ڈیرن براؤن کے ساتھ ایک یادگار شام۔عظیم الرحمٰن عثمانی

‘ڈیرن براؤن’ اس وقت دنیا کا نمایاں ترین عامل تنویم (ہپناٹسٹ) اور سراب نظر کا ماہر (الوزنسٹ) مانا جاتا ہے. پچھلے دنوں اپنے ایک دوست کے ہمراہ اس کا شو دیکھنے کا موقع ملا. درمیانے قد کا یہ دبلا پتلا ہم جنس ملحد نہایت غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے. شو ایک بہت ہی جاذب آڈیٹوریم میں منعقد ہوا. ڈیرن نے آغاز میں بتایا کہ وہ ایک شعبدہ باز اور انسانی ذہن و سوچ کا ماہر ہے. اس کے تمام تر کمالات ایک ‘پرفیکٹ لائی’ یعنی کامل جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں. اتنا بتانے کے بعد اس نے ہم سب سے کھڑا ہوجانے کو کہا. مجھ سمیت سینکڑوں موجود افراد اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے. اس نے کہا کہ ہم سب اپنے ہاتھ اپنی پشت کی جانب لے جائیں اور تصور کریں کہ کسی ایک ہاتھ میں ہم نے کوئی چیز چھپا رکھی ہے. پھر سب سے کہا گیا کہ اپنی دونوں مٹھیاں آگے کردیں. میں نے کافی سوچ کر سیدھے ہاتھ میں چیز کو تصور کیا.

اب ڈیرن مخاطب ہوا کہ جس جس کے سیدھے ہاتھ میں چیز ہے وہ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں. میں منہ بسور کر بیٹھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے ساتھ ننانوے فیصد لوگ بھی بیٹھ گئے. گویا ننانوے فیصد نے سیدھا ہاتھ ہی منتخب کیا تھا. ایک اجتمائی قہقہہ بلند ہوا. جو چند لوگ کھڑے رہ گئے، انہیں ڈیرن نے دوسری بار میں جانچ لیا اور سب بیٹھ گئے. ایک لڑکی کو اسٹیج پر بھی بلایا گیا اور اسے بار بار کہا کہ چیز کسی ایک ہاتھ میں چھپائے اور لگاتار ڈیرن صحیح بتاتا رہا کہ چیز کس ہاتھ میں ہے. ساتھ ہی اس نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جب میں نے فلاں مذاق کیا تو یہ لڑکی ہنس کر پیچھے ہٹی. ایسے میں اس کا داہنا ہاتھ تیزی سے نیچے گیا لیکن بایاں ہاتھ ٹینشن میں رہا، جس سے اسے معلوم ہوگیا کہ اس نے چیز بائیں ہاتھ میں رکھی ہے.

ڈیرن نے ایک کیلا میز پر رکھ دیا جو اسٹیج کے ایک کنارے پر پبلک کے نزدیک رکھی ہوئی تھی اور کہا کہ اسی پروگرام کے دوران ایک بن مانس اسٹیج پر سے یہ کیلا اٹھا لے جائے گا مگر اس بن مانس کو کوئی دیکھ نہ پائے گا. یہی ہوا کہ کیلا غائب ہوگیا اور کوئی بن مانس نہ دیکھ پایا. دوسری بار اس نے پھر کیلا رکھ کر یہی کہا اور دوسری بار بھی بن مانس کیلا لے کر چمپت ہوگیا مگر کوئی اسے نہ دیکھ پایا. سب اپنے اوپر ہنس رہے تھے.

ڈیرن نے بتایا کہ یہ سب ہمارے دماغ کا کھیل ہے. ہماری آنکھ ایک وقت میں بیشمار چیزیں دیکھ رہی ہوتی ہے مگر یاد صرف وہی رکھتی ہے جو اسے اس خاص وقت میں اہم لگے. بن مانس کیلا اس وقت لے کر چلا جاتا تھا جن ڈیرن نے ہم سب کی توجہ کسی اور کام پر مبذول کروا رکھی ہو. یہ بتا کر ڈیرن نے بن مانس کو اسٹیج پر بلایا. ایک بن مانس کا نقلی لباس پہنا ہوا انسان کودتا ہوا اسٹیج پر آگیا اور مضحکہ خیز انداز میں مٹکنے لگا. مجھ سمیت سب ہنس رہے تھے جب اس بن مانس نے اپنا ماسک کسی ہیلمٹ کی طرح اتارا. اندر سے جو شخص نکلا وہ ۔۔۔ وہ ڈیرن تھا !

ہم سب نے حیرت سے واپس ڈیرن کی جانب دیکھا تو اب وہاں کوئی نہیں تھا. گویا ڈیرن نے بن مانس کے ماسک والے کو ہمارے سامنے اسٹیج پر بلایا اور خود ہی بن مانس کے اندر سے برآمد ہوا. یہ کیسے ہوا ؟ کب ہوا ؟ میں نہیں جانتا. مگر یہی وہ شعبدہ گری یا سراب نظر ہے جس میں  ڈیرن ماہر ہے.

ڈیرن نے پبلک میں سے ایک آدمی کو کھڑا کر کے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی دوسرے تماشائی کا انتخاب کرے جسے اسٹیج پر بلایا جاسکے. اس شخص نے ایک لڑکی کا انتخاب کیا جسے ڈیرن نے اسٹیج پر بلالیا. لڑکی کو آنکھیں بند کر کے اپنے کندھے پر ہاتھ رکھنے کو کہا. پھر کہا کہ اب اپنے ذہن میں کسی بھی مشہور شخصیت کی تصویر کو تصور کرو اور میں تمھارے ذہن سے معلومات لے کر پینٹنگ  بناتا ہوں. ڈیرن نے پینٹنگ شروع کی. آنکھیں ، کچھ بال، بڑا سا سر ۔۔۔ مجھے لگا کہ ڈیرن بن مانس کی تصویر بنا رہا ہے. اچانک اس نے تصویر کو الٹا تو وہ درحقیقت البرٹ آئین اسٹائن کی تصویر تھی. لڑکی نے بناء تصویر دیکھے تصدیق کی کہ وہ ذہن میں آئین اسٹائن ہی کو تصور کررہی ہے. سب نے تالیاں بجائیں.

ڈیرن نے مجمع سے اب پوچھا کہ کیا کوئی ایسا موجود ہے جس کے دادا، دادی، نانا، نانی میں سے کسی کا انتقال ہوا ہو اور وہ ان سے بہت محبت کرتا ہو؟ بہت سے ہاتھ بلند ہوگئے. ایک لڑکی کا انتخاب ہوا ۔۔ ساتھ ہی ایک ٹیبل لائی گئی جس میں کسی چیز کو سیاہ کپڑا ڈھانپے ہوئے تھا. ڈیرن نے لڑکی سے پوچھا کہ اس نے کسے کھویا ہے؟ لڑکی نے بتایا کہ اپنی نانی کو جو اس سے بے پناہ پیار کرتی تھیں. ان کا نام ہیلن تھا.

ڈیرن اب ہماری جانب متوجہ ہوا اور اپنے بارے میں بتانے لگا کہ کیسے وہ سائنسز اور ہیپناٹزم کا ماہر بنا. اس نے بتایا کہ یہ اس کی پرتجسس فطرت تھی جس نے اسے اس جانب راغب کیا مگر اس کی فطرت کو پرتجسس بنانے میں ا س کے دادا کا بہت بڑا ہاتھ تھا. وہ انہیں پپا پکارا کرتا تھا. پپا نے اسے ہلکی پھلکی بچوں والی ٹرکس بھی بتائی. وہ اس کے ناز و نخرے اٹھاتے اور اس کی ہر خواہش پوری کرتے تھے. مگر ان کے پاس ایک نہایت خوبصورت باکس تھا جسے وہ اسے چھونے تک نہیں دیتے تھے. اس کے پاس جانے کی بھی ڈیرن کو اجازت نہیں تھی. ڈیرن تجسس سے بھرا رہتا کہ آخر اس باکس میں ایسا کیا ہے؟ لیکن جب بھی وہ دادا سے اسے مانگتا تو اچانک دادا کے چہرے کا رنگ بدل کر سپاٹ ہوجاتا اور وہ دوٹوک لہجے میں اس سے کہتے ‘ڈیرن اس باکس کو کبھی نہیں چھونا’.

وقت گزرتا گیا، ڈیرن بڑا ہوا اور والدین کے ساتھ دوسرے گھر شفٹ ہوگیا. پھر ایک روز پپا یعنی دادا کا انتقال ہوگیا. ڈیرن جب عرصے بعد دادا کے گھر آیا تو اس کے ذہن میں صرف وہی باکس گھوم رہا تھا. وہ چپکے سے کمرے میں گیا. الماری کے اپور وہ باکس رکھا ہوا تھا. اس نے باکس اٹھایا تو پیچھے ایک چابی بھی رکھی تھی. اس سے پہلے اس نے یہ چابی نہیں دیکھی تھی. خاموشی سے ڈیرن نے چابی جیب میں رکھی اور باکس لے کر اپنے کمرے میں آگیا. اتنا کہہ کر ڈیرن نے وہ چابی ہمیں دیکھائی اور ٹیبل پر ڈھانپا ہوا کالا غلاف ہٹادیا. نیچے ایک خوبصورت سا باکس برآمد ہوا. پرسکوت ماحول میں چابی ڈیرن نے لڑکی کو دی اور کہا کہ باکس کھولے اور لوگوں کو دیکھائے کہ اس میں کیا ہے؟ لڑکی نے کانپتے ہاتھوں سے باکس کھولا. اندر سے ایک اور چھوٹا باکس نکلا. اس چھوٹے باکس کو بھی کھولا گیا تو اندر سے ایک شیشے کا مرتبان نکلا جس میں رنگین اون کا ایک گولا رکھا ہوا تھا. سب ہنسنے لگے،

ڈیرن بھی ہنستے ہوئے بولا کہ واقعی جب میں نے بھی اسے دیکھا تو بہت مایوس ہوا کہ یہ تھا وہ پپا کا سیکرٹ؟ لیکن پھر جب میں نے اون کے گولے کو کھولا تو اس میں ایک سکہ نکلا جس پر سات جادوئی الفاظ کندے ہوئے تھے. ہم سب دم سادھے سننے لگے کہ آخر وہ سات جادوئی الفاظ کیا تھے؟ ڈیرن نے کچھ توقف کے بعد بتایا کہ وہ سات جادوئی الفاظ یہ تھے ‘ڈیرن کہا تھا نا باکس نہیں چھونا’ یہ سن کر پھر اجتمائی قہقہے بلند ہوئے. ڈیرن نے لڑکی سے کہا کہ وہ بھی اس اون کے گولے کو کھولے. اس انداز میں اس کا سرا ہر آدمی مجمع میں دوسرے آدمی کو دیتا جائے. یوں اون کھلتا گیا. اون کے گولے میں سے واقعی ایک سکہ برآمد ہوا مگر یہ دیکھ کر اسٹیج پر موجود لڑکی کی چیخ نکل گئی کہ اس پر اس کی اپنی نانی کا نام یعنی ہیلن پیغام کے ساتھ کندہ ہوا تھا. یہ کیسے ممکن ہوا؟ ظاہر ہے اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے.
.
اب ڈیرن کے چہرے کو اور بلخصوص آنکھوں کو پٹیوں سے باندھ دیا گیا. اس کا کوئی امکان نہ رہا کہ وہ دیکھ رہا ہے. ڈیرن نے ہم سب سے کہا کہ وہ ذہن میں کوئی بھی سوال یا واقعہ سوچیں مگر زبان سے نہ کہیں. ساتھ ہی ہمیں اپنا نام اور سیٹ کا نمبر بھی ذہن میں سوچنا تھا. اس کے بعد ڈیرن نے ایک کے بعد ایک یہ بتانا شروع کیا کہ فلاں سیٹ پر موجود فلاں شخص نے یہ سوال سوچا ہے. سب میں کھلبلی مچ گئی. ہر شخص نے تصدیق کی کہ ڈیرن صحیح کہہ رہا ہے اور وہ فی الواقع یہی سوال یا واقعہ سوچ رہے تھے. ڈیرن نے ہم سب کو مخاطب کیا اور پانچ مختلف جانوروں کے نام دے کر کہا کہ ذہن میں کسی بھی ایک جانور کا نام منتخب کرلیں. جب سب نے سوچ لیا تو اس نے بتایا کہ آپ کی اکثریت نے جس جانور کا نام سوچا ہے وہ “ٹائیگر”  ہے. اس کا یہ دعویٰ بھی درست نکلا اور نوے فیصد لوگو نے ٹائیگر ہی سوچا. باقی دس فیصد لوگ جن میں، میں خود بھی شامل تھا. انہوں نے بھی پہلے ٹائیگر سوچا اور پھر زبردستی ذہن میں نام تبدیل کیا.

اس کی جو توجیہہ بعد میں مجھے سمجھ آسکی وہ یہ تھی کہ ڈیرن نے اپنے اشتہار سمیت کئی مقامات پر ٹائیگر لکھ رہا تھا جسے پڑھ کر ہمارے تحت الشعور میں یہ لفظ غیرمحسوس طریق سے منتقل کیا گیا تھا. اس کے بعد ڈیرن نے پانچ ‘فرس بی’ نما چیزیں ہماری جانب اچھالی. جس جس کے ہاتھ میں وہ پہنچی انہیں اسٹیج پر بلا لیا گیا اور کہا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے پانچ میں سے کسی بھی ایک پوزیشن پر کھڑے ہو جائیں. اور سامنے رکھے پانچ لفافوں میں سے کسی بھی ایک لفافے کا انتخاب کریں اور اس میں پانچ میں جس کسی جانور کا نام درج ہو اس کا نام اور تصویر بنائیں مگر اس طرح کہ وہ پبلک یا ڈیرن کو نظر نہ آئے. جب پانچوں نے تصاویر بنا لی تو ڈیرن نے حیرت انگیز طور پر بناء دیکھے یہ بتایا کہ کس نے کون سا جانور بنایا ہے؟ یہاں تک کہ کس انداز میں بنایا ہے؟ ساتھ ہی مصوروں نے جانوروں کے جو نام مقرر کیے تھے وہ بھی بوجھ دیے. یہاں تک کہ ایک شخص نے جانور کا نام درج کرتے ہوئے اسپیلنگ غلط لکھی تو اس نے وہی غلط اسپیلنگ بوجھ دی.

اس موقع پر پروگرام کا اختتام ہوا اور پیچھے لگی بڑی سینما ٹائپ اسکرین پر ایک گانا چلنا شروع ہوگیا جس میں وہی بن مانس کھڑا تھا. مگر اب جو اس نے ماسک اتارا تو اندر ڈیرن نہیں بلکہ ایک ہیرو ٹائپ انسان موجود تھا. اس نے گا گا کر پورے شو کا ذکر کرنا شروع کیا اور یہ سن کر ہم سب حیرت زدہ رہ گئے کہ اب تک جو جو کچھ ہمارے سامنے پیش آیا. وہ سوالات، وہ لوگوں کا انتخاب، وہ کسی کا اعتراض، وہ کوئی غلطی اور اسی طرح بیشمار اور دوسری چیزیں جنہیں ہم سمجھتے تھے کہ ‘ہم’ کر رہے ہیں. وہ تو دراصل پہلے سے ہی ہمارے ذہن سے کھیل کر ڈیرن ہم سے کروا رہا تھا. گویا اس پورے وقت مجھ سمیت سینکڑوں لوگ ڈیرن کی سجائی بساط کے معمولی مہرے تھے جو اسی کی مرضی سے چل رہے تھے. یا یوں کہہ لیجیئے کہ ہم سب آدھے ہپناٹز تھے اور آدھے اس کی چال کے سامنے ذہنی غلام.

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ یادگار شو ختم ہوا تو ہم سب ہی تالیاں پیٹ رہے تھے. اسی سرشاری میں پنڈال سے باہر آئے تو مجھے وہ چائنیز شخص نظر آگیا جس نے اسٹیج پر جانور کی تصویر بنائی تھی اور غلط اسپیلنگ لکھی تھی. میں نے اس سے لپک کر دریافت کیا کہ ایسا کیسے ہوا؟ کہ اس نے غلط اسپیلنگ لکھی اور ڈیرن نے اسے پھر بھی بوجھ لیا؟ اس نے بتایا کہ وہ خود اب تک حیرت میں ہے مگر اس کے ذہن کو ہپناسسس سجیشن دیا گیا. میں نے پوچھا کیسے؟ اس نے بتایا کہ جس لفافے پر اسے جانور کی تصویر بنانے کو کہا گیا وہاں اس جانور کی اسپیلنگ ویسے ہی غلط لکھی ہوئی تھی. جب اس نے تصویر بنا کر اس جانور کا نام لکھنا چاہا تو صحیح اسپیلنگ جو اسے معلوم تھا بھول گیا اور وہی غلط اسپیلنگ لکھ ڈالے جو لفافے میں درج تھی. یوں میں اور میرا دوست ہنستے ہوئے اس یادگار شام سے رخصت ہوگئے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply