ہم کورونا کو مزید خطرناک بنا رہے ہیں۔ ‏۔ارشد قریشی

کووڈ 19 کی وبا   ملک میں آئے ایک سال سے زیادہ ہوگیا ، پہلی ، دوسری اور  اب تیسری لہر کا سامنا ہے ،  گزشتہ سال  ماہِ رمضان میں بھی وبا عروج پر تھی اور حالات بتا رہے ہیں کہ شاید امسال بھی ماہِ رمضان میں اس میں شدت  آجائے گی۔سوال یہ ہے  کیا تینوں بار ہمیں کسی نئے قسم کے کورونا کا سامنا رہا یا پھر کورونا ملک سے چلا گیا اور پھر دوبار دوبارہ آیا ؟ یقیناً ایسا نہیں ہے  بلکہ تینوں بار انتظامی کوتاہیوں اور  عوامی بے احتیاطی کے باعث اس میں اضافہ ہوا جس کو ہم پہلی دوسری اور تیسری لہر کہہ رہے ہیں۔

شہر کراچی میں پہلی لہر میں جب اموات کی تعداد بڑھنے لگی ، مساجد،  مدرسے ،مزارات، ریسٹورنٹ، پارک، سینما اور درسگاہیں بند کرنی پڑیں اور گھروں سے کام  کرنے کو کہا گیا  اس وقت بھی تاخیر کے  سبب ہمیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کسی بھی چیز کو شروع کرنے سے پہلے ہوم ورک مکمل نہیں کیا جاتا  ‏،   ادارے اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب پانی  ناک تک پہنچ جاتا ہے اور نتیجہ بد انتظامی اور بے احتیاطی کی صورت میں سامنے آتا ہے ،۔ ماضی میں ایسے ہوم ورک کے بغیر شروع کیے جانے والے کاموں کے نتائج ہم دیکھ چکے ہیں جس میں سوائے نقصان کے کچھ نہیں ہوا، چاہے کتابی ڈرائیونگ لائسنس کے  کمپیوٹرائز لائسنس میں تبدیلی کا اعلان ہو، موٹر سائیکلوں کے لیے الگ لین بنانی ہو ، کراچی سرکلر ریلوے چلانی  ہو یا پھر  کورونا   سے متاثرہ  علاقوں میں  لاک ڈاؤن کرنا ہو۔

ایسی ہی  بد انتظامی اس وقت بھی دیکھنے میں آرہی ہے  کچھ دن پہلے جب بزرگ شہریوں کی  کورونا  ویکسینیشن شروع کرنے  کا  اعلان ہوا  اور ایس ایم ایس کے ذریعہ 1166 پر 70سال سے زائد لوگوں کو رجسٹریشن کرانے  کا مشورہ دیا گیا تو اس وقت تک رجسٹریشن کا سلسلہ ہی شروع نہیں کیا گیا تھا  کئی لوگوں نے 1166 پر رجسٹریشن کرانے کے لیے اپنا شناختی کارڈ نمبر ارسال کیا تو انہیں جواب موصول ہوا کہ ابھی رجسٹریشن کا سلسلہ شروع نہیں کیا گیا ہے آپ کچھ روز بعد رابطہ کریں ۔ حکومت سندھ کی جانب سے شہر کراچی میں جن ویکسینیشن سینٹرز کا اعلان کیا گیا،  کئی بزرگ شہریوں کا کہنا ہے کہ  جب ہم رجسٹریشن کے موصولہ  جوابی ایس ایم ایس میں درج  ‏ ویکسینیشن سینٹر پہنچے تو  ان میں سے کئی سینٹرز اس بات سے بھی لاعلم تھے کہ ان کے ہسپتال کو ویکسینیشن سینٹرز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ، ایسی صورت حال  شہر کے کئی علاقوں میں قائم کیے جانے والے ویکسینیشن سینٹروں میں  دیکھنے کو ملی۔  اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر کے اہم ویکسینیشن سنیٹروں میں بزرگ شہریوں کی خاصی زیادہ  تعداد دیکھنے میں آئی جہاں بزرگ صبح سات بجے ہی پہنچ گئے ۔ شہرِ کراچی میں اب تک 28 ویکسینیشن سینٹروں  کا اعلان کیا جاچکا ہے لیکن  تمام کے تمام میں اب تک ویکسینیشن شروع نہیں کی گئی ہے۔

اس بد انتظامی کے باعث ایک اور صورت حال بھی پیدا ہورہی ہے کہ جن سینٹروں  میں ویکسینیشن شروع کی جا چکی  ہے  وہاں گنجائش سے زیادہ   تعداد  میں  لوگ پہنچ رہے ہیں جہاں ایک طرف تو  کورونا ایس او پیز پر مکمل عمل نہیں ہوپارہا  تو دوسری طرف  سینٹروں میں کئی کئی گھنٹے انتظار کے باعث کئی بزرگوں کا بلڈ پریشیر  بڑھ جاتا ہے اور جب ان کی باری آتی ہے تو ان کے بڑھے ہوئے بلڈ پریشر کو دیکھتے ہوئے  ان کو ویکسین نہیں لگائی جاتی  اور انہیں واپس روانہ کردیا جاتا ہے کہ آپ ایک ہفتہ بعد دوبارہ آئیں۔ سینٹروں میں اب تک ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ جن بزرگوں کو بلڈ پریشر کا مسئلہ پیدا ہوا ہو انہیں کوئی میڈیسن دے کر سینٹر میں ہی انتظار کرایا گیا ہو تاکہ وہ دوبارہ آنے کی زحمت سے بچ سکیں ۔

اس حوالے سے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ این سی او سی اور این آئی ایم ایس اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔جب کہ سندھ میں اس وقت ویکسین کی کمی کا بھی سامنا ہے، شاید اسی صورت حال کے پیش نظر سندھ حکومت کی جانب سے گذشتہ دنوں شہر کراچی میں ایک اور ویکسینیشن سینٹر کا اعلان کیا گیا ہے جہاں 24 گھنٹے ویکسینیشن کی جارہی ہے جو ایک اچھا قدم ہے، اس قسم کے اقدامات سے شہر کے کسی ایک دو سینٹروں میں زیادہ رش ہونے کا سلسلہ ختم ہوجائے اور بزرگ پُرسکون ماحول میں اپنی ویکسینیشن کراسکیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسی صورت حال کا سامنا اس وقت ہی ہوتا ہے جب ہم کوئی فیصلہ عجلت میں  کریں یا پھر اس کے شروع کرنے سے پہلے اس پر ہوم ورک مکمل نہ کریں ۔ حکومت سندھ کو اس حوالے سے سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے زیادہ احتیاط کرنی ہوگی ،  اگر اسی طرح انتظامی کوتاہیاں جاری رہیں تو ہم کورونا کو خود مزید  خطرناک بنادیں گے۔

Facebook Comments

ارشد قریشی
محمد ارشد قریشی کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری کا شغف بھی رکھتے اور میم الف ارشیؔ کے تخلص کے ساتھ اشعار کہتے ہیں ،ہم سماج ڈیجیٹل میڈیا گروپ کے سربراہ اور پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کےنائب صدر ہونے کے ساتھ انٹرنیشنل ریڈیو لسنرز آرگنائیزیشن پاکستان کےصدر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایک اچھا سچا اور مخلص صحافی دنیا کو پرامن اور خوبصورت بنا سکتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply