قصہ ایک دوست کا۔۔رؤف الحسن

حارث اویس ہماری کلاس کا ‘بلاول’ ہے اور میں ‘شیخ رشید’
حارث اویس کو لے کر میرے اور موسی ٰ خٹک کے درمیان بہت سے اختلافات ہیں۔
موسی کی نظر میں حارث بہت اچھا لڑکا ہے۔ جب کہ میری نظر میں حارث لڑکا تو ہے پر ‘اچھا’ نہیں۔ یوں بھی مجھے موسی کے ‘اچھائی’ ناپنے والے پیرامیٹر پر شدید اعتراض ہے۔ موسیٰ  سے بحث کی جائے تو کہتا ہے کہ بنوں میں یہی واحد پیرامیٹر استعمال ہوتا ہے۔ موسی خٹک کی اس دلیل کی تصدیق میرے ایک اور دوست نے بھی کی کہ وہ پچھلے سال ہی بنوں سے ہو کر آیا ہے۔

میری نظر میں حارث کی شخصیت بہت متاثر کن ہے۔ جب کہ موسی کے نزدیک حارث خود ‘متاثرہ’ ہے۔ شروع شروع میں حارث سے اس موضوع پر بات کی جاتی تو وہ “باوا جی” کے سابقے کے ساتھ پنجابی میں ایک طویل گالی دیتا تھا۔ اب وہ صرف مسکراہٹ پر ہی اکتفا کرتا ہے۔

میری اور حارث اویس کی شخصیت میں ایک بنیادی فرق ہے کہ میں نے ہمیشہ زندگی کو black & white صورت میں دیکھا ہے۔ غم میرے نزدیک اس زندگی کا essence ہے۔ جب کہ حارث نے ہمیشہ دنیا میں پھیلی ہوئی رنگینیوں کے سائے میں اپنا نقطہ نگاہ تخلیق کیا۔ یہ رنگینی حارث کے مزاج کا کتنا حصہ بن گئی ہے، اس کے لیے ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔

پچھلی سردیوں کا ذکر ہے۔ میں پہلی کلاس لینے کے بعد یونیورسٹی سے نکل رہا تھا کہ مجھے پارکنگ میں آدھا حارث نظر آیا۔ قریب جانے پر احساس ہوا کہ وہ جھک کر اپنے جوتے کے تسمے باندھنے میں مصروف ہے۔ میں اس کو سلام کرنے ہی والا تھا کہ دفعتاً  میری نگاہ اس کے جوتوں کی طرف پڑی۔ مجھے بے یقینی کا شدید جھٹکا لگا۔ حارث نے کالے جوتوں کے اندر پیلی جرابیں پہنی ہوئی تھیں۔ اس پر ستم یہ کہ اس پر گلابی رنگ کے نقش و نگار بھی بنے ہوئے تھے۔ حیرت و غیرت کا وہ لمحہ میرے اوپر بہت بھاری گزرا۔ میں نے اپنے دل و جگر کو تھامتے ہوئے حارث سے پوچھا یہ کیا ہے؟
“کیا، کیا ہے؟” حارث نے جواب دیا۔
“یہ” میں نے جرابوں کی جانب اشارہ کیا۔
“یہ borjan کے جوتے ہیں۔ 3300 کے لیے ہیں” اس نے خوش ہوتے ہوئے بتایا۔
“ابے ناہنجار یہ جرابیں” میں نے ذرا تیز آواز میں کہا۔
“بھائی تمیز سے بات کر۔ میرا بڑا بھائی آسٹریلیا میں ہوتا ہے” حارث نے تقریباً دھمکی دیتے ہوئے کہا۔

میں سمجھ گیا کہ یہ اس طرح نہیں سمجھے گا۔ میں اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک کونے میں لے گیا اور اس سے پوچھا کہ اس نے جان بوجھ کر گلابی ڈیزائن والی پیلی جرابیں پہنی ہیں یا وہ کلر بلائنڈ ہے؟
کہنے لگا: “اس دنیا کے تمام رنگ ہمارے ہیں۔ ہماری زندگی رنگوں اور روشنیوں کے اس نور سے ہی عبارت ہے”

اس کا یہ فلسفہ سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے معلوم انسانی تاریخ کی ساری لعنتیں اس کے جملے پر بھیجتے ہوئے اسے بتایا کہ اس کے اندر شعور کے ساتھ ساتھ جمالیاتی حس کی بھی شدید کمی ہے اور یہ کہ اس کی یہ ڈیزائن والی جرابیں معاشرے کے سکون کو ذہنی و قلبی اذیت میں بدل سکتی ہیں۔ میری باتوں سے وہ بہت متاثر ہوا۔ نادم ہو کر کہنے لگا کہ وہ آج ہی جا کر یہ جرابیں تبدیل کرے گا۔ میں بہت خوش ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگلے دن میں لائبریری میں بیٹھا تھا کہ حارث اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ نمودار ہوا۔ میں نے پوچھا تبدیلی آ گئی ہے؟ کہنے لگا ہاں۔ پھر اپنے پائنچے اٹھا کر کہنے لگا:
“باوا جی اے ویکھو۔ اے پیلی جراباں نے دوجے ڈیزائن وچ”۔

Facebook Comments