دو روپ (افسانچہ)-ڈاکٹر حفیظ الحسن

ٹرین برلن کے یخ بستہ سٹیشن پر رُکی تو مسافر اپنا سامان لیے ٹرین کے دروازے کی طرف لپکے۔ کچھ ٹرین پر چڑھنے کے لیے اور کچھ اُترنے کے لیے۔ دسمبر کی سرد دوپہر کو سٹیشن خاموش تھا۔ سٹیشن کے لاؤڈ سپیکروں سے برفباری کے باعث ٹرینوں کے پلیٹفارم بدلنے اور تاخیر کے اعلانات ہو رہے تھے۔ سٹیشن کے باہر سفید برف بکھری ہوئی تھی۔ رات کو آسمان سے روئی برسی تھی جو صبح ہر طرف پھیل چکی تھی۔

میں اس شہر میں 12 سال بعد آ رہا تھا ۔ ٹرین سے اُترتے ہی سرد ہوا نے میرا استقبال کیا۔ سامنے وہی بیکری تھی جس پر 12 برس قبل وہ کھڑی تھی۔ سرخ رنگ کا اوورکوٹ اور نیچے برف سے بچنے کے لیے بڑے بڑے بوٹ پہنے، وہ کروسوں آرڈر کر رہی تھی۔ میں نے صبح ناشتہ نہیں کیا تھا,اور بھوک ستا رہی تھی۔ میں بیکری کے پاس گیا اور کئی طرح کے سینڈوچ دیکھ کر مشکل میں پڑ گیا۔ میری جرمن اتنی ٹوٹی پھوٹی تھی کہ میں پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی سینڈوچ میں “بھائی صاحب” کا گوشت نہیں ہے۔ اُس نے میری مشکل بھانپ لی اور انگریزی میں مجھے کہا:
یہ سینڈوچ صرف انڈے اور سبزی کا ہے۔ یہ خریدو۔
شکریہ !میں نے تشکرانہ انداز میں کہا۔
کہاں سے ہو؟ وہ بولی۔
پاکستان اور تم؟
میں ترکی سے۔
استنبول؟
نہیں انقرہ!!
یہاں کیا کر رہی ہو؟
میں یہاں پڑھتی ہوں اور تم؟
بات سے بات چلی۔ میں نے سینڈوچ آرڈر کیا،اور ہم دونوں بیکری میں رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
تم کتنے دن کے لیے برلن آئے ہو؟ اُس نے پو چھا
محض تین دن کے لیے ۔ یہاں کچھ دوستوں سے ملوں گا۔ شہر دیکھوں گا اور پھر واپس۔
واپس کہاں؟
بون!  میں بون یونیورسٹی میں ماسٹرز کر رہا ہوں۔ ابھی ایک مہینہ پہلے یہاں آیا ہوں۔
برلن کیسا شہر ہے؟ میں نے سوال کیا۔
جنگِ عظیم 2 گزر گئی دیوارِ برلن گر گئی مشرقی اور مغربی برلن ایک ہوگئے۔ برلن کا ایک حصہ مشرقی جرمنی میں تھا دوسرا مغربی جرمنی میں۔ اب دونوں ایک ہیں مگر مگر برلن ابھی تک دو حصوں میں تقسیم ہے۔ یہاں ہر شخص کے دو روپ ہیں۔ ایک وہ جو ظاہر ہے ایک وہ جو چھپا ہوا ہے۔
تمہارا کونسا روپ ہے؟ میں نے پوچھا
جو تمہارے سامنے ہے۔
اور دوسرا روپ؟
وہ تم کبھی نہیں ڈھونڈ پاؤ گے۔ اُس نے بات ٹالتے ہوئے کہا۔
سنو! یہاں ایک ٹی ٹاور ہے وہاں سے شہر کو دیکھنا۔ سمجھ جاؤ گے۔ وہ بولی۔
کیا تم میرے ساتھ چلو گی ؟ میں نے کہا
کب؟
پرسوں۔ میں بولا
پرسوں شام میں مَیں فری ہوں۔ ٹھیک 6 بجے شام کو الیکزینڈر پلاٹس پر ملنا، ٹاور اُسکے سامنے ہے۔
ٹی ٹاور سے برلن شام کے منظر میں ڈوبا ہوا تھا۔ اُسکے ساتھ ٹاور سے وہ شہر کتنا بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ہم دونوں دیر تک شہر کی روشنیوں میں ڈوبے رہے۔
سنو؟
میں برلن سے جا رہی ہوں؟ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
کیوں؟ کہاں؟
واپس انقرہ۔ میں وہاں سکول میں جرمن سکھاؤں گی۔ مگر تم برلن دوبارہ آنا۔ جو اس شہر کو چھوڑ جاتا ہے وہ دوبارہ ضرور آتا ہے۔
تم بھی دوبارہ آؤ گی؟ میں نے پوچھا
شاید۔ وہ بولی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹرین سٹیشن کی بیکری پر اُس روز میں نے اُسے ڈھونڈا۔ وہ کہیں نہیں تھی۔ اُس شام ٹی ٹاور پر اُس نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ برلن چھوڑ کر جانے والے دوبارہ برلن آتے تو ہیں مگر اُس روپ میں نہیں جو وہ یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کسی اور روپ میں جس سے وہ خود بے خبر ہوتے ہیں۔ میں خود سے بے خبر ہوٹل کی طرف چل دیا۔
ٹی وی ٹاور اب بھی وہی کھڑا تھا۔ برلن میں برفباری ہو رہی تھی۔ آسمان سے روئی گر رہی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply