الٹیمیٹ فوکس(Ultimate focus)-ندا اسحاق

یہ آرٹیکل آپ کے کسی کام کا نہیں، آپ اسے پڑھ کر بوریت کا شکار ہونگے اگر آپ کا تعلق ان دو گروہوں سے ہے، پہلا گروہ جو میری طرح ورک- لائف بیلنس (درحقیقت ورک-لائف بیلنس نام کی چیز کا کوئی وجود نہیں)پر یقین رکھتے ہیں، کیونکہ ایسے لوگ نہ ہی کبھی کام میں امتیازی مہارت حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی ریلیشن شپز میں، ان کا دھیان ہمیشہ دو جگہ تقسیم رہتا ہے۔ دوسرا وہ گروہ جو معاشرے کی تیار کردہ چیک لسٹ ہاتھ میں تھامے ایک عدد نوکری، ڈھائی عدد بچے، ایک ہمسفر اور مختلف قسم کے پلیژرکو ایکسپلور کرکے یا پھر اپنے مسائل سے دھیان ہٹانے کےلیےمختلف طریقوں کو استعمال کرکے دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔
لیکن اس سب میں ایک گروہ ایسا بھی ہے، جو بہت زیادہ نایاب ہے اور یقیناً اپنے کام میں ماہر بھی، یہ گروہ دنیا کے ساتھ نہیں چلتا بلکہ اپنے راستے خود بناتا ہے، ایسے لوگوں کو جرمن فلاسفر نطشے(جنہیں اوسط درجے کے انسانوں سے شدید خار ہے) Übermensch کہتے ہیں۔ ان سپر ہیومنز کے پاس ایک ایسی پاور ہوتی ہے جو اوسط درجے کا انسان تراشنے میں ناکام رہتا ہے اور اس خوبی کو کہتے ہیں——— “فوکس”۔

جب مقصد بڑا ہو تو فوکس اور قربانیاں بھی اسی معیار کی درکار ہوتی ہیں۔ جاپان کے سمورائی “میاموتو موساشی” ایسی ہی ایک فوکسڈ زندگی کی مثال ہیں جنہوں نے اپنی حیاتی میں لڑے جانے والے ساٹھ مقابلوں میں صرف جیت کو اپنا مقدر بنایا۔ موساشی نے آخری مقابلہ جیتنے کے بعد اپنی زندگی اور تلوار بازی سے سیکھے جانے والے وزڈم کو ایک کتاب کی شکل دی جسے “ڈوکوڈو” (Dokkodo) کہتے ہیں جو اکیس اصولوں پر مشتمل اور زندگی بھر جاری رکھی جانے والی پریکٹس کا نام ہے کیونکہ بقول موساشی کے “آپ کی جنگ کے نتائج آپ کی پریکٹس پر منحصر ہوتے ہیں”۔ موساشی محض ایک سمورائی نہیں بلکہ آرٹسٹ، فلاسفر اور قابل بدھسٹ (buddhist) بھی تھے۔ آپ بھی سوچیں گے کہ ایک تلوار باز کے وزڈم سے ہم ماڈرن انسان کیا سیکھ سکتے ہیں؟ یہ اکیس اصول ہمیں ماڈرن دنیا میں مدھم پڑتی انسانی خصوصیت کو دوبارہ روشن کرنے میں مدد کرسکتے ہیں، اور وہ خصوصیت ہے——— “فوکس”۔

۱- موساشی کہتے ہیں کہ ذہن میں موجودہ نظریات کی رو سے معاملات کو دیکھیں گے تو کبھی بھی امپرومنٹ نہیں کر پائیں گے، اس لیے پہلا اصول ہے ‘معاملات کو ویسے دیکھنا جیسے کہ وہ ہیں’، ان پر اپنے نظریات یا آئیڈیل کا رنگ نہ چڑھائیں۔ چونکہ موساشی،سمورائی سے دستبردار ہوکر “رونن” (وہ جن کا کوئی ماسٹر یا استاد نہیں ہوتا) بنے، رونن کو اپنا ہنر تراشنے کے لیے تنہائی اور موجودہ حقیقت کو بنا کسی جانبداری کے قبول کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اپنے مقصد پر مکمل فوکس رکھ سکے۔

۲- سستے پلیژر سے دوری۔ پلیژر آپ پر حاوی ہو اس سے پہلے آپ اس کو قابو میں کرلیں۔محض موساشی نہیں بلکہ تاریخ کے کئی Übermensch یہی تلقین کرتے ہیں۔ اگر پرفیکشن چاہیے، تو انرجی بچانا ضروری ہے۔ موساشی کو بنا کسی ماسٹر کے اپنے ہنر کو تراشنا تھا، پلیژر اس کی پرفیکشن اور فوکس میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔

۳- مینٹل کلیرٹی- اگر آپ اپنے ایموشنز میں پھنسے ہوئے ہیں تو مینٹل کلیرٹی کو بھول جائیے۔ ڈاکٹر ڈینئل کانمن کی ریسرچ کے مطابق انسانوں کے فیصلے جو جذبات سے لیے جائیں انتہائی غیر منطقی ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنے ذہن میں چل رہی سوچ اور باڈی میں اجاگر ہونے والے احساسات کے متعلق مائینڈ فل (mindful) ہونا ضروری ہے۔ اگر ڈر، خوف اور جذبات میں ہیں تو تھم جائیے، اور جب مائینڈ کلیئر ہو تب میدان میں اترنا بہتر ہے، کیونکہ جنگیں جذبات نہیں بلکہ مینٹل کلیرٹی اور فوکس کے ساتھ لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔

۴- اپنے متعلق سرسری جبکہ دنیا کے متعلق گہرائی سے سوچیں۔ کیا ہمارے مرنے سے دنیا رک جاتی ہے؟ کیا کائنات پر ہمارے نہ ہونے سے کوئی اثر ہوتا ہے؟ موساشی کے مطابق ہمارا دنیا پر اتنا اثر نہیں جتنا کہ دنیا کا ہم پر ہے، ہم دنیا پر منحصر ہیں، نہ کہ دنیا ہم پر۔ اس لیے اپنے متعلق زیادہ غرور اور تکبر میں مبتلا ہونے کی ہر گز ضرورت نہیں، بیشک انسان ہونے کی ناطے ہم اہمیت رکھتے ہیں لیکن دنیا اور کائنات کے مقابلے ہماری حیثیت کسی ذرہ کی سی ہے تبھی ہمارے پاس عاجز نہ ہونے کا کوئی جواز ہی نہیں۔ موساشی مہلک بھی تھا اور عاجز بھی، اکیلے اور فوکسڈ رہنے نے اسے عاجزی سکھائی، کیونکہ تکبر اور پرائیڈ جیسے ایموشنز کی زیادتی اس کو فریب کا شکار کرسکتی تھی اور یوں اسکا فوکس اور اسکی پرفیکشن کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔

۵- چاہ اور خواہش جو آپ کے کنٹرول میں نہیں اس سے خود کو الگ کرنا فوکس کے لیے ضروری ہے۔ کسی چیز کی چاہ یا کسی چیز سے دوری کی خواہش دونوں ہی ایک سکے کے دو رخ ہیں، اور دونوں ہی آپ کے کنٹرول سے باہر ۔ دنیا اور کائنات وسیع ہے لیکن ہماری ترقی کا دارومدار ہمارے اندر موجود چھوٹی سی دنیا پر ہی ہوتا ہے۔ یعنی آپکا فوکس آپ کے ایکشن پر ہونا ضروری ہے، نہ کہ ان چیزوں پر جو آپ کے کنٹرول سے باہر ہیں۔

۶- پچھتاوا آپ کی انرجی ضائع کرتا ہے، موساشی کہتے ہیں جو ہوگیا اس پر پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بیشک سیلف-رفلیکشن بہت ضروری ہے، جو غلطیاں ہوئیں ان پر نظر ثانی اہمیت کی حامل ہے لیکن اس پر پچھتاوا غیر ضروری ہے۔ کیونکہ عقل غلطیاں اور ناکامیوں کا سامنا کرنے سے آتی ہے، ہماری اپنی تباہ کاریاں ہی ہمیں تجربہ کار بناتی ہیں تو پھر پچھتاوا کیسا! دلائی لاما کہتے ہیں ‘اگر آپ ہار بھی جائیں تو اس ہار سے ملنے والے سبق کو کبھی نہ بھولیں۔’لوگ اکثر تحائف کو اہمیت دیتے ہیں،چیزوں کی شکل میں یادیں جمع کرتے ہیں، قیمتی تحفے ملنے پر خوش ہوتے ہیں لیکن میرے نزدیک سب سے عظیم تحفہ وہ ہے جو آپ کو کوئی سبق سکھا جائے، کسی سے ملنے والے سبق آموز تجربے سے بڑا اور قیمتی کوئی تحفہ نہیں، اسے intangible asset کہہ سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۷- جلن اور حسد کے لیے ایک فوکسڈ لائف میں کوئی جگہ نہیں۔ چونکہ موساشی کی زندگی اکیلے اور دوران سفر گزری، اس لیے دوسروں کی زندگی کو دیکھ کر جلن کا عنصر پیدا ہونا ضروری تھا، موساشی کہتے ہیں کہ جلن آپ کا فوکس کمزور کردیتی ہے، آپکی نظریں اپنے مقصد اور پریکٹس سے ہٹ کر دوسروں پر ٹہر جاتی ہیں، یوں جلن سے پیدا ہونے والا غصہ ناراضگی (resentment ) آپ کے فوکس کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply