آغا گُل کا سبالٹرن فکشن۔۔پروفیسر عامرزرین

آغا گُل اُردو زبان و ادب کا معتبر نام ہے۔عصر ِ حاضر کے افسانہ نگاروں میں آغا گُل جداگانہ تشخص کا حامل ہے۔یوں تو آغا گُل نے فکشن میں نت نئے تجربات کئے ہیں مگر اس کا اہم ترین پہلو ‘‘ سبالٹرن فکشن’’ ہے۔ وہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہا۔ ملازمت کے باعث وہ ایسے علاقوں میں بھی گیا، جہاں عام شخص کی رسائی ممکن نہیں۔ بیرون مُلک بھی جیسے فرانس،جرمنی، سوئیٹرزر لینڈ، تھائی لینڈ وغیرہ میں مقیم رہا ۔ مگر اُن کی تصانیف کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے فکشن کے لئے ‘‘بلوچستان’’ ہی کے کینوس کا انتخاب کیا، جو اُس کا آبائی گھر ہے۔آغا گُل کی کتابوں کی فہرست کافی لمبی ہے، ان میں سے چند ایک گوریچ، پرتھوی غوری، گوانکو، آکاش ساگر، پاسنیگان کا مطلب کیا!، بولان کے آنسو، مشین گردی،سونے پہ اُگی بھوک، راسکوہ، پرندہ، تاریخ کی گواہی، بلوچی بائبل کی تاریخ وغیرہ۔ ناول میں ان کے نا ول ‘‘دشتِ وفا، بیلہ، بابو، فسانہء جنات’’ بہت مقبول ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اُن محرکات اور پس منظر کو جاننا ضروری ہے کہ آغا گُل کیوں‘‘ سبالٹرن فکشن ’’ لکھنے کی طرف راغب ہوا۔آغا اپنے والد محمد اکبر خان کے ہمراہ بچپن میں اونٹ،گھوڑے، گھوڑا گاڑیوں بلکہ بیل گاڑیوں پر بھی سفر کرتا رہا، جس کے باعث بلوچستان کی سائیکی اس کی رُوح میں سرایت کر گئی۔اس ناسٹلجیا نے اسے بلوچستان کے ثقافتی اور معاشی تاریخی پس منظر میں فکشن لکھنے کی راہ دیکھائی۔ اوّل تو بلوچستان خود بھی ایک محکوم علاقہ ہے، جسے 13 نومبر 1839 میں تاجِ برطانیہ نے اپنی کالونی بنالیا۔ پھراسے مختلف سرداروں کے تسلط میں اس شرط پر رکھا کہ اندرونی معاملات میں سردار خود مختار ہوں گے۔ لیکن وہ برطانوی حکومت کے وفادار رہیں گے۔بلوچستان میں اخبار لانے پر بھی پابندی رہی۔ وکٹر پریس اور البرٹ پریس لگایا گیامگر وہ صرف سرکاری کاموں کے لئے مختص تھے۔ اخبار چھاپنے، لانے اور پڑھنے پر بھی پابندی تھی۔اس محکومی اور دباؤ کے سبب جو بلوچستان پہ طاری رہا، آغا گُل نے سبالٹرن فکشن کا انداز اختیار کیا۔
عالمی ادب میں ‘‘سبالٹرن فکشن’’ کا آغاز بیسویں صدی کے وسط میں ہوا۔ اس اصطلاح کو سب سے پہلے معروف اطالوی مفکر و دانشور انتونیو گرامچی ( Antonio Gramsci 1937-1891) نے استعمال کیا۔ یہ اصطلاح پہلے پہل سیاسی لٹریچر میں مستعمل تھی جو کہ ایک مخصوص تصور کو اُجاگر کرتی ہے۔سبالٹرن بنائے جانے کا ذمہ دار وہ نظام ہے جو ہزاروں برس سے رائج ہے۔اسے ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ جیسے فوج میں ایک سپاہی ہزاروں برس سے ایک خاص کردار کا اظہار ہے۔ اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی نچلے درجے کے ملازمین سبالٹرن کے ذمرے میں آتے ہیں۔وہ ہر حکم کی بجا آوری کرتے ہیں۔ایک سپاہی اپنے افسر کا بے دام ماتحت ہو ا کرتا ہے۔اُس کی پوری زندگی ماتحتی میں ہی گذرتی ہے۔ وہ کسی بات میں جرح نہیں کرسکتا، کوئی سوال نہیں کرسکتا بلکہ ایک روبوٹ کی طرح اُس کا کام حاکم کے ہر حکم کی تعمیل کرنا ہے۔اُس کی اپنی حیثیت یا رائے نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو اُسے اہمیت نہیں دی جاتی۔دورانِ جنگ قتل وغارت گری کے حالات میں اُسے یقین ہے کہ اگر وہ میدانِ جنگ میں کام آ بھی گیا تواُس کے خاندان کی مالی اعانت ہوتی رہے گی۔ اُس کے خاندان کو اس کی شہادت کے صلے میں نوکری یا پھر اراضی ملے گی۔اس کے علاوہ جان دینے کے صلے میں اُسے کسی تمغے یا اعزاز سے نوازا جائے گا یا پھر ہوسکتا ہے کہ اُسے قومی ہیرو کو درجہ دے دیا جائے۔وہ اپنی پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں جس قدر مستعد ہوگا اُسی قدر اُسے اعلٰی مقام سے نوازا جائے گا۔اور اُس کا یہی رُحجان اُس کی تیز رفتار ترقی کا باعث ہو سکتا ہے۔ بعد از مرگ ان تمام اعزازات اورانعامات کے باوجود اُس کی اپنے حاکم کے لئے وفاداریاں بلکل غیر مشروط ہوتی ہیں۔ اُسے صرف اور صرف حکم کی تعمیل کرنا ہے۔
الٰہامی صحائف اور خاص طور پر اناجیل ِ مقدس میں سبالٹرن کی مثالیں ملتی ہیں۔توریت میں سبالٹرن ازم کی سب سے بڑی مثال قوم بنی اسرائیل کا مصر میں غلامی اور محکومی کا دور تھا۔ جہاں اُن سے زبردستی مشقت کا کام لیاجاتا تھا۔ انہیں کوئی سوال اور اختلاف کا حق نہیں تھا۔بس کام کام اور کام۔ تقریباً نصف صدی کے بعد قوم بنی اسرائیل مصر کی غلامی کے جوئے سے آزاد ی حاصل کرکے وہاں سے ہجرت کرگئی۔
رومی دورِ حکومت کے دوران حضرتِ مسیح اپنی زمینی خدمت کے دوران محکوم اور سرکاری پالیسیوں کے باعث پسے ہوئے لوگوں سے فرماتے ہیں،‘‘ اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ، میں تم کو آرام دوں گا۔’’ یہاں سبالٹرن کی بات ہورہی ہے۔ اسی طرح اُس دور میں محکوم عوام سے ٹیکس اکٹھا کرنے کے لئے ایسے افراد کو چُنا جاتا جوحکومت ِ وقت کے لئے ٹیکس یا محصول اکٹھا کرتے۔ ان حکومتی ماتحتوں کو نفرت اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ یہاں تک کہ اُن کے ساتھ میل جول رکھنے والوں کو بھی ناپسند کیا جاتا اوراُن کی بھرپور انداز میں مذمت بھی کی جاتی۔حضرت ِ مسیح جب اِن لوگوں سے نرمی اور محبت سے پیش آتے ہیں اور انہیں ایمانداری سے اپنے فرائض کی ادائیگی کا درس دیتے ہیں تو اُن کی بھی مذمت کی جاتی ہے۔ اُس وقت کے مذہبی راہ نماؤں نے حضرتِ مسیح کے حواریوں سے کہا،‘‘ تمارا اُستاد محصول لینے والوں اور گناہ گاروں کے ساتھ کیوں کھاتا پیتا ہے؟’’
تاریخ کے اوراق پلٹے ہوئے بیسویں صدی عیسوی میں آجائیں، برصغیر پاک و ہند پر حکومتِ برطانیہ کے دور میں ہندی سبالٹرن کی مدد سے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں فتح حاصل کی۔ سلطنت ِ عثمانیہ کا خاتمہ بھی اپنے سبالٹرن کی مدد سے کیا۔ انگریزوں کی محکومی میں سبالٹرن،‘‘ میرے آقا بُلالے مدینے مجھے’’ الاپتے ہوئے تھری ناٹ تھری بندوقوں پر سنگین چڑھا کر عرب پر حملہ آور ہوئے۔وہ مقدس مقام جہاں پر حاضری کے لئے وہ اللہ تعالٰی سے نسل در نسل دُعائیں مانگتے آئے تھے، اُسی جگہ وہ حملہ کے لئے جارہے تھے۔ اُنہیں سلطنتِ عثمانیہ اورمسلمانوں کی قتل و غارت کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ اور پھر اِس کے بعد ستاون (57) اسلامی ممالک طفیلی ریاستوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔
سبالٹرن ، بے نام و چہرہ، بے شناخت انسان اور حکم کا غلام ہو ا کرتے ہیں۔ لیکن اپنے خاندان سے محبت کے رشتہ کو قائم رکھتے ہیں۔
عالمی جنگوں میں بھی سبالٹرن خندقوں، دلدلی زمینوں، افغانستان کی بنجر پہاڑیوں میں مارے جاتے رہے۔ اُن کی جیبوں میں سے اُن کے بچوں، بیویوں اور محبوباؤں کی تصاویر ملتیں۔جن کی خاطر وہ سبالٹرن کارویہ اختیار کرکے اپنے جیسے انسانوں کے لئے یم دیوتا بن جاتے ۔بظاہر سبالٹرن ،اپنے پیاروں اور دلوں میں بسنے والوں کے نام چٹانوں پر اور درختوں پر کندا کرتے ۔
سبالٹرن پیدایشی ظالم اور خون آشام رویہ کے مالک نہیں ہوا کرتے۔ تاریخ کے پنوں میں جھانکیں تو برطانیہ کا وہ اشتہار اب تک محفوظ ہے جس میں لکھا تھاکہ ‘‘یہ روپیہ اور یہ بندوق آپ کی ہوسکتی ہے، اگر کوئی برطانوی فوج میں بھرتی ہوجائے۔’’وطن سے غداری کرنے والے سبالٹرن کو جائیداد ، جاگیر ، تمغے اور پینشن دی جاتی ۔ وطن عزیز کے حاکم خاندان اسی سبالٹرن رویوں کی پیداوار ہیں۔ اور عصرِ حاضر میں بھی بدستور سیاسی سبالٹرن بنے ہوئے ہیں۔بیرونی حملہ آور بادشاہ اور حکمران اسی دھرتی پر سبالٹرن کے ذریعے قبضہ کرنے کے بعد،اسی دھرتی ماں کو ٹکڑوں میں بانٹ کر انہیں انعام میں بخش دیا کرتے ہیں۔ سبالٹرن ازم پر غور کریں تو پنج ہزاری اور دس ہزاری فرماں بردار سبالٹرن وہی ہوتا جو اپنے حاکم کے لئے ضرورت پڑنے پر پانچ ہزار یا دس ہزار سبالٹرن مہیا کرنے کا پابند رہتا۔ اور عجیب بات یہ کہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہ ہوتی کہ کس سے لڑنا ہے اور کیوں لڑنا ہے۔بس سبالٹرن حکم ملتے ہی قتل و غارت کے لئے روانہ ہو جاتے۔
تاریخی واقعہ ہے کہ جب نصیر خان اوّل کو احمد شاہ درانی کا حکم ملا کہ‘‘ ہندوستان پر حملہ کرنا ہے یہ پیغام ملتے ہی جہاں ہے جیسے ہو چل پڑو،’’ قاصد یہ پیغام لے کر شام میں پہنچا۔ آٹا گوندھا جا چُکا تھا مگر سبالٹرن کی مشینی اطاعت کا یہ عالم تھا کہ گیلا آٹا باندھ کر ساتھ لیا اور کوچ کرگیا۔ ایک منزل کے بعد سبالٹرن رُکا اور اسی گندھے ہوہے آٹا سے روٹیاں بنا کر لشکر کو کھلائی گئیں۔
اگر دیکھا جائے تو سبالٹرازم دراصل دو قومی نظریہ کی طرح ہے یعنی حاکم اور محکوم۔ بے وقعت سپاہی زندہ رہنے کے لئے احکام کی بجاآوری اور قتل و مقاتلہ کے لئے تیار رہتا ہے۔ آغا گُل کے کئی ایک افسانوں میں جوبلوچستان کے پس منظر میں لکھے گئے یہ بات جاننے کا موقع ملتا ہے کہ بلوچستان کی لیویز فورس جو تنخواہ انگریز سے لیتی تھی اور وفا اپنے سردار سے کرتی ۔مگر جب حکم ملتا اپنے ہی ہم قبیلہ افراد کو اطاعت سکھانے کے لئے گرفتار بھی کرلیتی۔
ہماری تاریخ اعلٰی طبقات کے گرد گھومتی ہے۔ حیران کُن بات ہے بھی اور سبالٹرازم سسٹم میں حیران کُن نہیں بھی کہ بادشاہوں اور حملہ آوروں کے ذکر میں سبالٹرن یا ان محکموم طبقات کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔ تاریخ کا مطالعہ کر لیں فاتح اور مفتوح بادشاہوں کا ذکر آپ کو ملے گا لیکن کہیں اُن ہزاروں انسانوں کا ذکر کہیں نہیں ملے گا جو ان حملہ آوروں سے متاثر ہوئے۔ تقسیم ہند بھی مسلم لیگ اور کانگریس کے لیڈروں کے جلسے جلوسوں اور آئینی فتوحات کا بتا کر خاموش ہوجاتی ہے لیکن اُن لاکھوں انسانوں کا ذکر نہیں جو بلوائیوں کے ہاتھوں لُٹ گئے، زخمی ہوئے اور مارے گئے۔اور وہ لاکھوں نفوس جو مہاجر کیمپوں میں یا دورانِ ہجرت جان سے گئے۔اور تو اور جن علاقوں میں پہنچے وہاں کے مقامیوں نے انہیں قبول نہ کیا اور وہ نسل در نسل پناہ گزین، آباد کار اور ڈومیسائل کہلائے۔ ایسے حالات میں اتنی صعبتوں اور مشکلات اُٹھا کر اپنا گھر بار چھوڑ کر آنے والوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔اور اب تک سرکتی رہی ہے۔
سبالٹرن ازم ، تاریخ نویسی کا گویا ایک جدید انداز ہے۔جس میں محکوم طبقوں کا ذکر ملتا ہے۔ اسے سبالٹرن اسٹڈیز یا سبالٹرن تاریخ کا نام دیا گیا ہے۔سبالٹرن تاریخ کے بانیوں میں سر فہرست رانا جیت گوہا ہے۔ اتفاق ہے کہ رانا جیت گوہا اور آغا گُل دونوں تقسیم ِ ہند کے بعد کی پیدایش ہیں۔آزادی سے قبل جو نعرے لگائے جاتے تھے، شیر بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیئں گے، یکساں مواقع ہوں گے، انصاف ہوگا۔ حالات اس کے بلکل برعکس ہوگئے۔ رانا کا تعلق بنگال سے اور آغا کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ دونوں بنگال اور بلوچستان بھوک کے ‘‘ب’’ سے شروع ہوتے ہیں۔آغا تقسیم ہند کے تین برس کے بعد پیدا ہوا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی اضطراب، بے چینی اور دگر گوں حالات دیکھے، جس کی وجہ سے وہ سبالٹرن فکشن کی طرف مائل ہو نا ایک فطری بات تھی ۔
آغا گُل کا پہلاافسانہ، ‘‘محبت کا تحفہ’’ اُس وقت لکھا گیا جب وہ فرسٹ ایئر میں تھا۔ مگر جنگ کوئٹہ میں مسلسل تاریخِ بلوچستان پر کالم اور افسانہ نگاری کو بچگانہ قرار دیتے ہوئے اُس نے سب کچھ سنبھال کر رکھ لیا۔ آغا کا پہلا افسانوی مجموعہ ، ‘‘گوریچ’’( یعنی سرد ہوا) ہے،جس میں 1980 کی دہائی کے افسانے ہیں۔اُس نے محروم طبقات اور بلوچستان کے لئے لکھا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب اُس کے بپلشرز نے احتجاج کیا کہ جو نام وہ اپنے افسانوں میں لکھ رہا ہے،‘‘ گوریچ، سرکک، حقل دماء’’ تو کتابیں بکنے سے رہیں۔ لیکن اُس نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ کہا کہ ، ‘‘ نہ بکیں ، وہ مفت بانٹ دے گا۔’’ اُس کا موقف تھا کہ اوّل تو بلوچستان کو پوچھا ہی نہیں جاتا۔ دیگر پاکستانیوں سے اگر بلوچستان کے چار شہروں کے نام پوچھے جائیں تو کوئٹہ کے علاوہ شاید ہی کوئی مزید نام لے پائے گا۔
آغا کے افسانے پشتو، براہوی، بلوچی اور حتٰی کہ عبرانی نام کے ہوتے ہیں۔ ‘‘گمشدہ انسان’’، ‘‘توتک کی اجتماعی قبر’’ محروم طبقوں کی کسمپرسی، غربت و افلاس اور زندگی کا اصل چہرہ دیکھاتے ہیں جو کہ انتہائی بھیانک ہے۔ اس پر سیاسی نظریات، مسلم لیگ پر تنقید، برسرِ اقتدار طاقت کا مذاق اُڑانا،اس پر کوئی خاص اثر مرتب نہ ہوا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ سرکار دربار کی نظر میں معتوب ٹھہرا۔ سرکاری تقریبات میں آغا کے بولنے پر پابندی عائد کردی گئی۔
ایک ادبی حادثہ کا ذکر آغا نے کیا، کہ مُلک کے ممتاز اور مقبول شاعر میجر شہزاد نئیر جو کوئٹہ میں ایک بڑی ادبی تقریب منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، اس کے ہاں سے حیران چلے آئے کہ مدعو کرنا چاہتے تھے مگر ان کانام نہ تو آئی ایس پی آر کی فہرست میں تھا اور نہ بلوچستان گورنمنٹ کے ادیبوں کی فہرست میں! آ غا چونکہ 1966 سے لکھ رہا ہے، اس بات سے بہت محظوظ ہوا اور کہا کہ صحرا ربذہ کے مکین الگ ہی رہتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر رشید امجد نے آغا گُل کے بارے میں لکھا کہ ‘‘ آنے والی نسلیں اس کے فکشن سے خصوصاً بلوچستان اور عموماً پاکستان کی تاریخ تلاش کریں گے۔’’
آغاگُل کو پاکستان میں اگر اُردو ادب کے سبالٹرن فکشن کا بانی کہا جائے تو اس میں حرج نہیں۔ انہوں نے اُن مقہور اور مظلوم طبقات کے لیے لکھا جو صحراؤں کے خاٹول کی طرح ہے جو خود ہی کھلتے ہیں اور اپنی بہار دیکھا کرخود ہی مرجھا جاتے ہیں، لیکن اپنی موجودگی کے احساس کو امر کر جاتے ہیں۔آغا گُل اُردو ادب اپنی تحریروں میں نت نئے تجربات کے حوالے سے ایک سرمایہ ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply