لکھنے اور چھپنے کے خواہش مندوں کے لیے/یاسر جواد

ہم کیوں لکھتے ہیں؟ اِس پر بہت سے بڑے بڑے لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن لکھنا انسان کے اظہار کی ایک پائیدار صورت ہے۔ اِس کے ذریعے ہم بہت آسانی سے یہ بتا جاتے ہیں کہ ہم بھی اِس سورج کے گرد گھومنے والے آٹھ سیاروں کی پانچ ارب سالہ تاریخ میں 70-80 سال کے لیے آئے تھے اور ساری کائنات کو اپنے لیے بنایا گیا تصور کرتے تھے۔ چنانچہ انسان نے لکھا۔ پتھر پر، کاغذ پر، چمڑے اور کپڑے پر، دیواروں اور زمین پر، اور اب کمپیوٹر کی الیکٹرانک دنیا کے غیر مادی اوراق پر بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آواز انیسویں صدی میں جنس (commodity) بنی تھی، لیکن کتاب بہت عرصہ پہلے بن چکی تھی۔ یہ انسانی جسم سے باہر ایک اضافی ذہن بن گئی جس میں نہ دوسروں کا حافظہ بھی مجسم ہو کر ہم تک پہنچا۔ شاید ہم اپنے حافظے کو بھی ٹھوس اور چھونے کے لائق الفاظ اور کتاب میں مجسم کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک الیکٹرانک کتاب اور الیکٹرانک انداز میں تخلیق کیے گئے الفاظ کی اہمیت ہمارے ہاں تو نہیں بن سکی۔ کسی نے خواہ مخواہ دیوانِ میر کو ای بک کی شکل میں پیش کیا تو پوری دنیا میں ایک سال میں شاید دو کاپیاں فروخت ہوئیں، جبکہ ٹھوس کتاب کی شکل میں شاید متعدد پبلشروں نے سیکڑوں کاپیاں بیچی ہوں۔
سو ہم سب کسی نہ کسی سطح پر تو لکھتے ہی ہیں۔ اور کچھ نہیں تو ڈائری ہی لکھ دیتے ہیں، یا کسی کو خط یا انباکس میسیج بھی لکھتے ہیں کہ یاد رہیں۔ اپنی تحریر یا کتاب کو چھپوانا ایک فطری سی خواہش ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا ہے کہ شاعری کی کتاب فروخت ہی نہیں ہوتی، اسی طرح افسانوں کی کتاب بھی نہیں خریدی جاتی، ادبی جرائد کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ اِدھر اُدھر سے پکڑ کر بھرتی کی تحریروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔
سو جو لوگ لکھتے ہیں اور چھپنا چاہتے ہیں، اُن کے لیے عموماً صرف ایک راہ باقی رہتی ہے: خود اخراجات اُٹھا کر اپنی کتاب چھپوائیں اور دوستوں یاروں، عزیز و اقارب، چند لائبریریوں، کولیگز وغیرہ میں بانٹ دیں۔ یا پھر تھیسس اور اپنی ’’تحقیق‘‘ کو محفوظ کرنا بھی مقصود ہو سکتا ہے۔ میرے پاس تو پہلی محبت کے 92 خطوط (جو میرے نام لکھے گئے) بھی پڑے ہیں، اور اُنھیں بھی چھاپنے کا کئی بار سوچا۔
اپنی تحریر یا کتاب چھپوانے کے خواہش مندوں کے لیے میرے پاس کچھ مفت اور فاضل مشورے ہیں۔ (1)آپ تھوڑی محنت کر کے اپنی کتاب خود چھاپ سکتے ہیں، فروخت تو ہونی نہیں، تو پھر خود کیوں نہ چھاپی جائے؟ فروخت ہوئی بھی تو آپ کو کوئی رائلٹی نہیں ملے گی۔ سو بہتر ہے کہ پانچ لاکھ والا وکیل کر کے پھانسی لگنے کی بجائے دو لاکھ والا وکیل کر لیں۔ (2)پانچ سو کی بجائے دو سو یا تین سو بھی چھاپ لیں تو چسکا پورا ہو جائے گا۔ کسی مہنگے پبلشر نے بھی شائع کی تو تب بھی یہی ہونا ہے۔ (3) کسی تشہیر یا تقریب کا کوئی فائدہ نہیں، یہ آپ اپنے دوستوں کے حلقے میں خود بھی کروا سکتے ہیں۔ (4)آپ کو بس تھوڑی سی expertise ٹائٹل ڈیزائن اور فارمیٹنگ کے سلسلے میں چاہیے۔ (5)البتہ اگر آپ ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں یا گریچوایٹی کے پچاس لاکھ ملے ہیں یا بیٹا باہر جا کر سیٹ ہو گیا ہے تو جو مرضی کریں۔ (6)البتہ اب بھی کچھ نیک اور غیر شعبدہ باز چھاپنے والے حضرات موجود ہیں جن کی نشانیاں بتائی جا سکتی ہیں۔ فی الحال یہ نشانی بتاتا چلوں کہ اُن کی میز بہت بڑی نہیں ہوتی۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply