اسلام کی پہلی مسجد قباء، جادہ قباء اور بئر خاتم۔۔منصور ندیم

ہماری گاڑی کا رخ مسجد قباء کی طرف تھا، قلعہ عروہ بن زبیر سے آگے ہماری منزل اب تاریخ اسلام کی پہلی مسجد ، جی ہاں مسجد قباء تھی، جو مدینہ منورہ کے جنوب میں واقع ہے، یہ مسجد نبوی اللّٰہ علیہ وسلم سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس وقت مدینہ منورہ سے پانچ کلو میٹر دور واقع ایک بستی “قباء” کے مقام پر بنی تھی، جہاں انصار کے خاندان آباد تھے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں آقا ئے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری پہنچنے پر مدینہ منورہ کے انصار استقبال کیلئے نکل کھڑے ہوئے تھے، قباء، وہ قابل دید تاریخی مقام ہے جس میں محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے قبل آرام کیا تھا۔ قباء، وہ تاریخی مقام ہے جہاں اسلامی تاریخ کی پہلی باقاعدہ مسجد تعمیر ہوئی، جس کی شہادت قرآن پاک نے دی ہے۔

مورخین کے مطابق “مدینہ منورہ 2حرّوں پر مشتمل ہے۔ مشرقی حرّہ جسے “حرۃ واقم” کہا جاتاہے اور مغربی حرہ جسے “حرۃ الوبرہ” کہا جاتا ہے۔یہ دونوں حرّے جنوبی مدینہ منورہ میں کئی حروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ حرے، بیاضہ، شوران، اور قریظہ ناموں سے مشہور ہیں ۔ قدیم زمانے میں یہاں آنے والے شمالی راستے سے مدینہ منورہ میں داخل ہوتے تھے ۔ رسول اکرم کے زمانے میں انصاری قبائل دونوں حروں کے اطراف میں آباد تھے۔ خَزرجی مغربی حرہ میں رہتے تھے، یہ مسجد نبوی شریف کے مغرب اور جنوب میں ہوتے تھے۔سارے قبیلے ایک ساتھ نہیں تھے، ایک دوسرے کے آس پاس تھے۔ بعض گھرانے مسجد نبوی شریف کے قریب اور دیگر دور تھے۔ خزرجی قبیلے کی شاخوں میں سے بنو سلمہ ،بنوحرام تھے۔ اوس قبائل کے لوگ مشرقی حرہ کے مغربی اطراف میں آباد تھے۔ جب انصار کو پتہ چلا کہ رسول اکرم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرچکے ہیں اور مدینہ منورہ پہنچنے والے ہیں تو انصار روزانہ صبح سویرے مدینہ منورہ سے محبو ب آقا کے استقبال کیلئے قباء آجاتے ، دھوپ ہوتی تو واپس چلے جاتے تھے۔

مسجد قباء کی تعمیر :

رسول اکرم ربیع الاول کے مہینے میں قباء پہنچے تو بنو عمرو بن عوف میں قیام کیا۔ آرام کے بعد نبی اکرم نے سب سے پہلا کام مسجد قباء کی تعمیر کا کیا۔ یہ مسجد کلثوم بن ہدم کی زمین پرقائم کی گئی۔ اس مسجد کا پہلا پتھر نبی اکرم نے خود اپنے دست مبارک سے قبلہ رخ رکھا۔اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ ا   ور حضرت عمر ؓنے ایک ایک پتھر رکھا۔ صحابہ ؓ نے اس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور نبی کریم خودبھی مسجد کی تعمیر کیلئے کام کرتے رہے۔ اسلام میں سب سے پہلے یہی مسجد تعمیر کی گئی۔

حصرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق نے 8 ربیع الاول 13 نبوی بروز دو شنبہ بمطابق 23 ستمبر 622ء کو یثرب کی اس بیرونی بستی میں پہنچے اور 14 روز یہاں قیام کیا اور اسی دوران اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی، اس مقام پر ایک کنواں بھی ہے جو ابوایوب انصاریؓ کے نام سے مشہور ہے۔ 8 تا11ربیع الاول 1ھ بمطابق 3 ستمبر سنہء 632 کے درمیان تعمیر کی گئی۔ ہجرت کے بعد یہ پہلی مسجد تھی ، اس کا ابتدائی نام “مسجد تقوی” تھا۔ اس وقت تک عبادت کے لئے مسجد اقصی ” بیت المقدس” کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی جاتی تھی۔ قبلہ تبدیل ہوا تو سب خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنے لگے۔ قباء کے باسیوں نے جب مسجد قباء کا رخ تبدیل کرنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف لائے اور سب کے ساتھ ملکر قبلہ کا رخ متعین کیا اور ترمیم و اصلاح میں حصہ لیا۔

مسجد قباء کی توسیع :

رسول اللہ کے انتقال فرماجانے کے بعد مسجد قباء کی پہلی تجدید و توسیع کی گئی۔ جو خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ نے توسیع کرائی، اس کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مدینہ کے گورنر کی حیثیت سے اس کی تعمیر نو کی، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ولید بن عبدالملک کے عہد میں توسیع واضافہ کرایا۔ اس کا مینارہ بنوایا اور دالان بنوائے۔ الموصل کے حکام میں سے پہلے جمال الدین الاصفہانی نے 555ھ میں مسجد قباء کی تجدید کرائی، پھر 671ھ میں تجدید ہوئی، آگے چل کر الناصر بنقلاوون نے 733ھ میں تجدید کرائی۔ عثمانی سلطان محمود ثانی نے بھی سنہء 1831 میں اس کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کا کام کروایا۔

سعودی عہد میں مسجد قباء پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی۔ سعودی شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے سنہء 1970 میں اسے از سر نو استوار کیا۔ اس وقت اس کا ایک سادہ مینار، وسط میں گنبد اور رقبہ 40 مربع میٹر تھا۔ خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدالعزیزؒ نے سنہء 1988 کو دوبارہ اس کی تعمیر ِنو کا حکم صادر کیا تھا۔ اس موقع پر اس کا رقبہ کئی گنا بڑھا دیا گیا۔ پرانی عمارت کو ہموار کرکے نئی بنیادں پر کام کرایا گیا۔اس کے 4 مینارے بنائے گئے ۔قدیم نقشے کا خیال رکھا گیا۔ نئی مسجدِ قباء ،جنوبی اور شمالی دالان کی شکل میں بنائی گئی، دونوں کے درمیان کھلا صحن بنایاگیا۔ دونوں دالانوں کو 2 طویل دالانوں کے ذریعے کسر قائمہ سے جوڑا گیا، اس کی چھت ایک دوسرے سے مربوط کی گئی، اس میں 6 بڑے گنبد ہیں، ہر ایک کا قطر 12میٹر ہے۔مسجد پر 56 چھوٹے گنبد ہیں، ہر ایک کا قطر 6 میٹر ہے۔ مسجد کی پوری عمارت تقریبا 15000 مربع میٹر رقبے میں پھیلی ہوئی ہے۔ مسجد کے ساتھ ایک لائبریری اور زائرین کیلئے مارکیٹنگ ایریا بھی رکھا گیا ہے، اور اس میں 10 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، قباء میں میٹھے پانی کا بندوبست ہے۔ ۔مسجد قباء دور ہی سے نظر آتی ہے۔تاریخی ہونے کے علاوہ دیدہ زیب و دلکش منارے اور پر شکوہ عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

مسجد قباء کے فضائل :

سورۂ توبہ کی آیت 108میں اس مسجد کا اس طرح ذکر کیا گیا ہے،ارشاد ربانی کا ترجمہ ہے:

’’جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کیلئے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں عبادت کیلئے کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیا رکرنے والے ہی پسند ہیں۔‘‘ (التوبہ108)۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ :

’’نبی کریم مسجد قباء کی زیارت کیلئے کبھی سوار اور کبھی پیدل تشریف لے جاتے اور 2 رکعت نماز پڑھتے۔‘‘

نبی کریم کا ارشاد ہے:

’’جوشخص اپنے گھر سے وضو کرکے مسجد قباء میں 2رکعت نماز ادا کرے تو اسے ایک عمرہ کا ثواب ملے گا۔‘‘

جادہ قباء (قباء کا راستہ) :

یہاں ایک اور سب سے دلچسپ چیز مدینہ منورہ میں دنیا بھر سے آنے والے زائرین کے لئے ‘جادۃ قباء’ (قباء کا راستہ) بے انتہا مقبول ہورہا ہے۔ یہ قریب دنوں میں ہی مدینہ منورہ کی انتظامیہ کی جانب سے مسجد نبوی سے مسجد قباء جانے والے راستے کو اس قدر خوبصورت بنایا گیا ہے۔ مسجد نبوی سے مسجد قباء جانے والے راستے کو اس خوبصورتی سے تیار کیا گیا ہے کہ تین کلو میٹر طویل مسافت دیکھتے دیکھتے طے ہو جاتی ہے۔ راستے میں اشیائے خوردونوش کے سڑک کنارے کھانے پینے کے اسٹال بنائے گئے ہیں، راستے کو سبز لائٹوں سے سجایا گیا ہے جو رات کو انتہائی دیدہ زیب منظر پیش کرتا ہے۔ اکثر زائرین اسی راستے سے مسجد قباء جاتے ہیں۔ پیدل مسجد قبا جانے والے راستے پر انتظامیہ کی جانب سے خصوصی موٹرسائیکل رکشا کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ یہ تقریباً  پاکستانی رکشوں جیسے ہی ہیں، فی رکشا دو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، اور ایک رکشے کا کرایہ 6 سے 10 ریال تک ہے۔

جادۃ قباء کے راستے میں ‘ قصہ المکان ‘کے عنوان سے ایک نمائش گاہ بھی بنائی گئی ہے جہاں اسلامی تاریخی مقامات کی فلمیں تھری ڈی گلاسز کے ذریعے دکھائی جاتی ہیں۔ وڈیو سینٹر میں اردو سمیت سات مختلف زبانوں کے ترجمے کا بھی خصوصی بندوبست کیا گیا ہے۔ نمائش گاہ کے دو ہال ہیں، ہر ہال میں 45 افراد کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ سینٹر کے اوقات صبح 8 سے دوپہر اور عصر کے بعد سے رات ساڑھے 11 بجے تک ہیں۔

اس “جادۃ قباء” کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کسی اور ہی طلسماتی دنیا میں ہیں۔ شہر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس قدر خوبصورت بنا دیا گیا ہے کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔‘

بئر خاتم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر والی انگوٹھی:

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دور کے سفارتی آداب کے مطابق مختلف مما لک کے سربراہان کے نام اپنے خطوط پر مہر لگانے کا اہتمام فرمایا تھا ۔ اس کے لئے آپ نے بطور خاص انگوٹھی بنوائی جس پر ’’ محمد رسول اللہ‘‘کے الفاظ کندہ تھے ۔آپ کے ہر نامے کے ذیل میں یہ مہر لگی ہو تی تھی۔ آپ کی وفات کے بعد یہ حضرت ابوبکر الصدیق ؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو ان کے حوالے ہوئی ۔حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت عمر فاروقؓ کو ملی ۔حضرت عمرؓ نے انتقال کے بعد حضرت عثمان بن عفان ؓ خلیفہ بنے تو یہ انگوٹھی ان تک پہنچی اور ان سے ہی ایک کنویں میں گر گئی ۔ بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے تین دن تک پانی نکال کر انگوٹی کی تلاش کی لیکن انگوٹھی نہیں ملی۔

جس کنویں میں یہ انگوٹھی گری تھی اس کا نام ’’بئر اریس‘‘ یعنی اریس کا کنواں ہے ۔ اریس یہودی نام ہے جس کا مطلب کسان ہے۔ اس کنویں کو’’ بئر النبی‘‘ یعنی نبی اکرم کا کنواں بھی کہا جاتا ہے تاہم انگوٹھی گرنے کے بعد اس کا نام’’ بئر الخاتم‘‘ انگوٹھی کا کنواں پڑگیا۔ اس کنویں کا تاریخ میں اہم مقام ہے ۔یہ کنواں مسجد قبا ء کے مغرب میں اُس وقت کے صدر دروازے سے 42 میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ ابن نجار کے مطابق کنویں کی گہرائی 6.3 میٹر اور چوڑائی 2.2 میٹر تھی جبکہ پانی کی سطح 1.3 میٹر تھی ۔ بعد کے ادوار میں کھدائی کرکے اس کی گہرائی 8.5 میٹر کردی گئی، سنہء 1317 میں کنویں کی تہہ تک اتر نے کیلئے سیڑھیاں تعمیر کی گئیں لیکن یہ زینہ کس نے تعمیر کرایا اس پر مورخین کا اختلاف ہے ۔ عثمانی دور حکومت میں اس کنویں پر گنبد تعمیر کرایا گیا اور ایک دوسرا گنبد اس کے جنوبی سمت میں تعمیر کرایا گیا۔دونوں گنبد شکستہ حالت میں تھے ۔ جب 1964ء میں مسجد قباء کا چوک تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا ، تب مدینہ منورہ میونسپلٹی نے انہیں منہدم کرا دیا ۔ بعد ازاں مسجد قباء چوک بنانے کے لئے زمین کو ہموار کیا گیا اور ایسا کرنے سے وہ کنواں بھی دفن ہوگیا ۔ اب اس کے آثار بھی مفقود ہیں۔

داخلی مسجد قباء کا منظر :

جب ہم مسجد قباء میں داخل ہوئے، ابتدا میں ہم نے پارکنگ کے پاس باہری صحن میں چند تصاویر لیں، مدینہ منورہ کی ہر زیارت کی روایت کے مطابق  یہاں بھی مقامی خواتین باجرہ،چاول اور دال کے پیکٹ کبوتروں کے لئے بیچ رہی تھیں، اور کبوتروں کے غول کے غول یہاں پر موجود تھے، ہم نے بھی کچھ دیر کبوتروں کو دانہ ڈالا، اور چند تصاویر لیں، مغرب کی نماز کا وقت بہت قریب تھا، یہاں ہر روز نماز مغرب میں زائرین کو افطاری بھی کروائی جاتی ہے۔ بس اذان سے چند لمحے پہلے ہی یہاں پر نوافل کے بعد دوسرے مقام کے لئے روانہ ہوگئے ۔

مسجد کی اندرونی ایک محراب کے اوپر اور آیت تاسیس مسجد کے نیچے ترکی زبان میں قطعہ یہ تاریخ کندہ ہے جس میں “امام المسلمین شاہ جہان سلطان محمود خان” کے عجز اور گناہ گاری کا اظہار کر کے خدمت تعمیر کی قبولیت اور بخشش کی دعا کی گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : اس میں سے کافی تصاویر خاکسار نے مورخہ 28 فروری سنہء 2020 اپنے موبائل سے ہی بنائی ہیں، اور ایک تصویر میں بندہ عاجز خود بھی موجود ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply