جو خاک چھانی تھی،اُس میں کہیں سونا بھی تھا۔۔۔خالد حسین مرزا

اگر واقعی، حقیقی معنی میں صعوبت کاٹ لی ہے تو جو خاک چھانٹی تھی اُس میں کہیں سونا بھی تھا۔۔۔
اب کہاں شوقِ نہاں رہا
طُغیانی مچا
شور رچا
یہ نظام
یہ بقا
یہ اِنتہا
زندگی کے تاریک لمحوں میں بھی ہمارے اندر ایک دُعا باقی رہتی ہے۔ مجھے میری محترم اُستاد عارفہ سعیدہ کی بات یاد آ رہی ہے کے ماحول آپ کی پرورش کرتا ہے، اب اِس بات کے یاد آنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ دُعا کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے، حالاتِ حاضرہ کو بہتر بنانے کے لیے۔

اچھائی میں بہت زیادہ طاقت سہی، لیکن بُرائی بھی کم طاقتور نہیں  ہوتی، ایسے ہی کسی کے صبر کے پیمانے لبریز نہیں ہوتے، وہ کوئی کئی ہوتا ہے جو حق کی خاطر سالہا   سال لڑتا رہے حتیٰ کہ  اُس کی زندگی کا مقصد اُسے حاصل نہ ہو جائے۔
کیا کیا کچھ ڈالوں لکھائی سدھارنے کو
طیش، محبت، بے چینی سب ڈال دیا

کوئی چھوٹے سے کمرے میں بند رہ سکتا ہے؟ صرف اِس خاطر جو حق ہم نے بھانپا ہے کیا اُس کی لڑائی کے لیے، ایک طویل مُدت تک آپ سورج کی شعاؤں سے دُور رہ سکتے ہیں؟ میں تو نہیں رہ سکتا۔
زندگی کے جو ملال تھے وہ ہی سنور کے کام آ رہے ہیں۔
بہت کچھ پرے کرنا پڑ رہا ہے
ایک گھونسلہ خود کا بنانا ہے
اپنی مرضی سے سنوارنا ہے
اِک مُکمل اِختیار سا ہو جِس پہ
وہ درِ سکوں سجانا ہے

ایک دفعہ شاید میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ میں نے ڈاکٹر عارفہ سعیدہ کی کلاس میں سُنا تھا کہ منزل کو منزل کہہ  دینا بھی کم ہمتی ہے۔ میں اُن کی بات کو کچھ اِس طرح سے سمجھا کہ  اگر زندگی اِک سفر ہے تو اِس سفر میں چند پڑاؤ آتے ہیں جو آپ کی تھکاوٹ کو کچھ دیر کے لیے اس طرح اُتار دیتے ہیں جس طرح کبھی موٹر وے پر سفر کر رہے ہوں تو قیام و طعام کی چائے اکثر تازگی پیدا کرتی ہے۔
یہ وہ مسلسل سفر ہے جس میں مشکلات بڑھتے سفر کے ساتھ بڑھتی جاتی ہیں، میٹرک بہت زور و شور سے پاس کیا تھا یہ سمجھ کر کہ، اِس کے بعد زندگی آسان ہے یا یوں کہا گیا تھا کہ پڑھائی آسان ہے، کیونکہ تب یہ نہیں  پتہ تھا کہ  بی۔اے کے بعد بجلی، گیس اور بہت سے اخراجات کی فکر جکڑ لیتی ہے، پڑھائی تو اب شاید واقعی  آسان لگنے لگ گئی ہے مگر اب کی بار زندگی میں نئے پڑاؤ، نئے سوالات اور نئے اسباق کے ساتھ آئی ہے۔
بہت زیادہ کہانی کو کھینچ کے لانا اور جس کی  ضرورت ہی نہ ہو، بہت زیادہ معیوب لگتا ہے۔

اگر خود کو کم ترسمجھ کر کام کرو گے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے جیسا وہ  کمتر کیساتھ کرتے ہیں۔
اگر شوق کی اِنتہا تک پُہنچنے کی ٹھانی تھی تو پھر ڈٹے رہو۔حقیقت یہ تھی کہ خدمت کرنی ہے، اور سب کا بھلا چاہنا ہے، کام سارے خود بخود بنتے جائیں گے۔استعمال اپنے ہنر کا کب کیسے کہاں کرنا ہے، اب یہ جواز کہاں سے آئے ،وہ یہ ہی ہے کہ حدیں ساری توڑ دی جائیں۔بس ایک اُسی کےساتھ نبھا کر رکھنی ہے، جس کا بس ہونے کی قسم کھا لی ہے۔
جہاں سے ہماری بساط ختم ہو جاتی ہے ناں! وہاں سے اُس کی عطا شروع ہوتی ہے۔ جہاں سے ہماری دور اندیشی ختم ہوتی ہے، وہاں سے وہ سلسلے بنانا شروع کرتا ہے۔ یہ ساری باتیں میرے خیال سے میرا یقیں بنتا جا رہا ہے، اب اِس پر کؤئی دلائل مانگے، تو میں بے زباں ہوں۔

ہم نقصان ہونے کے بعد اکثر یہ بات کیوں کہتے ہیں کہ چل یار! کسی کو کچھ نہیں پتا چل رہا جبکہ خراش دل پہ آئی ہوتی ہے کسی چیز پر نہیں، جو سچ ہے اُسے مان رہا ہوں ،راستے میں خود سے یہی بولتا آیا کہ تکلیف تھی تو تلملایا تھا اور اِس سے بھی بڑھ کر اذیت تب ہوتی ہے جب نہ اپنی بات سمجھا پاتا ہوں اور نہ تُم لوگ اپنی حرکتوں سے باز آتے ہو یوں محسوس کرواتے رہے پورے ٹرپ میں ،جیسے میں تُم لوگوں کے ساتھ گیا ہی نہیں ہوں۔ ساری بات خود کی منوائی، سب کام اپنی مرضی سے کیے ،میں تو تُم لوگوں کے ساتھ گیا ہی نہیں تھا ناں!
غصہ اب نکالوں گا اب لکھ رہا ہوں اب تو کسی کو نہیں مار رہا، یہ صحیح ہے سامنے والے کو بے اختیار کر دو اور وہ مُحبت میں اور لحاظ میں کُچھ بولے ہی نہ،اور آ جا کر اُس کو صلہ بھی مِلے تو فقط اکیلا پن اور چند رُسوائیاں، اور اِس پر بھی یہ ظالم کو یہ چاہیے کہ رُسوا ہے تو میرے سامنے بھی ایسے نادم ہو کہ اُسے جیت کی، بڑائی کی اوراِس کے علاوہ جو کُچھ بھی اُس کی ہستی کو ایک باعزت اور معقول شخصیت ثابت کرے، اور خود  اپنے دل پر بھی کسی غلطی کا بوجھ نہ ہو۔

کچھ عزت ہماری بھی تھی ہمارے حلقہ احباب میں، اور کُچھ اعتماد ہم کو بھی تھا خود پر، لیکن ہمیں آپ کو ہرانے کی چاہ ہرگز نہ تھی۔ جو میں چیخا چِلایا وہ میرا درد تھا جس کا بے ہنگم سا اظہار ہو ا،اور آپ نے بھی سنبھالنے کی کوشش نہ کی، پڑ گئے نا اپنی ضد اور انا میں، اللہ جانتا ہے اُس میں نہ میں ضد میں تھا اور نہ ہی انا میں، ہاں اِس بات کا رنج ضرور تھا کہ آپ بات نہ سمجھ سکے۔
بات پتا کیا ہے زندگی آپکی بھی آگے بڑھ جانی ہے اور میری بھی بڑھ جانی ہے، اللہ نے آپکو بہت ترقی دینی ہے اور اللہ کے حکم سے مُجھے بھی میرے بڑوں کی دعائیں لگنی ہیں، اِس بات کا یقین تو پورا پورا ہے مُجھے۔ آپکی زندگی میں بہت سے قابل لوگ آئیں گے، جن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر آپ ملک و قوم کی خدمت کرو گے اور مُجھے بھی کوئی ناکوئی ایسا مِل جائے گا جو میرے مقاصد کو اور میرے اطوار کو سمجھ کر، کچھ میری خامیوں کا احترام رکھ سکے۔
سب چلتا رہے گا، سب اچھا ہو گا

وہ جو خراش آئی وہ حقیقت میں کوئی انجان ہلکی سی خرابی کے بارے میں نہیں جان سکے گا جب تک ہم خود اُس کو تماشا  نہبنائیں۔ ہنسی آ رہی ہے پتہ نہیں کیوں،
بڑے آئے حُسنِ جمال لے کر جو نزاکتوں سے دِل نہ  چُرا سکا، بھُلا دیا گیا۔ عجیب چارہ سازی ہے، ویرانیوں میں یاروں کی محفل سجا دی۔ اور جودوستوں کے دِل میں اُتر گیا، اُس کا ہر رُخ بدلنا حُسن کی علامت اور اُس کی ہر احتیاط، تکلف اُس کی نزاکت۔
ایمانداری رنگ لاتی ہے۔ اِس کے علاوہ بھی، جو تمام اچھائیاں کسی بھی اِنسان میں موجود ہوتی ہیں، بُرائیاں بھی اور ساتھ ہی ساتھ تمام چالاکیاں بھی وہ ہمارے سر اُٹھانے سے پہلے بھانپی جا چُکی ہوتی ہیں۔

جو آپ کے اندر ہیں، وہ بیان کرنا چاہتے ہو اور خواہش رکھتے ہو کہ جب تخلیق تیار ہو تو زیادہ تر اُسے دیکھ کر ششدہ رہ جائیں اور مُعترف بنیں، مجبور ہو کر بنیں اور اپنے سارے اختلافات برطرف کر دیں اور آپکے پاس بھی تخلیق سے مُتعلق، ہر سوال اُٹھنے کا جواب موجود ہو تو پھر استقامت، تسلسل، نرم مزاجی اور رواداری بہت ضروری ہے۔
میں اگر اقبال کا شاہین باقی بچا ہوں تو میں آج بھی مانتا ہوں کہ نیت صاف رکھنے سے رب بہت نوازتا ہے۔ جب راستوں کی سمجھ آجاتی ہے منزل یوں جیسے ساتھ والا مُحلہ! توازن آہستہ آہستہ برقرار ہو ہی جاتا ہے، بس ایک دفعہ سمجھ آجائے کہ کتنے وزن پہ توازن ٹھہرتا ہے۔
میں تُمہارے خصائل سے اُتنا ہی واقف ہوں
جتنی تُم نے میری نگہداشت کی قسم کھائی ہے
اِک ریزہ ہلچل کیوں؟ کیوں؟
یہ شعلہ بیاں کیا کیا
میں ہر جوہر کا کمال ہوں
میں تیری جیت کا اِمتحاں ہوں
اب بتا!
میں تو اُسے کچھ دِنوں بعد یاد بھی نہ رہوں گا۔ یہ وہ واقعہ تو نہیں، جو ایک سے زیادہ دفعہ دُہرایا جاتا۔
میں اُن ہواؤں کا مُعترف
جو اُونچے پہاڑوں میں کہیں
جہاں دل دبوچا سا نہ محسوس ہو
کیا اختیار اور آزادی متوازی ہو سکتے ہیں؟
متوازی اور مساوی میں کیا فرق ہے؟
اور اگر مکمل اختیار میں اپنی توانائی کا صحیح سے معلوم نہ ہو تو؟
مسائل کو مصلحت سے سُلجھایا جا سکتا ہے، کیا مصلحت بھی کوئی لفظ ہوتا ہے؟
کیونکہ گمان اکثر سچ لگنے لگتے ہیں۔

پڑھ لکھ گئے، بہت اچھا ہوا، بہت سے حقائق رونما ہوئے، مگر پھر بھی پردے کا کچھ تو مقصد ہوتا ہے اور وہ حیاء والوں کو بہت عزیز ہوتا ہے۔
جو بھی اچھا عمل جو تیرے نزدیک اچھا ہے، اور تو چاہتا ہے کہ لوگ تُجھے دیکھ کے، حیران ہوں، خوش ہوں اور پھر داد دیں تو پھر تیرا اچھا عمل اپنے لیے تو نہیں ہوا ناں!
اِس رویے اور نیت کو اپنے عہد کی پاسداری میں تو نہیں شامل کر سکیں گے، ہاں یہ ضرور ہو گا کہ اپنی ظرافت سے کچھ درجات آہستہ آہستہ کرکے نیچے اُترتے جائیں گے اور ہم خود اعتمادی میں اِتنے ڈوبے ہوئے ہوں گے کہ  ہمیں اپنی تنزلی کا اندازہ بھی نہیں ہو گا، اور ہم اپنی مُشکلات کی وجہ تلاش کرتے رہیں گے۔
جو   ہو کوئی ،تُم سکوں پرور
پہلے تذبذب سمیٹو راہ سے اُتر کر
جو ہو کوئی تُم جو سکوں پرور
قرباں مصلحتیں تمام ہو کر
پھر الندوہ کے خزانوں کی خوشی سُن کر
پھر خیال ہو گا کہ بہکائے گئے ہو

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر کبھی یوں ہوتا ہے کہ اُس وقت بھی مشق کرنی پڑتی ہے، جب دُھن سلطان والی نہیں بج رہی ہوتی، مگر خود کو تیار رکھنے کے لیے ویرانیوں میں بھی محنت کرنی پڑتی ہے اور محنت بھی ایک ترتیب سے کرنی پڑتی ہے۔ اکثر ہوتا یوں ہے کہ جب کوئی نیا نیا شوق چڑھتا ہے ناں تو بہت زور و شور سے شروع کرتے ہیں، مثال کے طور پر ورزش کا ہی نیا نیا شوق لے لو، پہلے پہل ہم ایسے جوشیلے ہوتے ہیں کہ گرمی، سردی، خزاں، بارش کچھ بھی نہیں دیکھتے۔
اب نکھار برقرار رکھنا اگر ضروری ہے تو چھوٹی چھوٹی خراشیں جو آتی ہیں اُن سے مکمل طور پر بے چین ہو کر سب کچھ نہیں بگاڑ دیتے، میں نے اکثر سمجھ دار لوگوں کو مصلحت سے مسائل سُلجھاتے دیکھا ہے۔ اور مُشکل حالات میں توازن برقرار رکھنا ہی سمجھ داری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply