محبت کھرک ہے سے اقتباس۔۔۔۔۔سلیم مرزا

وہ مجھے عرب ڈسکو میں ملی، وہاں ڈھیلے کپڑوں اور چہروں والے عربی بیلے ڈانس دیکھتے، نجمہ عربوں کی جیبیں ڈھیلی کرتی تھی۔
میں اسے یورپیئن سمجھا، وہ مجھے مصری،
جلد ہی اسے پتہ چل گیا کہ وکی کامونکی کا ہے
وہ مراکو کی تھی، مراکو کہاں ہے، مجھے آج تک پتہ نہیں چلا،
بڈوائزر کے ساتھ پیسٹری کھانے والی وہ دوسری حسینہ تھی
پہلی، لسی میں بسکٹ ڈبو کر کھاتی تھی۔۔
نجمہ کو پاکستانیوں سے چِڑ تھی، مجھے پاسپورٹ پہ آرٹسٹ لکھا دکھا کر سمجھانا پڑا کہ فنکاروں کا اور پرندوں کا کوئی وطن نہیں ہوتا،
پندرہ منٹ میں ہی اسے یقین ہوگیا کہ الو بھی ایک پرندہ ہے
وہ بہت مہنگی تھی، اتنی مہنگی کہ اس کی ایک رات کی کمائی سے کامونکی میں دومرلے جگہ آجاتی،
تین دن سے وہ فری تھی، کوئی عراقی اسے ہفتہ بھر کا ایڈوانس دیکر کسی یہودن کے ساتھ سیز فائر کرنے گیا تھا،
نجمہ کو چھوا جاسکتا تھا، ڈانس کیا جاسکتا تھا،
مفت بری میں یہ بھی برا نہیں تھا
لین دینا خاک، محبت پاک
“سوموار کو ایگریمنٹ ختم ہوجائے گا، تم رکو گے سوموار تک؟ ”
اس نے دعوت گناہ دی۔۔۔۔
“نہیں، مجھے کل لوٹ جانا ہے، کوئی روک لے تو دوسری بات ہے ”
وہ مسکرادی ۔۔
“مجھے ہنسنے والی لڑکیاں بہت اچھی لگتی ہیں ، خصوصا ًًً جب وہ مجھ پر  ہنس رہی ہوں، جانتی ہو تھائی لینڈ میں تم میرا پہلا عشق ہو ”
وہ میز پہ میری طرف اتنا آگے آگئی کہ ناک خطرناک حد تک قریب آگئے،
“مجھ سے نہیں پوچھوگے، تمہارے معاشقوں کی تعداد کتنی ہے؟
اس کے سانسوں میں بئیر کا اشتہار تھا،
“میں خواتین سے ان کی آمدنی نہیں پوچھتا ”
میری سرگوشی پہ اس نے اتنے زور کا قہقہہ لگایا کہ ستر سروں نے گھوم کر دیکھا،
ہم پیسٹری شاپ سے اٹھ گئے ، بنکاک جاگ رہا تھا
میں اپنے شہر میں ہوتا تو سوگیا ہوتا۔۔
“سارے پاکستانی رومانٹک ہوتے ہیں “اس نے میری  اٹھائیس انچ کی کمر میں ہاتھ ڈالا،
“نہیں، کچھ شادی شدہ بھی ہوتے ہیں ”
“اور تم “؟ وہ اور قریب آگئی
” I am special edition from defective pieces ”
ةم کافی دور نکل آئے تھے، اس نے راہ چلتے ایک اور بئیر خرید لی،
“میرا ایک خواب ہے “اس نے بئیر کا ایک بڑا گھونٹ لیا اور مجھے دیدی ۔۔
“میں تیس سال کی ہوں، اس فیلڈ میں سخت مقابلہ ہے، میں دوبئی میں فلیٹ لینا چاہتی ہوں ،پانچ سال بھی وہاں لگ جائیں تو باقی عمر آرام سے کٹ جائیگی، بنکاک سے زیادہ پیسہ ہے، اگر جگہ اپنی ہوتو، تمہاری عمر کتنی ہے؟ ”
“بائیس سال ،اور میرے پاس کوئی خواب نہیں ” میں نے ایک بنچ پہ بیٹھتے ہوئے جواب دیا،
ہمارے ہاں خواب دیکھنا جرم ہے ۔ یہ مفروری اسی کی پاداش ہے، مگر میں نے اسے کہا نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

(محبت کھرک ہے سے اقتباس)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply