وکٹم سنڈروم /رشید ودود

علی اکبر ناطؔق کا نام پہلے پہل ہم نے قاضی زکریا کی دیوار گریہ پر ٹنگا ہوا دیکھا، قاضی صاحب لکھنؤ میں ایک کتب خانہ چلاتے ہیں، خامنہ ای کو اپنا رہبر مانتے ہیں اور ان پر اپنی جان بھی نثار کرنا چاہتے ہیں، قاضی صاحب کو شکایت ہے کہ ناطق سے لوگ پُرخاش کیوں رکھتے ہیں پھر وہ خود ہی جواب دیتے ہیں کہ یہ سب ناطق کی شیعیت کی وجہ سے ہے یہ عجیب و غریب جواب سن کر ہم افسوس کرنا ہی چاہ رہے تھے کہ تب تک قاضی صاحب نے یہ کہہ کر ہمیں متحیر کر دیا کہ ‘صاف سچی اور کھری بات تو یہی ہے کہ اردو کا ادیب اگر شیعہ ہے تو اسے اپنی مسلکی وابستگی کو مخفی رکھنا چاہیے۔۔۔جوش ملیح آبادی سے لیکر علی اکبر ناطق تک مخالفت، مخاصمت، کدورت، بغض اور عناد کی ایک واحد وجہ ہے شیعہ شناخت۔

صحیح بات یہ ہے کہ ادب میں مسلک و مشرب نہیں فن دیکھا جاتا ہے اگر فن ہے تو فنکار کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے، نہیں ہے تو رد کرنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگتی، رہی بات اردو والوں کی تو اردو والوں نے محض شیعہ ہونے کی وجہ سے کسی شاعر کے ساتھ کوئی پرخاش نہیں رکھا، انہوں نے تو شیعہ شعراء و ادباء کی بھر پور پذیرائی کی ہے اور پھر کسی شیعہ شاعر نے اپنی شناخت کبھی نہیں چھپائی بلکہ یہ لوگ اپنی پسند و ناپسند اور اپنے تعصبات کی آمیزش اپنے کلام میں اس طرح سے کرتے ہیں کہ سنی انہیں سن کر رقص کرنے لگتے ہیں، اچھے بھلے سنیوں کے تحت الشعور میں بھی غیر ارادی طورپر وہی خیالات پل رہے ہوتے ہیں جو شیعوں کے ذہن میں ہیں، بیشتر سنی ‘شیعہ اصطلاحات، کو استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور ان سادہ لوحوں کو خبر تک نہیں ہوتی کہ ہمارے ذہن و دماغ کو کس شاطر نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے البتہ خود شیعہ حضرات نے اپنے ہم مسلکوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا ہے، میر کی لکھنؤ میں ناقدری کرنے والے سنی نہیں شیعہ تھے، انشاء و مصحفی کو کسی سنی نے نہیں کہا تھا کہ گتھم گتھا ہو جاؤ، یاس یگانہ چنگیزی شیعہ تھے اور انہیں گدھے پر بٹھا کر جوتوں کا ہار پہنانے والے بھی شیعہ ہی تھے کوئی سنی نہیں تھا- قاضی زکریا نے یہ تو بتا دیا کہ شیعہ شاعروں سے پرخاش رکھی جاتی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ خود شیعہ شعراء نے سنی اکابرین کا ذکر کتنے بازاری انداز میں کیا ہے، سنی بیچارے تو اہل بیت کی منقبت کےبغیر ایک قدم نہیں آگے بڑھتے اور شیعہ شعراء جب تک خلفائے ثلاثہ کی مذمت نہ کر لیں ان کا کھانا نہیں ہضم ہوتا-
ادب کے علاوہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی سنیوں نے شیعوں کی رہنمائی قبول کی ہے، ذرا تحریک پاکستان کے رہنماؤں کو دیکھ لیں، آغا خان سوم (باطنی) شیعہ تھے، سر فہرست محمد علی جناح ہیں، آغا خانی تھے پھر ایک مصلحت کے تحت اثنا عشری ہوئے، سنیوں نے ان سے پرستش کی حد تک محبت کی، قائد اعظم بنایا، نواب محمود آباد بھی شیعہ تھے، حبیب بینک کے سیٹھ بھی شیعہ تھے، بادی النظر میں تو ایسا لگتا ہے کہ بس پاکستان ایک شیعہ ریاست ڈکلئر ہونا ہی چاہتا ہے لیکن پھر وہ ہوا جو شیعوں نے سوچا بھی نہیں تھا وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ ٱللَّهُۖ وَٱللَّهُ خَيۡرُ ٱلۡمَٰكِرِينَ- اسکندر مرزا، جنرل یحییٰ یہ سب شیعہ تھے، حد تو یہ ہے کہ سر شاہنواز بھٹو کا خاندان سنی تھا لیکن ایرانی دوشیزہ نصرت کے جال میں زلفی ایسا پھنسا کہ آج اس کا پورا خاندان شیعہ ہے تو قاضی زکریا کا یہ اعتراض بالکل لغو اور بے تکا ہے کہ شیعوں سے شیعیت کی وجہ سے پرخاش رکھی جاتی ہے یہ اعتراض ایسے ہی ہے جیسے گیان چند جین جیسے متعصب کے تعصب کا پردہ جب کوئی فاروقی چاک کرے تو وہ دہائی دیں کہ ہمارے ساتھ تو ہندو ہونے کی وجہ سے سوتیلا سلوک کیا جا رہا ہے ارے بھائی اردو والے تو وہ ہیں کہ جنہوں نے کالی داس گپتا رضا کو ‘علامہ، کا لقب دے رکھا ہے، اردو والے روشن خیال ہیں، روادار ہیں، ایک دوسرے کو نہ صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ قدردانی بھی کرتے ہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ اردو والوں میں تنگ نظر نہیں ہیں، ایسے لوگ ہیں اب سامنے کی مثال محمد حسین آزاد کو لے لیں، آزاد نے آب حیات میں اردو کی خدمت کم انگریزوں کی زیادہ کی ہے، حیران نہ ہوں آزاد انشاء پرداز بعد میں ہیں انگریزوں کے جاسوس پہلے ہیں انہوں نے تو اپنے باپ کے خون کو بھی بھلا دیا، شمس الرحمن فاروقی نے’اردو کا ابتدائی زمانہ، میں آزاد کے تعصب کا پردہ چاک کیا ہے، ذوق اور غالب کی مخاصمت مشہور ہے، زکریا صاحب نوٹ کرلیں کہ دونوں شیعہ تھے آزاد ذوق کے ایسے مداح کہ ان کے چہرے پر چیچک کے داغوں میں بھی خوبصورتی دیکھ لیتے تھے لیکن غالب کے کلام میں تو انہیں کوئی خوبصورتی نظر ہی نہیں آتی تھی، زکریا و ناطق کا یہ معشوقۂ یک چشم مومن کو دیکھ ہی نہیں سکا، ہندو شعراء میں آزاد کو صرف پنڈت دیا شنکر نسیم نظر آئے جو کام فورٹ ولیم کالج کے مصنفین مل کر نہیں کر سکے وہ مولوی باقر کے اس لونڈے نے کر دکھایا، سیاست اور سماج میں انگریز لڑا کر حکومت کر رہے تھے ادب میں یہی کام انگریز مولوی محمد حسین آزاد سے لے رہے تھے-
ادب کے کسی طالب علم سے آپ یہ پوچھیں کہ محمد حسین آزاد تمہیں کیوں پسند ہیں تو وہ پسندیدگی کی وجہ آزاد کی انشاء پردازی کو بتلائے گا لیکن ناطق جیسے متعصب طالب علم آزاد کو اس لئے پسند کرتے ہیں کہ آزاد شیعہ تھے، ناطق نے ایک سوانحی ناول “فقیر بستی میں تھا،، کے نام سے لکھا ہے اس ناول میں ناطق کا قلم عقیدت کے شیرے میں ایسا لتھڑا ہوا ہے کہ وہ حقائق سے بھی چشم پوشی کر کے کوئی اور افسانہ سنانے لگتے ہیں اور ان لوگوں کے لتے لیتے ہیں جو آزاد پر سوال اٹھاتے ہیں، اس ناول میں ناطق نے آزاد کو ایسا بت بنا کر پیش کیا ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا اور اگر کوئی توڑنے کی غلطی کرتا ہے تو ناطق اسے توڑ کر رکھ دیتے ہیں-
لگتا ہے کہ قاضی صاحب نے تاریخ کا سبق علی اکبر جیسے ‘لائق استاذ، سے پڑھا ہے، وہ حجاج بن یوسف، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، جہانگیر اور اورنگزیب سے بھی بیحد خفا ہیں، خفگی کی وجہ ان حضرات کی شیعہ دشمنی ہے لیکن راجہ داہر اور گرو گوبند سنگھ شاید ‘ شیعہ دوست، ہیں اس لئے قاضی صاحب انہیں اپنا ہیرو مانتے ہیں، گرو گوبند کو اپنا ہیرو ماننے میں کوئی قباحت نہیں، نہ قشقہ کھینچنا ہے نہ دیر میں بیٹھنا ہے بس کرنا یہ ہے کہ جسم کے کسی عضو کا بال نہیں کاٹنا ہے، عمامہ باندھ کر کرپان لٹکا کر بندہ بیراگی بن جانا ہے لیکن راجہ داہر کو اگر قاضی صاحب ہیرو مان رہے ہیں تو وہی کرنا پڑے گا جو راجہ داہر نے کیا تھا کیا قاضی صاحب ایسا کر پایئں گے؟ قاضی نوراللہ شوستری کا نام قاضی زکریا نے نہیں لکھا اور نہ ہی ان کا شیعہ ہونا بتلایا، بتلا دیتے تو شاید حق گوئی کا بھرم قائم رہ جاتا-
قاضی صاحب کے نزدیک ‘مسلمانوں کا ماضی شاندار نہیں ندامت اور شرمندگی کا باعث ہے۔ یہ آدھا سچ ہے اور آدھا سچ جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے، پورا سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کا نہیں شیعہ مسلمانوں کا ماضی شرمندگی و ندامت سے پر ہے، فتنۂ مغول کے وقت یہ لوگ تاتاریوں کا جوتا صاف کرتے رہے، صلیبوں کی آندھی اٹھی تو سنیوں کا چراغ بجھانے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، عثمانی جب بھی یورپ کا رخ کرتے تھے تو پیچھے سے یہی لوگ ان کی ٹانگ پکڑ کر کھینچتے تھے یہ تو رہا ان کا ماضی، حال یہ ہے کہ عراق و شام و لبنان و یمن اور لیبیا میں ان لوگوں نے سنیوں کو دیوار سے لگا دیا ہے لیکن یہ لوگ اول درجہ کے ڈھیٹ ہیں، پہلے قتل کرتے ہیں پھر ماتم کرتے ہیں اور پھر قتل کا الزام سنیوں ہی کے سر تھوپ دیتے ہیں-
___________________________________
قاضی صاحب مداح ہیں اور ناطق ان کے ممدوح ہیں، مداح اور ممدوح دونوں آتش زبان ہیں، تاریخ کے ابجد سے بھی ناواقف ہیں لیکن خود کو کسی مؤرخ سے کم نہیں سمجھتے، تاریخ تاریخ ہے عقیدہ نہیں اور نہ ہی تاریخ کو عقیدت کی نگاہ سے پڑھنا چاہئے، تاریخ جذباتیت کی نہیں معروضیت کی متقاضی ہوتی ہے، جذبات و تعصبات کی تاریخ میں کوئی اہمیت ہوتی تو علی اکبر ناطق بھی مؤرخ سمجھے جاتے، علی اکبر ناطق مؤرخ نہیں افسانہ نگار ہیں، ناول نویس ہیں، شاعر ہیں اور نقادی کا بھی شوق رکھتے ہیں لیکن ابھی آپ ذرا ٹھہریں، ناطق کا تعارف ابھی مکمل نہیں ہوا ہے، ناطق یہ سب بعد میں ہیں، شیعہ پہلے ہیں، وہ فن پارے اور فنکار دونوں کو پہلے اپنی میزان رفض میں تولتے ہیں پھر محبت یا نفرت کرتے ہیں، مبشر علی زیدی نے بھی گواہی دی ہے کہ ناطق احمد جاوید سے نفرت اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ان کے بقول “احمد جاوید صاحب کی شاعری میں شیعہ دشمنی پائی گئی ہے”۔ احمد جاوید کا کلام ہماری نظروں سے نہیں گزرا ممکن ہے کہ اس میں شیعہ دشمنی پائی جاتی ہو لیکن خود ناطق اپنی ‘سنی دشمنی، کا اعتراف کب کریں گے، ناطق کی ایک تیسرے درجے کی نظم ہے “حرام نُطفوں سے کیسا ڈرنا،، ایسا لگتا ہے کہ اس نظم کی لفظیات ناطق نے لاہور کے ہیرا منڈی سے مستعار لی ہیں، صاف لگ رہا ہے کہ ناطق نے کسی کوٹھے سے ادب سیکھا ہے، پہلے ہم سنتے تھے کہ شرفاء اپنے بچوں کو کوٹھے پر ادب سیکھنے کیلئے بھیجتے تھے آج دیکھ بھی لیا لیکن شرفاء خیال رکھیں بعض نالائق طالب علم کوٹھوں کی زبان بھی سیکھ لیتے ہیں اور اپنی اس ‘زبان دانی، کی دھاک وہ شرفاء ہی پر بٹھاتے ہیں، ناطق ادب کے پیمبر اعظم ہوں گے لیکن تاریخ میں وہ طفل مکتب بھی نہیں ہیں اسی لئے تاریخ کے کوچے میں جب وہ داخل ہوتے ہیں تو بے ادبی ان کی بلائیں لے رہی ہوتی ہے اور جہالت رقص کناں ہوجاتی ہے کہ یہ کون حضرت آتش کا ہم زباں نکلا لیکن ناطق ان سب سے بے خبر بس اپنی ہانکے جا رہے ہوتے ہیں اور قاضی زکریا جیسے لوگ ناطق کے نطق کا بوسہ لے رہے ہوتے ہیں، کوئی ضروری نہیں ہے کہ ناول نویس تاریخ نویس نہیں ہو سکتا، ہو سکتا ہے خود عبدالحلیم شرر کی مثال ہمارے سامنے ہے، شرر ناول نگار ہیں، مترجم ہیں، مؤرخ ہیں لیکن اس کیلئے پڑھنا پڑتا ہے لیکن جن لوگوں کی تربیت ہیرا منڈی میں ہوئی ہو وہ مؤرخ نہیں ہو سکتے البتہ وہ ہو سکتے ہیں جو مصحفی نے انشاء کو کہا تھا، واللہ تو شاعر نہیں بھانڈ ہے بھڑوے-
علی اکبر ناطق احساس کمتری اور محرومی کے شکار ہیں اسی لئے ان کا لہجہ تلخ ہے لیکن اس تلخی سے اب بساند اٹھنے لگی ہے یقین نہ آئے تو ناطق کے ایک مداح مسعود کی سن لیں، مسعود احمد کو پہلی نظر میں ناطق اچھے نہیں لگے تھے اس لئے کہ ان کے لہجے میں تلخی بہت تھی لیکن بعد میں مسعود احمد کو ناطق اچھے لگنے لگے اتنے اچھے کہ ‘نولکھی کوٹھی، پر تبصرہ کرتے ہوئے مسعود مبصر کم مداح زیادہ نظر آئے ایسی مدلل مداحی کی سعادت تو مولانا حالی کے حصے میں بھی نہیں آئی تھی، سر سید ہوتے تو ناطق کی ‘نولکھی کوٹھی، پڑھ کر بڑے خوش ہوتے، ششی تھرور اگر اردو جانتے تو اپنی کتاب ‘این ارا آف ڈارک نیس، کو دریا برد کر دیتے البتہ محمد حسین آزاد جیسے انگریزوں کے جاسوس ہوتے تو وہ ‘آب حیات، میں ضرور ناطق کو جگہ دیتے، بھئی حوصلہ افزائی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے-
دلچسپ بات یہ ہے کہ ناطق کے لہجے کی روانی اور تلخی کے اکثر لوگ قائل ہیں، مبشر علی زیدی نے بھی سچ لکھا ہے کہ ‘معاشرے میں تلخی اتنی بڑھ گئی ہے کہ بڑے دانشوروں کی زبان بگڑنے لگی ہے۔ یہ افسوس ناک صورتحال ہے، کوئی زیدی صاحب کو جا کر بتلائے کہ ناطق جب بھی منہ کھولتے ہیں زہر ہی اگلتے ہیں، ناطق کا معاملہ تو یہاں تک بگڑ چکا ہے کہ وہ معاشرے کی ہر عورت کو ‘دلال، کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہر مرد کو امرد پرست سمجھتے ہیں، ہر سنی کو شیعہ دشمن سمجھتے ہیں ایسے نفسیاتی مریض کو ہمارے یہاں ادیب سمجھا جاتا ہے یہ بھی ہماری روشن خیالی کی ایک دلیل ہے کہ ہم پاگلوں کو بھی پاگل نہیں سمجھتے-
علی اکبر ناطق جیسے کنویں کے مینڈک کو فنکار کہنا بھی فنکار کی توہین ہے اس لئے کہ فنکار تنگ نظر نہیں ہوتا، وہ ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز ضرور اٹھاتا ہے لیکن فریق نہیں بنتا، اس کی کل دنیا بس اس کا قبیلہ نہیں ہوتا، اپنے قبیلے کیلئے سوچنا کوئی جرم نہیں ہے لیکن جرم تب ہے جب آپ صرف اپنے قبیلے کے بارے میں سوچیں، علی اکبر ناطق کا مسئلہ اس عورت کی طرح ہے جس کی کبھی اجتماعی عصمت دری ہوئی ہو ایسی عورت ہر مرد کو مجرم سمجھنے لگتی ہے، آپ اس سے کوئی بھی بات کریں لیکن اس کی تان یہیں آ کر ٹوٹے گی کہ بھئی میری تو عصمت دری ہوئی ہے یہی معاملہ ناطق کا ہے، ناطق کسی بھی موضوع پر لکھیں، ناول لکھیں یا افسانہ وہ یہ بتانا نہیں بھولتے کہ شیعوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، ارے بھائی ہوئی ہوگی لیکن اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا-
سوال یہ ہے کہ علی اکبر ناطؔق کیا ہیں؟ جواب یہ ہے کہ ناطق فکشن نگار ہیں اور بس، وہ داستان کہیں، ناول لکھیں، افسانہ لکھیں، ناول لکھیں، شعر و شاعری کریں، ناطق تو اس لائق بھی نہیں کہ تنقید لکھ سکیں، کیا ہر شاعر ناظم مشاعرہ ہو سکتا ہے اگر ہو سکتا ہو تو پھر مجھے اجازت دیں میں باقر علی داستان گو کو سلطنت مغلیہ کا مؤرخ کہوں، ہر انشاء پرداز شبلی نہیں ہو سکتا یہ نکتہ ناطق جتنا جلدی سمجھ لیں گے ان کے حق میں اتنا ہی اچھا ہوگا-

بشکریہ فیس بُک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply