پخیر راغلے طالبان۔۔زین سہیل وارثی

ایام جوانی میں جب کالج میں تھے تو ایک بار استاد محترم نے فرمایا کہ انسان کی تعریف کریں، ہم سب حیرت میں مبتلا ہو گئے کہ یہ کیا سوال ہے، بھلا انسان کی بھی کوئی تعریف ہوتی ہے۔
انھوں نے ایک خوبصورت مثال دی کہ اگر ابھی اس کلاس میں امتحان بغیر تیاری کے میں لینا شروع کروں تو آپ میں سے ہر انسان چاہے گا کہ اس کے امتحان میں سب سے امتیازی نمبر ہوں چاہے اس کے لئے نقل سمیت تمام حربہ استعمال کرے۔ بقول ان کے انسان کو عام زبان میں خودغرض و کمینہ  کہہ سکتے ہیں۔ میں اس تعریف کو اگر مزید وسیع بیانیہ کی طرف لے کر چلوں تو عرض ہے قومیں بھی خود غرض، کمینی اور احسان فراموش ہوتی ہیں۔

الحمداللہ، اُمت ِمسلمہ، اسلامی تعاون تنظیم، اسلامی فوجی اتحاد و امت مسلمہ کے سب سے کامیاب ترین ملک پاکستان کی کوششیں رنگ لائی ہیں اور بالآخر ہمارے برادر اسلامی ملک افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلاء ممکن ہوا ہے، یہ تمام مشق 20 سال میں مکمل ہوئی ہے۔ اس دوران افغانستان میں ایٹمی ہتھیاروں کے علاوہ ہر قسم کا اسلحہ، گولا بارود و ہتھیار تجربہ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
ہماری مملکت خدادا پاکستان جس کو امت مسلمہ میں قائد کی سی حیثیت حاصل ہے۔ اس مہم جوئی کے نتیجہ میں ہمارے صرف 70 ہزار لوگ (عام شہری و عسکری اداروں کے افراد ) نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور صرف 107 ارب ڈالر کے مالی نقصان کا سامنا ریاستی سطح پر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بالواسطہ طور پر امن و امان و دیگر معاملات کے لئے ہمیں سکول، کالج، جامعات و دیگر ریاستی اداروں کی حفاظت کے لئے کتنے جتن کرنے پڑے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ یہاں تک کہ اب سکول میں بھی ایک مسلح شخص بندوق لے کر کھڑا ہوتا ہے کہ کہیں ہمارے برادر مسلم ملک سے کوئی سر پھرا دوبارہ 16 دسمبر 2014ء کا واقعہ  دہرانے نہ  آ جائے۔

چند دنوں سے ہمارے ملک میں امریکی فوجی انخلاء کو پاکستان و افغانستان کی فتح اور کفر کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ ایسے تمام دانشوروں اور تجزیہ نگاروں سے ایک سادہ سا سوال ہے کہ ہمارے سابق حکمران جناب سید جنرل (ر) پرویز مشرف نے ہمیں 2001ء میں نہایت محنت سے باور کروایا تھا کہ یہ لوگ انسانیت کے دشمن ہیں، اور شہیدوں کے بچوں کو کون حساب دے گا جنہیں کہا گیا کہ یہ جنگ ہماری ہے، ہم نے اس دشمن کا خاتمہ کرنا ہے، یہ طالبان ہمارے اور دنیا کے امن کے دشمن ہیں، ان کا قلع قمع کرنا ہر پاکستانی شہری کا فرض ہے، ہمیں اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے، نیز طالبان کا اسلام کا بیانیہ غلط ہے، اسلام ہرگز رجعت پسند مذہب نہیں، بلکہ اعتدال پسند مذہب ہے۔ اب جیسا کہ روز ِ  روشن کی طرح واضح ہے کہ طالبان آہستہ آہستہ ان علاقوں پر بھی قبضہ حاصل کر لیں گے جو مخصوص حفاظتی انتظامات میں افغان فورسز یا نام نہاد حکومت کے زیر انتظام تھے۔ اب جب انکی حکومت اس خانہ جنگی کے بعد وجود میں آئے گی، تو اصول حکومت تو وہی رجعت پسند ہوں گے، اگر 20 سال بعد بھی ہم نے 2001ء والی صورتحال پر واپس جانا تھا تو اس مشق و بیانیہ کے مقاصد کیا تھا، نیز مذاکرات کی جس میز پر طالبان اور امریکہ کے درمیان اب مذاکرات کروائے جا رہے ہیں اگر 2001ء میں پاکستان ثالث بن کر ان معاملات کو حل کروا لیتا تو نجانے کتنے لوگوں کی جان بچ جاتی، دروغ بہ گردن راوی خفیہ اطلاعات کے مطابق ایک ملاقات ہمارے خفیہ ایجنسی کے چند اہم عہدے داروں اور طالبان کی اعلیٰ  قیادت میں ہوئی تھی کہ اسامہ کو مانگ رہے ہیں آپ انکار کر دیجئے گا، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، گھبرانا نہیں۔ اصل امیدوں پر پانی تب پھیرا گیا جب اپنی عسکری تنصیبات سے اپنے ہی افغان بھائیوں پر حملے کروائے گئے۔

فی الحال کی سوچ یہ ہے کہ باڑھ  لگا کر اور سرحد کی حفاظت کر کے اپنے آپ کو اس عفریت سے محفوظ رکھا جائے، لیکن اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے، طالبان کی حکومت قائم ہوتے ہی ہمارے ملک میں بھی رجعت پسند آوازیں گونجیں گی، اور شریعت کا نفاذ لازم ہو جائے گا، دیکھنا صرف یہ ہے کہ ان آوازوں کو حقیقی جامہ  پہنانے میں کتنا وقت درکار ہے۔ صوفی محمد، مولوی فضل اللہ و دیگر کو مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قومیں بھی انسانوں کی طرح خودغرض، کمینی و احسان فراموش ہوتی ہیں۔ جس طرح محبت و جنگ میں سب جائز ہے اسی طرح ملکی مفاد میں سب جائز ہوتا ہے۔ اس لئے میں بقائمی ہوش و حواس طالبان کی حکومت اور انتظام مملکت کی توثیق کرتا ہوں، رب ِ ذوالجلال ہمارے طالبان بھائیوں کا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply