• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • شہزادہ جمشید اور فلسطین کی یرغمالی حیثیت/محمد ہاشم خان

شہزادہ جمشید اور فلسطین کی یرغمالی حیثیت/محمد ہاشم خان

تاریخ سائڈ مِرر یا ریئر ویو مرر (گاڑی کے پیچھے کا منظر دکھانے والا آئینہ)ہے جس کے بغیر گاڑی چلائیں گے تو ایکسیڈنٹ کا خطرہ برقرار رہے گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا سفر بہ آسانی، خیر و عافیت سے، بغیر کسی سانحے کے گزر جائے تو آپ کو سائڈ مرر یا ریئر ویو مرر سے وقفے وقفے سے دیکھتے رہنا ہوگا کہ پیچھے سے کوئی گاڑی تو نہیں آ رہی ہے، غلط سائڈ سے کوئی اوورٹیک تو نہیں کر رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں تاریخ ہمیں وہ مواقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور وہ غلطیاں نہ دہرائیں جو ہمارے پیش رو کرچکے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کی تاریخ سے شدھ بدھ رکھنے والوں کو معلوم ہوگا کہ فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح کے دو بیٹے تھے۔ بڑے لڑکے کا نام سلطان بایزید ثانی تھا جس کی عمر 35 سال تھی اور دوسرے بیٹے کا نام جمشید تھا جس کی عمر 22 سال تھی۔ بایزید کسی قدر سست اور دھیمی طبیعت رکھتا تھا جب کہ اس کے برخلاف جمشید نہایت چست، مستعد اور جفاکش شہزادہ تھا۔بایزید ایشیائے کوچک کے صوبے کا گورنر تھا اور مقام اماسیہ میں مقیم تھا جہاں سے قسطنطنیہ (استنبول)کا فاصلہ محض پانچ سو کلو میٹر تھا۔ جب کہ جمشید کریمیا (موجودہ یوکرین کا ایک علاقہ )کا گورنر تھا اور وہاں سے قسطنطنیہ کا فاصلہ کل دو ہزار کلو میٹر کے آس پاس ہے۔سلطان محمد فاتح کی وفات کے وقت ان دونوں شہزادوں میں سے ایک بھی قسطنطنیہ میں موجود نہیں تھا۔ دربار میں تخت نشینی کو لے کر ریشہ دوانی شروع ہوئی، جمشید کو جب باپ کے مرنے کی خبر مل تب بایزید تخت نشین ہوچکا تھا۔ جمشید اس بات سے واقف ہوچکا تھا کہ اگر وہ سلطنت سے دست بردار بھی ہوجائے تب بھی اس کا بھائی اسے زندہ نہیں چھوڑے گا لہٰذا بایزید کا مقابلہ کرنا اس کی مجبوری تھی۔ 1481 میں پہلی جنگ ہوئی، عین معرکہ جنگ میں جمشید کی فوج کے اکثر سردار بایزید کی فوج سے مل گئے اور اسے شکست کھانی پڑی۔اِدھر دونوں بھائی ایشیائے کوچک میں مصروف جنگ تھے تو اُدھر دوسری طرف عیسائیوں نے اس تصادم کا فائدہ یوں اٹھایا کہ اوٹرانٹو (اطالوی قصبے)سے ترک مسلمانوں کا بے دردی سے صفایا کر دیا۔ اس آپسی جنگ کا نقصان صرف یہ نہیں ہوا کہ روم میں داخل ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا بلکہ اس کا ایک سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اندلس کے ضعیف مسلمانوں کو جو مالی امداد پہنچنے والی تھی وہ امکان بھی ختم ہو گیا اور یوں 897ھ میں اندلس سے اسلامی حکومت کا نام و نشان مٹ گیا۔

جمشید شکست کھانے کے بعد ایشیائے کوچک میں نہیں ٹھہرا۔ وہ مصر کی مدد سے واپس بایزید کے خلاف بر سر پیکار ہوا اور اس بار خوب شدید لڑائی ہوئی لیکن ایشیائے کوچک کے بعض سرداروں نے دھوکہ دے دیا اور وہ بایزید کی فوج میں شامل ہوگئے۔شکست کے بعد اس بار جمشید مصر نہیں گیا۔ اور یہیں سے شروع ہوتی ہے اس کی عبرت آموز داستان۔ جمشید نے روڈس کے حکمران عیسائیوں کی پارلیمنٹ کو خط لکھا کہ کیا تم اس بات کی اجازت دے سکتے ہو کہ میں تمہارے جزیرے میں چند روز قیام کرکے پھر یونان اور البانیہ کی طرف چلا جاوں اور اپنے ملک کو حاصل کرنے کی کوشش کروں۔ عیسائیوں نے جمشید کے اس ارادے کو نعمت غیر مترقبہ سمجھا۔ روڈس کی پارلیمنٹ کے صدر مسمی ڈی آبسن نے فوراً جمشید کو لکھا کہ ہم آپ کو سلطنت عثمانیہ کا سلطان تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی تشریف آوری ہمارے لیے موجب عزت و افتخار ہوگی اور میں اپنی پارلیمنٹ کی جانب سے آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ ہماری عزت افزائی کے لیے ضرور روڈس میں قدم رنجہ فرمائیں۔ ہماری تمام فوج، تمام جہاز، تمام خذانہ اور تمام طاقتیں آپ کی خدمت گزاری اور اعانت کے لیے وقف ہیں۔ ڈی آبسن نے فوج کے ساتھ شہزادے کا شاندار استقبال کیا لیکن شہزادے کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ وہ کوئی شہزادہ نہیں بلکہ یرغمال قیدی ہے۔ اس نے بایزید کو خط لکھا اور شہزادہ جمشید کے حالات سے مطلع کیا۔ بایزید نے ڈی آبسن کے تمام مطالبات کو آسانی سے تسلیم کر لیا اور سالانہ 45 ہزار ڈاکٹ (یعنی تین لاکھ روپے سے بھی زیادہ کی رقم) بھجواتا رہا۔

علاوہ ازیں جمشید کی ماں سے بھی سالانہ ڈیڑھ لاکھ روپے لیتا تھا اس دھمکی کے ساتھ کہ اگر تم نے پیسے نہیں دیئے تو ہم شہزادے کو تمہارے بڑے بیٹے کے حوالے کردیں گے۔ شہزادہ جمشید 13 سال تک یورپ کے مختلف ملکوں میں بطور غلام گردش کرتا رہا۔ وہ ایک نہایت قیمتی مال تھا جو یورپ کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ ڈی آبسن نے اسے سلامتی کے مدنظر فرانس بھجوا دیا، پھر فرانس سے پوپ کے پاس بھجوادیا۔ پوپ شینوس نے شہزادے کی دکھ بھری داستان سنی تو اس نے مشورہ دیا کہ اگر آپ عیسائی مذہب قبول کرلیتے ہیں تو آپ کا سارا مسئلہ حل ہوجائے گا جس پر شہزادے نے کہا کہ سلطنت عثمانیہ کیا ساری دنیا کی حکومت اسے ملنے والی ہو تو بھی وہ ٹھوکر مار دے گا لیکن اسلام سے دستبردار نہیں ہوگا۔ پوپ شینوس کے انتقال کے بعد اسکندر پوپ مقرر ہوا جو سابقہ پوپ کے مقابلے میں زیادہ شریر اور فتین تھا۔اس نے اپنے سفیر جارج کے ذریعے بایزید کو پیغام بھیجا کہ چالیس ہزار ڈاکٹ سالانہ جو پہلے سے مقرر ہے، وہ آپ بدستور بھیجتے رہیں اور تین لاکھ ڈاکٹ ایک مشت آپ بھیج دیں تو میں ہمیشہ کے لیے آپ کو جمشید کے خطرے سے نجات دے سکتا ہوں، یعنی اس کو ہلاک کر سکتا ہوں۔ یہ سفیر ابھی قسطنطنیہ میں مقیم تھا کہ 901ھ میں فرانس کے بادشاہ چارلس ہفتم نے اٹلی پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کا سبب بھی سوائے اس کے کچھ اور نہ تھا کہ شہزادہ جمشید کو اب نئے پوپ اسکندر کے قبضے میں نہ رہنے دیا جائے اور گوہر گراں مایہ کو اپنے قبضے میں لیا جائے۔

قصہ مختصر اینکہ چارلس شہزادے کو اپنے ساتھ لے کر نیپلز چلا گیا۔ پوپ اسکندر کی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں لیکن چونکہ سلطان بایزید تین لاکھ ڈاکٹ دینے پر راضی ہوگیا تھا سو پوپ نے شہزادہ جمشید کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسکندر نے ایک یونانی حجام کو اس کام کے لیے منتخب کیا۔ یہ یونانی حجام اول مسلمان ہوگیا تھا اور اس کا نام مصطفیٰ رکھا گیا تھا لیکن بعد میں وہ مرتد ہوگیا۔ پوپ نے اس مصطفیٰ حجام کو زہر کی ایک پڑیا دی۔ اس زہر کا اثر یہ تھا کہ آدمی فوراً نہیں مرتا تھا بلکہ چند روز کے بعد بیمار ہوکر مرتا تھا اور کوئی دوا کارگر نہیں ہوتی تھی۔ اس نے موقعہ پاکر کسی طرح دھوکے سے زہر کی پڑیا شہزادہ جمشید کو کھلا دی اور وہ لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوکر انتہائی نحیف و ناتواں ہوگیا۔ جب مصر سے اس کی ماں کا خط اس کے پاس پہنچا تو وہ اس خط کو کھول کر پڑھ بھی نہ سکا اور اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے”الٰہی! اگر یہ کفار میرے ذریعے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو مجھ کو آج ہی اٹھا لے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے بچا لے”۔ اس کی لاش بایزید کی درخواست پر اس کے پاس بھیج دی گئی اور اس نے جمشید کو بروصہ میں دفن کرایا۔ بایزید نے وعدے کے مطابق پوپ اسکندر کو پیسے عطا کئے اور حجام مصطفیٰ کو بلا کر اپنے یہاں رکھا اور پھر ترقی دے کر اس کو وزارت کے عہدہ جلیلہ تک پہنچا دیا۔(تاریخ اسلام جلد دوم سے مقتبس)

سلطنتوں کے معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں، کیا بھائی، کیا بیٹا اور کیا باپ، اقتدار کی سالمیت کے لیے جس مہرے کو جہاں ضرورت پڑتی ہے قربان کر دیا جاتا ہے۔ کہاں پہلے تو یہ تھا کہ جس ترک سردار نے شہزادہ جمشید کا بچا کچھا سامان لُوٹ کر دربار سلطانی میں داخل ہوا تھا اسے قتل کروا دیا تھا اور کہاں اب حسن معاملہ یہ کہ بھائی کو قتل کرنے والے مصطفیٰ حجام کو وزارت کا منصب جلیلہ عطا کیا جا رہا ہے۔ شہزادہ جمشید کی زندگی فلسطین کی تمثیل ہے، جو حشر شہزادے کا ہوا ہے نوشتہ دیوار بتا رہی ہے کہ ٹھیک وہی حشر فلسطین کا ہونے والا ہے۔ جب تک شہزادہ قتل نہیں ہوا تھا، روڈس، ہنگری، فرانس اور اٹلی اسے مفت دودھ دینے والی گائے بنائے ہوئے تھے، سلطان بایزید مغربی طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا تھا اور جیسے ہی شہزادہ قتل ہوا سلطان آزاد ہوگیا۔ فلسطین ایک یرغمالی اسٹیٹ بنا ہوا ہے۔ اسرایئل، یورپی یونین اور امریکہ ایک طرف ہیں، مشرق وسطیٰ، مغربی ایشیا، سینٹرل ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے مسلم ممالک ایک طرف ہیں اور درمیان میں ہے فلسطین— نحیف، بیمار، لہولہان فلسطین، ایک یرغمالی فلسطین جو نہ تو مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی کوئی شرط منوانے کی طاقت رکھتا ہے، وہ صرف مزاحمت کرسکتا ہے اور یونہی مزاحمت کرتے کرتے بالآخر ایک دن تھک ہار کر جاں بحق ہوجائے گا، شہزادہ جمشید کی طرح اسے قتل کرنے کی بھی ضرورت درپیش نہیں آئے گی اور اگر ایسا ہوا تو یہ قتل اسرائیل کرے گا اور مٹھائیاں مسلم ممالک تقسیم کریں گے۔ فلسطین کو قتل کرنے کی بظاہر دو صورتیں ہوسکتی ہیں، پہلی صورت تو یہ ہے کہ اسرائیل بتدریج پورا فلسطین ہڑپ کر لے جائے۔ تقریباً بارہ فیصد فلسطین بچا ہوا ہے اور اتنا ہڑپ کرنے میں اسے زیادہ سال نہیں لگیں گے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر سارا قضیہ ہی ختم ہو جائے گا لیکن پھر وہ زندگی بھر سامری کی طرح ‘لا مساس لا مساس’ کہتا پھرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

فلسطین کو قتل کرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ وہ فلسطین کی یرغمالی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے مسلم دنیا سے سمجھوتہ کرے، اور اس کے لیے فلسطین کا ایک چھوٹا سا قطعہ اس کے پاس ہونا چاہئے تاکہ وہ مسلم دنیا کو مذاکرات کے میز پر لاسکے۔ سودے میں کچھ تو کشش ہو بصورت دیگر خریدار نہیں ملیں گے۔ مسلم دنیا سے سمجھوتہ کرنا اسرائیل کی مجبوری نہیں سیاسی فراست ہے۔ اس نے فلسطین کو جتنا ہڑپ کرنا تھا کر لیا ہے، اب مزید کچھ بچا نہیں ہے، سو زمین کے ایک معمولی قطعے کے عوض اگر مسلم دنیا اسے تسلیم کر لیتی ہے تو اس سے زیادہ نفع بخش سودا بھلا اور کیا ہوسکتا ہے۔ سو فلسطین کو قتل کرنے کی یہ جو دوسری مذاکراتی صورت ہے اس کے کامیاب ہونے پر ماسوائے فلسطین تمام اسٹاک ہولڈرس مٹھائیاں تقسیم کریں گے۔ مسئلہ فلسطین کا جو بھی حل نکلے اس میں فلسطینیوں کا اپنا کچھ خاص فائدہ ہونے والا نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ زمین کے ایک مختصر سے قطعے پر ننگے بھوکے عوام کی طرح، اسرائیل کے سائے میں آزاد گھوم رہے ہوں گے، اور حماس یہ بات جانتی ہے کہ ایک یرغمالی فلسطین ایک آزاد فلسطین سے زیادہ نفع بخش ہے۔ جب حماس یہ کہتی ہے کہ وہ اسرائیل کو ایک انچ نہیں دے گی تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اسے ایک یرغمال فلسطین زیادہ پسند ہے۔

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply