​ موت کی آندھی – ایک غصیلی نظم۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بد صورت، مکروہ چڑیلوں
کی مانند گلا پھاڑتی، بال نوچتی
دھاڑیں مارتی، چھاتی پیٹتی
باہر ایک غصیلی آندھی
پتے، شاخیں، کوڑ کباڑ، کتابیں اپنے ساتھ اڑاتی

مُردہ گِدھوں کے پنجوں سے جھٹک جھٹک کر
زندہ حیوانوں سے ان کی جان چھینتی
کھڑکی پر دستک دیتی
یہ بار بار کہتی ہے مجھ سے
چوہوں کی مانند بلوں میں
چھُپ کر مت بیٹھو، اے شاعر
باہر نکلو

باہر نکلو
اور اگر ہمت ہے تو ان گِدھوں کے پنجوں سے
’پنگا‘ لے کر دیکھو’
تم نے شاید سقراطوں کی
نئی نسل کے بارے میں کچھ سن رکھا ہو
گھر کے اندر چھپ کر بیٹھے چوہے ہیں سب

سب کو علم ہے
باہر نکلے تو سب کے سر
نوچ لیے جائیں گے۔۔۔۔چوراہوں پر
بجلی کے کھمبوں سے لٹکائے جائیں گے

Advertisements
julia rana solicitors

کیا سوچا ہے؟
میں البتہ یہی کہوں گی
باہر مت نکلو اے چوہے دانوں کی مخلوق
کہ داناؤں نے کہا ہے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply