​تتھاگت نظمیں سیریز/یسوع۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اپنی ایک انگریزی نظم کا آزاد ترجمہ جو   1995 میں لکھی گئی۔ یہ نظم شری لنکا کےبودھی شاعر شکرارتھؔ کی اس تھیوری پر مبنی تھی کہ گوتم بدھ کے تناسخ کی لڑی میں ایک اور جنم ابھی باقی تھا جس میں صلیب پر شہادت کے بعد اس کی مکتی کا ہونا ایک پیش آگاہ عمل تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر ایسے ہوا کہ بھیڑ ساری چھٹ گئی ۔۔۔
اور آخری بھکشو بھی’’گچھّامی‘‘ کا منتر جاپ کرتا لوٹ آیا

اپنے کُش آسن پہ بیٹھے
بُدھّ اپنی آتما کی آنکھ کھولے
دھیان میں اگلے جنم کو دیکھنے میں محو تھے
جو آخری تھا
(پانچ چھ  صدیاں ہی شاید رہ گئی تھیں)

پاس سے آنند بولا
اے مہا مانو تتھاگت
اب مجھے انتِم بِدا دینے سے پہلے
آخری اُپدیش دو ۔۔نروان کے رستے پہ چل کر
آپ کی مانند ، مَیں بھی
اس جنم کے بعد مکتی چاہتا ہوں

بُدھّ بولے، کون سا نروان، بھکشو؟
کون سی مکتی
جسے میں خود گذشتہ ایک سو جنموں سے
(یا اس سے زیادہ)
ڈھونڈنے کی سعی ِ لاحاصل میں سرگرداں بھٹکتا
وقت سے لا وقت تک رستے بدلتا
اس جنم تک ہی پہنچ پایا ہوں، بولو؟

دست بستہ
پھر کہا آنند نے، بھگوان، میں آوا گون سے
مکت ہونا چاہتا ہوں
روح کو آزاد کرنا چاہتا ہوں

بُدھّ بولے
میں تو اب اس جسم کا چولا بدلنے جا رہا ہوں
جانتا ہوں تم سبھی شاگرد میرے
آنے والے اس جنم میں بھی مرے ہمراہ ہو گے
جس میں مجھ کو
دائمی مصلوبیت کی وہ سعادت بھی ملے گی
جس کو پا چکنے سے میں آوا گون سے
چھوٹ کر نروان حاصل کر سکوں گا
میرے پیروکار، تم آنند ۔۔۔اور دیگر سبھی جو
بُدھّ کی میَں شرن میں جاتا ہوں کہہ کر
سَنگھ میں شامل ہوئے تھے
آنے والے اُس جنم میں
(جو کہ میرا آخری ہے )
تم مرے ایمان سے انکار کر دو گے، مجھے کاذب کہو گے
تم مری مصلوبیت میں دوسروں کا ساتھ دو گے

کب، کہاں پہنیں گے اپنا آخری چولا تتھا گت؟
آپ کا کیا نام ہو گا؟
کچھ کہیں تو!

ہچکچائے، چند لمحے چُپ رہے
پھر زیر ِ لب بولے
پانچ چھ  صدیاں ہی شاید رہ گئی ہیں
ہاں، اسی دنیا میں ، لیکن دور کے اک دیس میں ہو گا
جنم میرا
نام میں رکھا ہی کیا ہے
اِیسُو، عیسیٰ، یا کچھ ایسا نام ہو گا ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاگ اٹھے نیند سے
جیسے کہ انجانے میں سب کچھ کہہ گئے ہوں
اور پھر تنبیہ کے لہجے میں بولے
اب یہاں سے جاؤ ، میں اگلے سفر کے واسطے
تیار ہونا چاہتا ہوں!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply