ناگن کی مجبوریاں

بیشک چیونگم کی مٹھاس اور شادی کا نشہ پائدار نہیں ہوتا لیکن دونوں کی طبعی عمر کافی طویل ہوتی ہے، چیونگم البتہ جب تک منہ میں ہو تب تک کہیں چپکتی نہیں، شادی کا بھی یہی چکر ہے جب تک منہ بند رہے تب تک امن برقرار رہتا ہے۔

چیونگم اور شادی کے بعد ایسی تیسری پائدار کیفیت ہمیں ٹیوی ڈراموں میں ملتی ہے جو ناطرین کی جان کو ایسے ہی چمٹتے ہیں جیسے راستے میں چبا کے پھینکی ہوئی چیونگم چپل سے چمٹتی ہے، خاص طور پہ اخلاق و تمیز سے عاری سوپ ٹائپ کے ڈرامے بڑے پیمانے پر عوام کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتے ہیں جن کا ایک ایک جملہ پورا پورا ایک ایکٹ کھا جاتا ہے حالانکہ ان میں بات بھی کوئی خاص نہیں ہوتی لیکن سسپینس البتہ خوب ہوتا ہے جیسے کہ:
نندنی……! تمھیں اشوک چھوڑ گیا؟

اس سوال کے بعد پھر دڑدڑدڑدڑدڑدڑ، ڈمڈمڈمڈمڈمڈم کے ساتھ بادلوں کی گرج چمک میں کوئی ایسا ساز باقی نہیں بچتا جو اس ایک جملے کے گرد زور و شور کیساتھ بجایا نہ جاتا ہو، ایسا لگتا ہے یہ سوال لڑکی سے نہیں بلکہ ان سازوں سے ہی کیا گیا تھا اور وہ بیچارے بے زبان پوری قوت سے اس کا جواب دینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، سازندے جس قوت سے یہ ساز بجاتے ہیں انہیں سن کر یوں بھی لگتا ہے جیسے یہ ان جملوں کو ہی پِیٹ رہے ہوں، شائد ان سوالوں کیساتھ انہیں بھی کوئی خاص چڑ ہوتی ہے۔

ڈرامے کا سکرپٹ پہلے صرف ادبی لوگ ہی لکھا کرتے تھے، پھر عقل جب تیزی سے پھیلنے لگی تو بعض عقلمندوں نے بھی ڈرامے لکھنا شروع کر دیے، یہاں تک پھر بھی ٹھیک تھا، آجکل تو جسے سوپ بنانا آجاتا ہے وہ ڈرامہ بھی لکھ لیتا ہے، ایسے ڈرامے پہلے انڈیا میں ہی بنتے تھے، اب یہاں بھی پانی میں مدھانی ڈال کر سوپ بنانے والے پیدا ہو گئے ہیں۔

پاک بھارت کشیدگی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ناگن ڈرامے والا چینل بند ہو گیا حالانکہ ایسے فنی چینل بند کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جبکہ یہ ہماری عقل کی بھی کئی کھڑکیاں کھولتے تھے، جیسا کہ ناگن کو دیکھ کر بہت سے سوالات پیدا ہوتے تھے، مثلاً ناگن عموماً کالی ہوتی ہے لیکن جب وہ انسانی روپ دھار لے تو کمال کی گوری چٹی نکل آتی ہے اور اس کے گال پر تل بھی ہوتا ہے، اس میں ناظرین کی دلچسپی کا بھی بڑا دخل ہے کہ وہ ناگن کو تو کالی ہی برداشت کر لیتے ہیں لیکن انسانی روپ میں اسے کالی ہرگز نہیں دیکھ سکتے، شائد انسان دو دکھ ایکساتھ برداشت نہیں کر پاتا۔

کیمسٹری میں جن دو کیمیکلز کو ملا کرکوئی تیسرا کمپاؤنڈ بنایا جاتا ہے اس کا نام بھی ان دونوں کے انفرادی ناموں کو یکجا کرکے ہی رکھا جاتا ہے، سانپ سے انسان بننے والی مخلوق کو بھی ایک علیحدہ شناخت ملنی چاہئے تھی جیسے کہ انسانپ یا ناگنسان وغیرہ لیکن اس طرح سوسائٹی شائد ان کے ساتھ گھل مل کر نہ رہ سکتی اور ان کے بعض حقوق مجروح ہوجاتے جو قیام انجمن حقوق انسانپ کا باعث بھی بن سکتی تھی۔

سوپ لکھنے والے رائٹرز عجیب و غریب سچوایشنز لکھ کر سب سے بڑا “پڑتھو” ڈائریکٹر کو ڈالتے ہیں یعنی ناگن کے گلے میں درد ہے، اسے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے، رائٹر یہ کچھ لکھ کے فارغ ہوگیا اب ڈائریکٹر بیچارا پریشان بیٹھا ہے کہ اسے جنرل ہسپتال بھیجوں یا ویٹرنری ڈاکٹر کو دکھاؤں، ڈائریکٹر پھر “کھسماں نوں کھاؤ” کہہ کے ایسی سچوایشنز کا سارا عذاب من و عن آگے ناظرین تک پہنچا دیتا ہے۔

ڈاکٹر نے کہا منہ کھولو اور آ کرو، چیک اپ کرکے ڈاکٹر ناگن خاتون کو بتاتا ہے کہ آپ کے سامنے والے دو دانتوں میں سوراخ ہے، کیڑا تو نظر نہیں آ رہا لیکن سوراخ بہرحال ہیں، اس کی وجہ سے آپ کے منہ میں تالو پر ایک چھالا بھی ہے اور اس میں انفیکشن ہے، اسی وجہ سے گلے میں درد ہے، اینٹی بائیوٹکس دے رہا ہوں دو چار دن میں ٹھیک ہو جائے گا ورنہ سامنے کے دو دانت نکلوانے پڑیں گے، دانت نہیں نکلوائیں گی تو یہ درد ٹانگوں میں بھی جائے گا اور سانس پھولنے کی شکایت بھی ہو جائے گی، آجکل کسی اسپیشلسٹ کے کہے کو کوئی چیلنج بھی تو نہیں کر سکتا کیونکہ دوسرا ڈاکٹر بھی اسی قسم کا اسپیشلسٹ ہوتا ہے۔

پڑوسن پوچھتی ہے، اے بہن کہاں سے آرہی ہو تو ناگن خاتون کہتی ہے، موا گلے میں درد تھا، آرام نہیں آیا تو ڈاکٹر نے ڈینٹسٹ کو ریفر کر دیا، دانت نکلوا کے آرہی ہوں، دانت نکلوا کر تو ناگن خاتون کلی طور پر بے ضرر ہو جاتی ہے، اسی لئے وہ دوبارہ ناگن بننے سے بھی ڈرتی ہے کہ پوپلے منہ والی ناگن دیکھ کے جنگلی کمیونٹی، یعنی شریکہ “مجاکھ” اڑائے گا۔

کہتے ہیں جو سانپ سو سال نکال جائے وہ انسان بن جاتا ہے، ہمارے ہاں جس کے پاس اختیار آجائے وہ فوراً سانپ بن جاتا ہے اور خزانے پر پھن پھیلا کر مزے سے بیٹھ جاتا ہے، سانپ اپنی پرانی جون میں تو سوسال نکال لیتا ہے مگر انسان بننے کے بعد اسے اتنی لمبی مہلت نہیں ملتی، سماج اور ڈاکٹر مل ملا کر جلد ہی اسے راہی عدم کر دیتے ہیں، تب اسے سمجھ آتی ہے کہ بے فکری کی زندگی میں ہی سوسال زندہ رہا جا سکتا تھا، انسان اس نعمت سے محروم ہے۔

پرانے دور کے سانپ جب اپنی طبعی عمر کی حد پار کر جاتے تو دیوتا کہتا تھا ان کی ایکسپائری ڈیٹ گزر چکی ہے اب یہ اتنے ڈھیٹ ہو چکے ہیں کہ انسان بن کے ہی مرسکیں گے ویسے کوئی چانس نہیں بچا لہذا انہیں انسان بننے کی آگیا دے دی جاتی، اب نئے دور کے سانپ خود جا کے دیوتا سے گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں بھی انسان بنا دو، دیوتا کہتا ہے انسان تو خود بھی انسان بننے کو تیار نہیں تو تم نے انسان بننے کا شوق کیوں چرالیا ہے، سانپ بتاتے ہیں کہ ہمیں بھی خزانے پر قبضہ کرکے بیٹھنا اور لوگوں کو دبا کے رکھنا آتا ہے، ہمارے پاس جب انسانوں والا سارا تجربہ موجود ہے تو پھر رینگتے پھرنے کی کیا ضرورت ہے، انسان بن کر لینڈ کروزر گاڑیوں میں کیوں نہ گھومیں؟

ناگنیں بھی اپنے دیوتا سے گزارش کرتی ہیں کہ ہمیں انگلی پر دوپٹہ لپیٹنا اچھا لگتا ہے، تیز تیز زبان چلانا بھی آتی ہے، ماڈلنگ کا بیحد شوق ہے، اس لئے ہمیں بھی انسان بننے کی آگیا دی جائے، ایک ناگن نے تو حد ہی کر دی اس کا کہنا تھا کہ میں انسان اس لئے بننا چاہتی ہوں تاکہ اپنا ھونٹ اپنے دانتوں میں دبا کے رومانٹک پوز مار سکوں جو ان دانتوں کیساتھ ممکن نہیں، ناگن نے مزید کہا جب بندے اس پوز پر بھی مر جاتے ہیں تو پھر زہر لےکے پھرنے کی کیا ضرورت ہے، دیوتا نے کہا بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن اس کام میں کومپیٹیشن بہت بڑھ گیا ہے، بیشک ناگن کی ہیروئین سے پوچھ لو جو رائیٹر کی اسٹوری اور ڈائریکٹر کی ہدایتکاری کے درمیان بیچاری گھن چکر بن کے رہ گئی ہے۔

بعض ناگنیں اس لئے بھی انسان بننا چاہتی ہیں کہ انسان کی مصروفیات ہمہ گیر ہوتی ہیں، ایک انسانی چہرے پر ہی اتنا کام ہوتا ہے کہ دو چار گھنٹے تو تیار ہونے میں آرام سے نکل جاتے ہیں، شاپنگ اور دیگر گھریلو کاموں میں بھی انسان کا وقت اچھا کٹ جاتا ہے ورنہ ناگن کو سارا دن سوراخ میں لیٹے رہنے یا تھوڑا بہت گھاس پھونس میں پھسل کر دیکھ لینے یا انڈے دینے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہوتا، ناگن کی شادی ہو جائے تو وہ انڈے دینے کی بجائے میٹرنٹی ہوم جانے لگتی ہے اور جنگلی چوہوں کی بجائے سبزی دال اور پزا جیسی نعمتیں بھی چکھ لیتی ہے۔

انسان بن کر ناگن کو سب سے زیادہ چڑ اس بات پر آتی ہے کہ مرد حضرات اس کے سراپا حسن کی تعریف پھر جانوروں کے اعضاء سے تشبیہ دے کر ہی کرتے ہیں، جیسے کہ ہرنی جیسی چال، غزالی آنکھیں وغیرہ، خاص طور پر ناگن اسوقت اپنے سامنے والوں دانتوں کو بہت یاد کرتی ہے جب کوئی اس کی زلفوں کو ناگن جیسی قرار دے، کہتے ہیں انسان بننے کے بعد سانپ کو اپنا پھنکارنا بھی اس وقت بہت یاد آتا ہے جب زکام سے اس کا ناک بند ہو رہا ہو اور چھینکوں کی سیریز مسلسل چل رہی ہو۔

سنا ہے ایک ڈاکٹر نے جب سابقہ ناگن اور حالیہ انسناگن سے کہا منہ کھولو اور لمبے لمبے سانس لو تو اس نے اپنے پرانے اسٹائل میں یہ سب کچھ کر دیا اور ڈاکٹر بیچارے کو اپنی بیگم یاد آگئی اور وہ خود بیہوش ہو گیا۔

جسم پر ٹیٹو بنانا ایک ناگن نے ہی ایجاد کئے تھے جب انسان بن کر اسے روزگار کا مسئلہ درپیش ہوا تو اس نے ٹیٹو بنانے کا کام شروع کردیا، پھر انسان جو جو جانور بننا چاہتا تھا اپنے جسم پر ان کے ٹیٹو بنوا کر خوش ہوتا رہا، ایبسٹریکٹ آرٹ بھی ایک ناگنسان نے ایجاد کی تھی، اس کی بنائی ہوئی پینٹنگز میں نامعلوم سا جنگل اور لکیریں زیادہ ہوتی تھیں، شائد وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا آبائی وطن کوئی پہچان لے، آج بھی کامیاب آرٹسٹ وہی ہے جس کی بنائی ہوئی تصویر یا کی گئی بات کسی کی سمجھ میں نہ آسکے۔

ایک ناگن خاتون نے اپنے علاقے کی کونسلر بن کے رفاحی جذبے کے تحت سڑکوں کے ساتھ خصوصی موریاں نکلوائی تھیں تاکہ آتے جاتے سانپوں کیلئے سرائے کا کام دے سکیں، آجکل بھی فلاحی کاموں کا یہی اصول ہے، سڑکوں کے درمیان گٹر لائن ڈالنے کا خیال اسی کی یادگار ہے تاکہ سڑکیں بار بار بنائی جائیں، سرکاری ٹھیکوں میں اپنوں کا خیال رکھنے والے بہت سارے سیاستدان بھی مجھے قدیم ناگنوں کی اولادوں میں سے ہی لگتے ہیں۔

برادری اور ناک کا مسئلہ سانپوں میں بھی پایا جاتا ہے، انسان کی ناک کٹتی ہے تو ان کی دم کٹ جاتی ہے، اشونیا کے انسان بننے پر سانپ اسے ہر قیمت پر واپس اپنے دیس لیجانا چاہتے ہیں تاکہ معاشرے میں ان کی دم کتنے سے بچ جائے، پانچ چھ ناگ اور ناگنیں انسانی شکل میں شہر آکے اشونیا کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور لوگوں کیساتھ بڑی تمیز سے گفتگو کرتے ہیں یعنی انسانی حلیے میں آکے سانپ بھی ڈپلومیٹک ہو جاتا ہے، اسے مہذب ہونا تو نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ مہذب تو ابھی تک انسان خود بھی نہیں ہوا۔

اشونیا کو ڈھونڈنے کیلئے شہر آنے والے ناگوں کو واپس جا کر اپنی کمیونیٹی کو بتانا چاہئے کہ میاں انسان بننے کا کوئی خاص فائدہ نہیں، سانپ اگر بلوں میں رہتے ہیں تو انسان کو بھی طرح طرح کے بلوں میں ہی رہنا پڑتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ انسان کو ان بلوں کی ادئیگی بھی کرنا پڑتی ہے، سانپوں کے بل ہمیں پسند نہیں لیکن ان کیلئے بہت اچھے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے بل خواہ کتنے ہی لمبے چوڑے کیوں نہ ہوں پے نہیں کرنے پڑتے نہ ہی ان کی کوئی ڈیو ڈیٹ ہوتی ہے۔

ناگن کے سماجی مسائل بھی کچھ مختلف ہوتے ہیں، کہتی ہے، بھائی صاحب، شیوانی کیلئے فوراً رشتہ تلاش کرو، اگر پچیس سے پہلے پہلے اس کی شادی نہ ہوئی تو وہ ناگن بن جائے گی، آنٹی کہتی تو سچ ہے، شادی سے پہلے تو سب معصوم سی ہوتی ہیں، درمیان میں صرف ایک بارڈر کے ہونے سے اتنا فرق پڑ جاتا ہے کہ اُس طرف شادی ہو جائے تو لڑکی ناگن بننے سے بچ جاتی ہے اور بارڈر سے اِس طرف، بقول انجمن شوہراں، شادی کے بعد بیچاریاں سو فیصد ناگن بن جاتی ہیں۔

مردانہ سماج کا خیال ہے کہ ناگن کا انسان بننا ان کیلئے کسی نفعے کا باعث نہیں ہو سکتا، پہلے وہ ناگن سے انسان بنتی ہے پھر شادی کرکے دوسری قسم کی ناگن بن جاتی ہے اور پھنکارنا تو کبھی نہیں بھولتی، بس فرق صرف اتنا ہے کہ کسی بھی ناگن کو بہرحال گھر میں رکھا جا سکتا ہے، نخرہ اٹھایا جا سکتا ہے، خرچہ بھی دیا جا سکتا ہے اور رومانس کیلئے اس کی خوشامد اور تعریف بھی کی جا سکتی ہے۔

ان حالات میں خواتین کو ڈارون کی تھیوری میں کچھ ترمیم درکار ہے، ان کا خیال ہے کہ جو مرد آنکھیں جھپکے بغیر ‌”ٹکر ٹکر” ہمیں دیکھا کرتے ہیں، راستے میں ہمارے پیچھے چل پڑتے ہیں، گھروں میں جو شوہر بات بات پر کھانے کو پڑتے ہیں، جو ناریوں سے لپٹنے کا شوق رکھتے ہیں اور جو لوگ ہمیں دیکھ کر ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ انسان پہلے پہل بندر نہیں ناگ ہوتا تھا، انجمن خواتین کی ایک ناری کا مزید استدلال یہ بھی ہے کہ مرد کی صورت میں ناگ کی ارتقائی شکل اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہ ایک بل سے نکلتا ہے تو دوسرے کی طرف کھسک لیتا ہے، جس ناری نے یہ نظریہ پیش کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ اسے نارون کی تھیوری قرار دیا جائے۔

مجھے نارون کی تھیوری پر تھوڑا سا یقین ہے اس ترمیم کیساتھ کہ جو مرد و زن اس اسٹوری کو مزاح کی بجائے سنجیدہ سمجھ کے پھوں پھاں کرنے لگیں تو سمجھ لینا چاہئے وہ یقیناً ناگ دیوتاؤں کی ارتقائی شکل ہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

٭٭٭٭٭

Facebook Comments

لالہء صحرائی
ایک مدھّم آنچ سی آواز ۔۔۔ ایک حرفِ دلگداز لفظوں کے لشکر میں اکیلا ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ناگن کی مجبوریاں

Leave a Reply