• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بائیس رجب المرجب یومِ وصال کاتبِ وحی (شانِ امیر معاویہؓ )۔۔۔۔رمشا تبسم

بائیس رجب المرجب یومِ وصال کاتبِ وحی (شانِ امیر معاویہؓ )۔۔۔۔رمشا تبسم

22رجب کاتبِ وحی,فاتح شام و روم,  خلیفہ ششم امیرالمومنین  و امام المتقین سیدنا امیر معاویہؓ کا یومِ وفات ہے۔  قربان کیوں نہ جائے امتِ مسلمہ حضرت امیر معاویہؓ  پر جنہوں نے حضرت محمد ﷺکے پنکھڑی نما لبوں سے وحی سن کر لکھی۔جن مبارک ہاتھوں نے قرآنِ پاک لکھا ان ہاتھوں اس ہستی کو سلام۔جس نے صحابی رسول ﷲﷺ کی شان میں گستاخی کی وہ ذلیل ہوا۔اس عظیم ہستی کے بارے میں تاریخ کے اوراق سے کیا پوچھتے اور ڈھونتے ہیں لوگ کیا انکے پاس حضرت امیر معاویہؓ کا لکھا ہوا قرآن موجود نہیں؟
آپ کا نام معاویہ بن صخر ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبدالشمس بن عبدالمناف ہے۔ یہ چار پشتوں کے بعد رسول اللہؐ کے شجرہ سے جا ملتے ہیں آپ کا خاندان بنی امیہ خاندان رسول بنی ہاشم کا قریبی تھا ان کے ایک دادا تھے عبدالمناف۔ آپ کو ابوعبدالرحمن اور خال المومنین بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ آپ کی بہن سیدہ ام حبیبہ رسول اللہ ؓ کی ازواج میں شامل تھیں۔ آپ کی ولادت بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی۔ ہجرت کے وقت آپ اٹھارہ برس کے تھے۔علماء کا کہنا ہے کہ آپ والدین کے ساتھ فتح مکہ میں مسلمان ہوئے ہیں۔ آپ نے فتح مکہ کے فوراً بعد ہجرت کی اور مدینہ آگئے ۔ رسول اللہ ؐکے ساتھ آپ جنگ حنین ، طائف اور تبوک میں شریک رہے۔
حضرت معاویہؓ کی کیا ہی شان  کہ آپ رسول اللہ ؐ کے کاتب وحی تھے ۔حجتہ الوداع کے موقع پر حضرت امیر معاویہؓ حضرت محمدﷺ کی اونٹنی پر آپﷺکے ساتھ سوار تھے۔رسول اللہؐ نے خواب دیکھا تھا کہ میری امت کے لوگ پہلی دفعہ سمندر میں جہاد کر رہے ہیں تو آپ بہت خوش ہوئے تھے اور ان کو جنت کی بشارت دی تھی یہ پہلا خوش نصیب لشکر جس نے رسول اللہ ؐ کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا امیر المومنین عثمانؓ کے دور میں قبرص کے جہاد پر گیا تھا اور اس کے امیر ، امیر معاویہؓ تھے۔
*حضرت معاویہ کی شان حضرت محمدﷺاور صحابہ کرامؓ کی نظر میں*
امام احمد اپنی مسند میں امام بخاری ،تاریخ بخاری میں اور امام ترمذی اپنی سنن میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں۔ رسول اللہ ؐ نے آپ کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ اس کو ہدایت یافتہ اور اس کے ذریعہ سے ہدایت دے۔امام نسائی نے اپنی سنن ، ابن خزیمہ نے اپنی صحیح اور امام احمد نے اپنی مسند میں یہ حدیث نقل کی ہے رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ا ے ﷲ معاویہ ؓکو حساب و کتاب کا علم دے اور اسے عذاب سے بچالے۔ابن کثیر نے بیہقی وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ؐنے حضرت معاویہ ؓکو کہا کہ عنقریب اللہ تمہیں میری امت پر حاکم بنائے گا ان کی اچھی بات قبول کرنا اور بری بات سے درگزر کرنا۔(بحوالہ بخاری)
حضرت امیر معاویہؓ اور رسول خداؐکی ملاقات جنت کے دروازہ پر ہوگی (لسان المیزان ص 25)معاویہ کے لشکر کو بشارت جنت خود رسول خدا نے دی
(مجمع الزوائد‘ ج 9 ص357)حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں جب امت میں تفرقہ اور فتنہ برپا دیکھو تو حضرت معاویہ ؓ کی اتباع کرو (بحوالہ البدایہ)الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258)ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے اپنے ہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کو کسی کام سے  مشورے کے لئے طلب فرمایا مگر دونوں حضرات کوئی مشورہ نہ دے سکے تو آپ نے فرمایا  معاویہؓ کو بلاو  اور معاملہ کو ان کے سامنے رکھو کیونکہ وہ قوی اور امین ہے۔نبی پاک ﷺنے فرمایا
اے ﷲ معاویہؓ کو علم سے بھر دے (بخاری جلد 1ص 409).نبی پاک ﷺنے فرمایا اے معاویہؓ تمہارے سپرد امارت کی جائے تو تم اﷲ سے ڈرتے رہنا (بحوالہ بخاری)
حضرت سیدنا امیر معاویہؓ بارہ خلفاء میں شامل ہیں جن کی بشارت رسول کریمﷺ نے دی (تطہیر الجنان ص 15)۔خود امیر معاویہؓ فرماتے ہیں رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ وضو کرو جب ہم وضو کرچکے تو آپ نے فرمایا اے معاویہ! اگر تو خلیفہ بنایا جائے تو اﷲ تعالیٰ سے ڈرنا عدل کرنا (تطہیر الجنان)۔نبی کریمﷺ نے فرمایا ! اے اﷲ معاویہ کو ملکوں کی حکومت عطا فرما۔(کنز العمال‘ ج 1‘ ص 19)۔حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ملکی حکومت کو زینت دینے والا حضرت امیر معاویہؓ سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا (بحوالہ تاریخ بخاری)۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کی طرف جو لشکر بھیجےگئے آپ ؓ اس کے ہراول دستے میں شامل تھے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں گورنر شام کی حیثیت سے آپؓ نے روم کی سرحدوں پر جہاد جاری رکھا اور متعدد شہر فتح کئے ۔حضرت عثمانؓ  کے دورخلافت میں آپؓ نے عموریہ تک اسلام کا پرچم لہرا یا ۔ آپ ؓ  کا ایک اہم جہادی کارنامہ  قبرص کی فتح ہے ۔ شام کے قریب واقع یہ حسین و ذرخیز جزیرہ اس حیثیت سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ یورپ اور روم کی جانب سے یہی جزیزہ مصر وشام کی فتح کا دروازہ تھا ۔
41ھ میں حضر ت حسن ؓ کی خلافت سے دستبرداری پر آپؓ خلیفۃ المسلمین بنے ، تمام مسلمانوں نے آپ ؓ کے دست حق پرست پر بیعت کی ۔ آپؓ کا دور خلافت تقریباً 20 سال پر محیط ہے ۔
*بطور خلیفہ خدمات:*
1۔آپؓ کے دورخلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔  ۔
2۔آپ ؓ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ موسم سرما میں اور دوسرا حصہ موسم گرما میں جہاد کرتا تھا ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فوجیوں کا وظیفہ دگنا کردیا۔فوجیوں کے بچوں کے بھی وظائف مقرر کردئیے نیز ان کے اہل خانہ کا مکمل خیال رکھا ۔
3۔مردم شماری کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا
4۔بیت اللہ شریف کی خدمت کےلئے مستقل ملازم رکھے ۔ بیت اللہ پر دیبا وحریر کا خوبصورت غلاف چڑھایا ۔
5۔تمام قدیم مساجد کی ازسرنو تعمیر ومرمت ،توسیع وتجدید او رتزئین وآرائش کی ۔
6۔سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
7۔پہلی نہر کھدائی۔نہری نظام بنایا۔ اور زراعت کو خوب ترقی دی ۔نو آبادیاتی نظام متعارف کرایا
8۔خط دیوانی ایجاد کیا
9۔ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا  ۔
10۔احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل اور تمام ریکارڈ دفتر میں محفوظ رکھنے کا  نظام متعارف کروایا۔
11۔عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کیں  ۔
12۔طب اور علم الجراحت کی تعلیم کو عام کیا۔
13۔آپ نے بیت المال سےتجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کئے۔
14۔سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
15۔تجارت کو فروغ دیا۔بین القوامی معاہدے متعارف کروائے
16۔عدلیہ کو انتظامیہ سے بلند کیا۔
17۔مستقل فوج کے علاوہ رضا کاروں کی فوج بنائی ۔
18۔بحری بیڑے قائم کئے ۔اسلامی بحریہ قائم کی ۔
19۔جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ کارخانے قائم کئے۔
20۔قلعے بنائے ، فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور ” دارالضرب “ کے نام سے شعبہ قائم کیا ۔
21۔امن عامہ برقرار رکھنے کےلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا ۔
22۔دارالخلافہ دمشق اور تمام صوبوں میں قومی وصوبائی اسمبلی کی طرز پر مجالس شوری قائم کیں
حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا میرا حضرت علیؓ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان ؓ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے فرمایا۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہؓ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258)
معزز قارئین:دشمنانِ صحابہ کرام  من گھڑت داستانیں سنا کر پروپیگنڈا کر کے  حقائق چھپا کر  شر انگیزی میں مصروف ہیں۔مگر جذباتی اور خیالی کہانیوں سے نکل کر حقیقی بنیادوں پر  علم و عقل سے سوچا سمجھا جائے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت امیر معاویہ ؓ کا دامن داغ دار کرنے کے لئے جھوٹی داستانیں گھڑی جاتی ہیں۔ حضرت امیر معاویہؓ کاتبِ وحی ہیں۔اور آخری سانس تک صحابی رسول ﷺرہے  ۔نبی اکرمﷺ انہیں جنت کی بشارت دے چکے ہیں۔ تمام ادوار میں  حضرت امیر معاویہؓ کی اسلام کے لئے بے شمار خدمات ہیں۔ صحابہ کرام ؓ  سے بغض پیدا کر کے در حقیقت دشمنانِ اسلام   ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی آبرو تک  ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں۔  صحابہ کرام پر تنقید کرنے والے در حقیقت  ختمِ نبوت کے دشمن ہیں۔ اور مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کر کے  کافر طاقتیں  اسلام کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔  بغضِ صحابہ کی معافی نہیں۔ لہذا گالی گلوچ بد اخلاقی دکھا کر اپنا دوزخ کی طرف راستہ آسان نہ کریں۔کیونکہ جن ہستیوں پر آپ بد دیانتی اور خیانت کا الزام لگاتے ہیں وہ ہستیاں جنت کی بشارت پا چکی ہیں۔اور ان پر بد گمانی پیدا کر کے لوگ جہنم خرید رہے ہیں۔
اختلاف ہو سکتا ہے۔دلائل کے ساتھ عزت کے دائرہ میں رہ کر کریں۔کیونکہ ان ہستیوں کا احترام سب پہ لازم ہے۔
سلام اے کاتبِ وحی ,فاتح عرب و عجم
صحابی رسولﷺ وہ, بنا جو کاتبِ وحی
وہ با کمال منتظم, عظیم صف شکن جری
بنائی جس نے امتِ نبی کی پہلی بحریہ
سمندروں پہ اس نے دینِ حق کو یوں رواں کیا
غنی کے قاتلوں کا اس نے سدباب کردیا
بچایا دین حق کو اور کامیاب کر دیا
امیرِ شام دین کا سویرا بن کے آ گیا
وہ کوفیوں وہ اشتروں سبائیوں پہ چھا گیا
بڑا کٹھن تھا دور وہ جب بچایا دینِ مصطفیﷺ
سلام اے معاویہ ؓ سلام اے معاویہؓ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply