سوسائٹی کے دوکنارے۔۔۔۔محمد امین مگسی

قومیں بڑی بڑی عمارتوں سے عظیم نہیں بنتیں. قومیں اپنے اعلیٰ اقدار کی بدولت دنیا میں مقام حاصل کرتی ہیں۔ مادیت پرستی کے اس دور میں اونچی عمارتیں، وسیع سڑکیں، کھلے میدان کی اپنی اہمیت ضرور ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر صرف مادیت پرستی ہی سب کچھ نہیں ہوتی اخلاقی بلندی، تہذیب، اجتماعی مثبت سوچ کا بھی بہت اہم کردار ہے۔

مادیت پرستی ہو یا بلند اخلاقی اقدار دونوں اعتبار سے پاکستان کا شمار ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے۔ پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر بالخصوص ٹوئٹر پر جو طوفانِ بدتمیزی امڈ آیا اس نے پوری دنیا میں پاکستانی معاشرے کی سوچ کی عکاسی کردی ہے۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے کہ پاکستان کے لوگوں کی کیا سوچ ہے اور وہ کیسا سوچتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ٹرینڈ چلائے گئے جنہیں ذکر کرنا بھی مناسب نہیں لگتا ایسے ٹرینڈ بھی ٹاپ پر رہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی اجتماعی سوچ ہے جو کہیں نہ کہیں نظر آجاتی ہے کہ ہمارا معاشرہ کس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہے۔ یہ معاملہ صرف محلے کا نہیں ہے نہ ہی کسی مخصوص ذات یا علاقے کا ہے مجموعی طور پورا پاکستانی معاشرہ اسی ذہنیت میں مبتلا ہے۔

گالم گلوچ، طعنہ زنی، دشنام طرازی وغیرہ تو ہمارے معاشرے کا معمول بن چکا ہے۔ چاہے سیاست ہو یا کھیل کا میدان ہو، بحث و مباحثہ و قیل و قال کا میدان ہو ہمارا معاشرہ کناروں پر کھڑا ہے۔ کوئی درمیانی راہ نہیں نکلتی کوئی اعتدال کا راستہ نہیں ملتا۔ سیاست میں بدکلامی کو پروان جس نے بھی چڑھایا غلط ہے مگر افسوس کہ یہاں تو اپنی غلط بات اور گِرے ہوئے الفاظ کے چناؤ کے لیے اکثر انہی غلط باتوں کو بطورِ دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اجتماعی طور انتہا پسندی کی طرف جارہا ہے. انتہا پسندی صرف مذہبی لوگوں میں نہیں بلکہ لبرل اور سیاسی ورکز میں ان سے بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔ ہر فرد خود کو عقلِ کُل سمجھ کر اپنے فیصلے کا نفاذ چاہتا ہے. مکالمہ یا بحث و مباحثہ کے راستے تنگ ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری سوسائٹی کے دو کناروں کو دیکھنا ہو تو آپ ہر شعبہ میں دیکھ سکتے ہیں۔

سیاست میں ہر پارٹی خود کو محب وطن اور مخلص سمجھتی ہے جبکہ دوسری پارٹیوں کو غدار اور اپنے حریف سیاستدان کو کرپٹ اور ملک دشمن سمجھا جاتا ہے۔ حکومت سمجھتی ہے ملک ہمارا ہے ملک کے اصل وارث ہم ہیں یہی سوچ کر حکومت اپوزیشن پر چڑھ دوڑتی ہے اسی طرح اپوزیشن کا گمان بھی ہے۔ لبرلز سوچ والے سمجھتے ہیں ہمارے معاشرے کی انتہا پسندی کی اصل وجہ مذہبی لوگ ہیں جب تک مذہب کو محض ذات تک محدود نہیں کیا جاتا انتہا پسندی بڑھتی رہے گی جبکہ مذہبی طبقہ سمجھتا ہے ہمارے معاشرے کا ناسور یہ لبرل لوگ ہیں۔ جو جان بوجھ کر مذہب پر بلاوجہ کی تنقید کرکے لوگوں کے جذبات ابھارتے ہیں اور جب لوگ جذباتی ہوجاتے ہیں تو اسے انتہا پسندی سے تعبیر کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو یہ ہے مذہبی انتہا پسندی جس نے معاشرے کے لیے مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ مطلب ایک دوسرے کو ختم کرنے والی سوچ ہے.

یہی صورتحال ہمارے تعلیمی نظام کی ہے۔ ایک طرف دینی مدارس ہیں جن کی نظر میں سب کچھ ان کے پاس ہے تو دوسری طرف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور جدید علوم کی دعویدار یونیورسٹیاں جن میں پڑھنے والے دینی مدارس میں پڑھنے والوں کو معاشرے پر بوجھ سمجھتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ بڑی تیزی سے بے راہ روی اور انتہا پسندی کی طرف جارہا ہے جسے کوئی روک نہیں پارہا۔ جہاں اختلاف کو دشمنی، سوالات اٹھانے کو غداری سمجھا جائے اس معاشرے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ پھر ایسے معاشرے میں ٹوئٹر پر طوفانِ بدتمیزی کے ٹرینڈ ہی چلتے ہیں. سیاسی جلسوں میں گالم گلوچ ہی ہوتی ہے، اسمبلیوں میں مسائل زیرِ بحث آنے اور قانون سازی کے بجائے بازاری زبان کا استعمال ہی ہوتا ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز میں لعن طعن اور ایک دوسرے پر ہاتھ بھی اٹھتے ہیں۔ مجموعی طور یہ معاشرہ دو کناروں پر کھڑا ہے. اعتدال کے تمام آپشنز بند ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ صرف مادیت پرستی ہی سب کچھ نہیں ہوا کرتی اخلاقیات کے بغیر بھی معاشروں کا چلنا انتہائی دشوار ہوجاتا ہے۔

معاشرے کو انتہا پسندی سے روکنے کے لیے جامع پالیسیز تشکیل دینا ہوں گی. ایک دوسرے کو ختم کرنے والی سوچ کے بجائے ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے والی سوچ اپنانا ہوگی۔ کناروں والی سوچ سے پیچھے ہٹ کر اعتدال کی راہ اپنانا ہوگی۔ دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کے مابین مکالمہ کی راہ ہموار کرنا ہوگی تاکہ ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع مل سکے۔ لبرلز اور مذہبی لوگوں کو بھی ٹیبل پر لانا ہوگا تاکہ لبرلز کو یہ سمجھایا جاسکے کہ کچھ چیزوں پر بات کرنے سے بلاوجہ عوام کے جذبات کو ابھارنا ہے جس کی وجہ سے انتہا پسندی جنم لے رہی ہے۔ دلیل کا راستہ اپنایا جائے نہ کہ الزامات کی بوچھاڑ کر کے انتشار کو ہوا دی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر مکالمے کی راہ اختیار نہ کی گئی اور دلیل کو پروان نہ چڑھایا گیا تو آنے والا دور اس سے بھی مشکل ہوجائے گا۔ صرف مادیت پرستی ہی سب کچھ نہیں ہے صرف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہی کامیابی و ترقی کی ضامن نہیں ہے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فیس بک اور ٹوئٹر تو دے سکتی ہے مگر ان کا استعمال کیسے کرنا ہے نہیں بتا سکتیں. سوشل میڈیا کا بہتر استعمال اخلاقیات سے ہی سیکھا جاسکتا ہے.

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply