294

بنگال کی حکومت نے تعطیل کا اعلان کیا تو ہندو ارکان اسمبلی نے اس کی بھرپور مخالفت کی اور ایوان میں خوب شور شرابہ کیا۔ ایوان سے باہر کانگریس اور مہا سبھا نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ ہڑتال کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا جائے اور لیگی جہاں جلسہ یا جلوس کی کوشش کریں، اسے بزور قوت روکا جائے۔ اس متشدد ذہنیت کا تجزیہ کرتے ہوئے سر فرانسس ٹکر نے لکھا ہے :
کانگریس کے اس رویے کی ایک وجہ تو صاف ہے ۔۔۔۔۔ اب تک برصغیر کے سیاسی میدان میں صرف کانگریس ہی تھی جو ہڑتال، عدم تعاون اور سول نافرمانی جیسے راستے اختیار کر کے انگریز حکومت پر دباؤ ڈال سکتی تھی لیکن اب اس میدان میں ایک اور فریق داخل ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔ مسلم لیگ۔ اور اس میدان میں اپنی اجارہ داری ٹوٹتے دیکھنا کانگریس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
بحوالہ:
While Memory Serves by Sir Francis Tuker ….. London …. 1950 …. P 154
یوم راست اقدام سے دو روز پہلے یعنی 14 اگست کو بنگال کانگریس کے رہنما کے رائے نےایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ہندوؤں پر زور دیا کہ وہ سولہ اگست کی ہڑتال کو ناکام بنا دیں اور تعطیل کے سرکاری احکامات کی بالکل پروا نہ کریں۔ اسی طرح ہندو مہا سبھا نے پورے بنگال میں ایک پمفلٹ کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ سولہ اگست کو ہڑتال کی کامیابی کا مطلب پاکستان کا قیام ہو گا لہٰذا ہر ہندو پر فرض عاید ہوتا ہے کہ اس روز ہڑتال کو ہر صورت روکا جائے۔ سر فرانسس ٹکر نے لکھا ہے کہ کانگریس اور ہندو مہا سبھا کی اس حد سے بڑھی حساسیت نے سولہ اگست کے فسادات کو جنم دیا کیونکہ ان جماعتوں نے ہندوؤں کو یہ باور کرا دیا تھا کہ اگر اس روز ہڑتال ہو گئی (جو ایک معمول کی سیاسی کارروائی ہوتی ہے) تو برصغیر پر کوئی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ یہاں یہ بات از حد اہم ہے کہ کلکتہ مسلم لیگ نے سولہ اگست کو ہڑتال کے علاوہ صرف ایک پروگرام رکھا تھا اور وہ شہید مینار کے پاس میدان میں ایک بڑا جلسہ جس میں تقریباً تین لاکھ افراد کی شرکت متوقع تھی اور اس جلسے سے وزیر اعلیٰ حسین شہید سہروردی نے بھی خطاب کرنا تھا۔
سولہ اگست کی صبح جب مسلم لیگی کارکن ابھی گھروں سے بھی نہیں نکلے تھے ، سرکاری اداروں کو یہ رپورٹس ملنا شروع ہوگئیں کہ کانگریسی اور مہا سبھائی غنڈوں نے کلکتہ شہر شہر میں داخل ہونے والے راستوں اور دریائے ہگلی کے پلوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دی ہیں تاکہ مضافات سے مسلم لیگی کارکن جلسے کے لیے شہر میں داخل نہ ہو سکیں۔ یہ رکاوٹیں فسادات کا نقطہ آغاز تھیں۔
While Memory Serves by Sir Francis Tuker ….. London …. 1950 …. P 157

جب داخلی راستوں اور پلوں پر جھڑپوں کی اطلاعات شہر کے اندر پہنچیں تو اشتعال پھیلنا شروع ہو گیا۔ کانگریس اور مہا سبھا کی ہدایت پر ہندو اور سکھ دکانداروں نے دکانیں کھول رکھی تھیں۔ ان دکانوں کو بند کرانے کے لیے لاٹھیوں سے مسلح مسلمان جتھے بازاروں اور گلیوں کی طرف چلے تو ہندو علاقوں میں چھتوں سے ان پر اینٹیں پھینکی گئیں۔ جواب میں مسلمانوں نے لاٹھیوں اور آہنی راڈز کے ساتھ کانگریسیوں اور مہا سبھائیوں پر حملہ کر دیا۔ اس طرح فسادات شروع ہوئے جن میں چاقو زنی، آتشزنی سے لے کر لوٹ مار اور قتل تک کا ہر حربہ دونوں جانب سے آزمایا گیا۔
بحوالہ:
, The Transfer of Power 1947-47 by Nicholas Mansergh and Penederel Moon ….. P 295-296

Advertisements
julia rana solicitors london

سولہ اگست سے اکیس اگست تک جاری رہنے والے فسادات میں کم و بیش 6000 افراد ہلاک اور دس ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ بعض مورخین نے ہلاکتوں کی تعداد بیس ہزار بھی لکھی ہے کیونکہ فسادات کلکتہ سے باہر تک پھیل چکے تھے۔ بھارتی مورخین کے مطابق مقتولین میں بڑی تعداد ہندوؤں کی تھی جبکہ پاکستانی مصنفین کی رائے میں زیادہ تر مسلمان ان دنوں میں اپنی جان سے گئے تھے۔ البتہ “مہاتما گاندھی: اے سلیکٹیڈ بائیوگرافی کے مصنف ایپرل کارٹر کا دعویٰ ہے کہ مقتولین اور زخمیوں میں ستر فیصد تعداد مسلمانوں کی تھی۔ اس سے ملتا جلتا دعویٰ بنگالی مصنف اور ان فسادات کے عینی شاید ابو الکلام شمس الدین نے اپنی کتاب ماضی کی یادیں (بنگالی سے ترجمہ) کے صفحہ 298 پر اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے بھی اپنی ایک تقریر میں کیا تھا۔
ان فسادات کی گونج پورے ہندوستان کے علاوہ برطانوی پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی۔ ہندو پریس اور کانگریس نے ان فسادات کی ذمہ داری حسین شہید سہروردی پر عاید کی ۔۔۔۔ جبکہ سہروردی اور مسلم لیگ کا موقف تھا کہ ہندو مہا سبھا اور کانگریس نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ نہ صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا بلکہ خود مظلوم ہونے کا ناٹک بھی رچایا۔
بحوالہ:
The Transfer of Power 1947-47 by Nicholas Mansergh and Penederel Moon ….. P 297-299

Facebook Comments

ژاں سارتر
کسی بھی شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply