اماراتیوں کی عید

اماراتیوں کی عید
عظمت نواز
خدا کا شکر ہے کہ دیار عرب میں عجم کی نسبت ہماری تمام نہیں تو اکثر عیدیں دھندے پر ہی گزری ہیں کیونکہ کسی سیانے نے کہہ رکھا ہے “دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں” اسی کارن ہم اکثر و بیشتر عید ،دوران اوقات روزگار ہی ادا کرتے تھے۔ البتہ کچھ لوگوں کے لیےآج کل دھرم سے بڑا کوئی دھندہ نہیں – اتفاق سے اس بار عید پر ہمیں کام سے اور مردود شیطان کو قید سے رہائی اتفاقاً ایک ساتھ ملی- اپنی رہائی پر تو ہمیں کوئی شک و شبہ نہ تھا البتہ ہمارے حکمرانوں کے برادر بزرگ کی رہائی بابت تشکیک کا عنصر موجود تھا ،جس کا رفع ہونا از حد ضروری تھا –
ویسے تو ہم پنج وقتی و گوشہ نشینی پر یقین رکھتے ہیں۔ بھلے کر پاویں یا نہ کر پاویں وہ ایک الگ قصہ ہے – بہرحال اسی تشکیک کے غالب عنصر، کہ آیا ابلیس قید خانے سے رہا ہوا یا نہیں( بھلے ہمارے ہاں آج گرفتاری دے کر کل رہائی پا جاو پھر اسکے بدلے عمر بھر ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دو کہ شیطان بھی منہ تکتا رہ جائے) کی تحقیق واسطے ہم نے ایک دوست کے ہمراہ دوبئی کے ایک کلب کا رخت سفر باندھا جہاں کی اخبار ہمارے دل لبھائے رکھتی ہیں بلکہ ستائے رکھتی ہیں سو دل فگارو چلو کا ورد کرتے روانگی ہوئی –
وہاں تشریف لے جانے کا مقصد کوئی ذاتی تسکین ہرگز نہ تھی بلکہ تھی تو فقط شیطانی کرتوت و فسوں دیکھنے کی کہ شیطان رہائی پا کر کس طرح ٹن ہوتا ہے اور اس طرح ہمیں اسکی رہائی پر یقین بھی آجائے گا – ہم نے کلب کے علاقوں میں قدم رنجا فرماتے ہی مختلف جگہوں پر فریب آریانہ نظریں خود پر جمی دیکھیں مگر سادگی دیکھ کہ میں سمجھ نہ پایا وہ تو نظری سوالات کا مخطوط تھا جس کے جواب عاجز نہ دے پایا توذرا آگے کھسک گئے – ان ستم ظریف گلیوں میں بارہا جی چاہا برسوں کے دبے جذبات کو آج اظہار غم کا موقع دے کر جاں خلاصی کراؤں مگر –
“لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت میری “۔والا معاملہ ہی رہا ۔سو وہاں سے بھی کنی کترا کر نکل لینے میں عافیت جانی – ان کوچوں میں نادیدہ قسم کی قوت کشش بہرصورت محسوس کی جو جان لیوا نہ سہی جیب لیوا ضرور تھی – تاہم، ہم اپنے اصل مدعے یعنی تحقیق در معاملات رہائی ابلیس سے کسی طور غافل نہ ہوئے تھے۔ بھلے ہزار کھینچا ان در و دیوار نے مگر بندہ مومن ثابت قدم و جیب کو تھامے رہا- آخر کار کئی جاں خراش و جگر خون کر دینے والے مناظر سے صرف نظر فرماتے ہوئے ایک کلب کے دروازے تک جا پہنچے جہاں جانا مقصود تھا مگر وائے حسرتا –
بوھے پر کھڑے غیر مومنین نے یہ روح فرسا خبر دی کہ “آج کلباں وچ مومناں دے داخلے بند نے”ہم یہ سن کر کھڑے کھلوتے وہیں حالت استغراق میں چلے گئے تاآنکہ ہمارے دوست نے ایک کونی در پسلیان من رسید نہ کر دی – ہوش و حواس واپس پا کر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ لگتا ہے شیطان کی رہائی اس وقت تک عمل میں نہیں آئی۔ ورنہ ہم مومنوں کو اس دلخراش خبر کےبجائے جاں فزا خبر ملتی کہ ابلیس کی رہائی پر آپ مومنوں کو کلب میں داخلے کی اجازت مرحمت فرمائی جاتی ہے –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply