• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)ہنزہ/ مصری بانو سے ملنا۔ ہنزائی بڈھوں سے ذرا تُوتُو میں میں/ التت اور بلتت/سلمیٰ اعوان(قسط11-ب)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)ہنزہ/ مصری بانو سے ملنا۔ ہنزائی بڈھوں سے ذرا تُوتُو میں میں/ التت اور بلتت/سلمیٰ اعوان(قسط11-ب)

ہم صدر بازار سے گزر رہے تھے جہاں ریستوران اور ہوٹل تھے۔ ڈور کھن کے بعد گنش جا کر گاڑی رک گئی۔ میں اتر کر یادگار دیکھنے لگی۔
اب کریم آباد جانے کا مسئلہ تھا جو راستے میں ہی حل ہو گیا۔ ہوٹل اوپر کریم آباد میں بن رہا تھا۔ سامان وہیں جانا تھا۔ گنش سے کریم آباد تک سڑک زیر تعمیر تھی۔ گو میں دھیلہ پولا خرچ کئے بغیر اوپر پہنچی پر کیسے؟ یقینا خوف و دہشت کی دیوی کے حضور ایک سیر خون نذرانے کا ضرور چڑھا ہو گا۔ ٹوٹی پھوٹی عمودی سڑک۔ گاڑی دو قدم چلتی رکتی۔ پھر چلتی’ نیچے کھائیاں اپنے آپ میں سمیٹنے کے لئے مشتاق۔ میں نے خوف سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ راکاپوشی کے ان سینکڑوں جلوؤں کو اپنے تصور میں لاتے ہوئے جن کا میں دیدار کرتی آرہی تھی میں نے ان نظاروں کے خالق سے کہا تھا۔
‘‘میں یہاں ہرگز مرنا نہیں چاہتی۔ مجھے کچھ ہوا’ تو خون تیری گردن پر ہو گا’’۔
اور جب میرے قدموں نے گاڑی سے نکل کر زمین کے سینے پر اپنا آپ رکھا ۔میری خوشی قابل دیدنی تھی۔ راکا پوشی ہوٹل کے منیجر کے نام ایک کارڈ میں گلگت سے لائی تھی۔ میں نے بیگ سے اُسے نکالا اور ہوٹل ڈھونڈنے نکلی۔ منیجر صاحب سے تو ملاقات نہ ہوئی البتہ اس کے اسٹنٹ نے کافی تسلی اور دلاسا دیا۔
ظہر کا وقت ہو رہا تھا۔ نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو ہوٹل کے ملازم نے ایک کمرہ کھول دیا۔ برآمدے میں ایک جوڑا بیٹھا تھا جن کی پشت میری طرف تھی اور جو سبز جالیوں سے نیچے بکھری خوبصورت وادی کے نظاروں میں گم تھا۔
میں نماز میں مصروف تھی جب اچانک دو آوازیں میرے کانوں میں پڑیں ایک بچی کی اور دوسری غالباً ماں کی۔ بیٹی نے کچھ پوچھا تھا اور ماں نے جواباً کہا تھا۔
‘‘کمال ہے تم نے پچھلے ماہ کے اردو ڈائجسٹ میں ناگا ساکی پر نہیں پڑھا تھا’’۔ میں نے سلام پھیرا۔ سکھ اور طمانت سے لبریز سانس بھرا۔ چلو مسئلہ حل ہوا۔ اردو ڈائجسٹ کے قاری ہیں تو مجھے بھی جانتے ہوں گے’’۔
میں نے جائے نماز لپیٹ کر اٹھتے ہوئے اپنے آپ سے کہا تھا۔
تعارف ہوا۔ یہ ایم اے قدوائی اور ان کی بیگم تھے۔ حیدر آباد سے سیر سپاٹے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ چائے چلی’ کچھ باتیں ہوئیں اور پھر میں ان سے اجازت لے کر محاذ پر نکلی۔
ہنز زمانوں سے ایک خود مختار و نیم مختار شاہی ریاست کی حیثیت رکھتا تھا۔ اب دو تحصیلوں پر مشتمل ضلع گلگت کا ایک سب ڈویژن ہے۔ اس کی شمالی سرحدیں عوامی جمہوریہ چین اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ یہ روس سے بھی قریب ہے۔ پاکستان کی عظیم تاریخی شاہراہ قراقرم یا ریشم ہنزہ سے گزر کر سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر درہ خنجراب سے ہوتے ہوئے چین کے صوبے سنکیانگ سے جا ملتی ہے۔
ہنزہ جغرافیائی اور لسانی لحظ سے تین بڑے حصوں میں منقسم ہے۔ مرکزی ہنزہ یہ مرتضیٰ آباد سے لے کر احمد آباد تک کا علاقہ ہے۔ یہ گنجان آباد جگہ ہے۔ تقریباً تیس ہزار نفوس پر مشتمل لوگ بروشِکی بولتے ہیں۔
ہنزہ بالا۔ اسے گوجال کہتے ہیں۔ نظیم آباد سے لے کر مسگروچپورسن تک کا علاقہ ہے۔ گیارہ بارہ ہزار کی آبادی زراعت پیشہ ہے اور بھیڑ بکریاں پالتی ہے۔ گوجال آگے دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ گوجال بالا اور گوجال پائیں۔ بالائی گوجال مسگرچپور سن تک کا علاقہ ‘یہ مختلف دروں کے ذریعے چین اور افغان پا میر سے ملا ہوا ہے۔ گوجال پائیں میں نظیم آباد سے لے کر پھسو تک کا علاقہ۔ یہاں زیادہ وخی لوگ آباد ہیں ۔ان کی زبان بھی وخی ہے۔
ہنزہ پائین’ یہ خضر آباد سے ہندی تک کا علاقہ ہے۔ اکثریت شین اور زبان شنا۔ ہندی بہت قدیم گاؤں ہے۔ پرانی تہذیب و تمدن کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔
مختلف نسلوں کے میل جول اور رہن سہن سے ہنزہ کی موجودہ قوم ابھری ہے۔ ابتدائی قوموں میں ہن’ تورانی’ ایرانی’ یونانی اور مغل نمایاں رہے ہیں۔ ہن کی ابتدائی آبادی کی وجہ سے ہنزہ نام پڑا۔ ہنزہ کے باشندے قدیم زمانے سے بڑے بہادر اور جنگجو رہے ہیں۔ سنکیانگ (چین کا صوبہ) اور واخان کے لوگ ان سے ہراساں رہتے تھے۔ سکھوں کو بھی کئی بار شکست ہوئی۔ ۱۸۴۸ء کی ایک لڑائی میں سکھ گورنر نتھو شاہ مارا گیا تھا۔۱۸۶۵ء میں ڈوگروں کو بھی منہ کی کھانا پڑی۔ مگر ۱۸۹۲ء میں انگریزوں کی چالبازی اور ان کی حکمت عملی سے ہنزہ ان کے قبضے میں چلا گیا۔ جسے بعد میں اندورنی خود مختاری دے کر ریاست کی حیثیت بحال کر دی گئی تھی۔ ۱۹۷۴ء میں اصلاحات کی وجہ سے اسے گلگت ڈسٹرکٹ میں ضم کر دیا گیا ہے۔
جناب جی ایم بیگ صاحب کی تحریرہ کردہ تاریخ ہنزہ میں سے بھی ابھی اتنا ہی پڑھ پائی تھی جب ایک اونچی پتھروں کی دیوار کے پاس شہتوت کے درخت تلے میں نے اسے بیٹھے ہوئے دیکھا۔ چڑھتی جوانی’ نیلے کانچ کے بٹنوں جیسی آنکھیں۔ گرد سے اٹے پڑے سنہری بال’ میلی بدرنگ نیکر جس کے نچلے کنارے لیرلیر ہو رہے تھے۔ جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی قمیص میں سے جھانکتا ہوا اس کا بدن یوں چور آنکھوں سے دیکھتا تھا جیسے کوئی دیہاتی دولہا اپنے سہرے کی لڑیوں میں سے تاک جھانک کرتا ہو۔
اسے میں نے گنش کے ہوٹل میں دیکھا تھا۔ میں چائے کا ایک کپ پی کر اٹھی تھی۔ ہنگر ہنگر (Hunger) کہتا ہوا جب وہ اندر داخل ہوا۔ اس وقت وہ مجھے اس دیو کی مانند نظر آتا تھا جو آدم بو آدم بو کہتا اپنے ٹھکانے میں قدم رکھتا ہے۔ چند مقامی لڑکے بالے اسے دیکھ کر ہنستے تھے۔ ایک نے کہا۔
‘‘احمق۔ گلگت سے پیدل ہنزہ آیا ہے‘ درختوں کے پھل کھاتا اور دریائے ہنزہ کا پانی پیتا۔ منگتا کہیں کا’’۔
اس فقرے پر میں نے اُسے پھر دیکھا تھا۔ نوخیز شاہ بلوط جیسا لمبا اور تروتازہ۔ میں اس سے باتیں کرنا چاہتی تھی مگر مجھے باہر سے پکار پڑی تھی۔ گاڑی مزید لدلدائی کے بعد کریم آباد جا رہی تھی۔ اس لئے ا سکی طرف مزید توجہ کئے بغیر باہر نکل آئی تھی۔
پتھروں پر اب چپ چاپ بیٹھا وہ فضاؤں کو گھورتا تھا۔ میں ڈھلانی راستے سے اوپر چڑھ کر اس کے پاس گئی۔ اس کا رک سیک اس کے سامنے پڑا تھا۔ میں اس کے پاس کھڑی تھی۔
جب دفعتاً ایک عجیب سے احساس نے میری ساری حسیات کو یوں جھنجوڑ کررکھ دیا جیسے کسی گرجے کی بے وقت بجتی گھنٹیاں قریبی آبادی کو حیرت زدہ کر دیں۔
ہزاروں میل دور بیٹھی اس کی ماں کیا جانتی ہے؟ کہ اس کا بیٹا اس وقت شدید بھوکا ہے۔ اور سر سے پاؤں تک مٹی میں اٹا فقیر بنا دوسرے ملکوں کی خاک چھانتا پھر رہا ہے۔ تب میرا جی چاہا تھا کاش میں اسے نہلا سکتی۔ صابن مل مل کر اس کا سارا گندا تار کراس کی شہزادے جیسی صورت چمکا سکتی۔
میں نے اپنا رک سیک (تھیلا) اپنے کندھے سے اتارا۔ اس میں سے کشمش ملے چنے نکالے۔ اسے دئیے۔
وہ آسٹریلیا کے کسی چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا تھا۔ سیاحت اس کا جنون تھی۔ کچھ دیر اس سے باتیں کرنے کے بعد میں اٹھی اور دوبارہ نالے کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ پل کر اس کرنے کے بعد پکی سڑک پر آگئی۔ یہاں ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی کو دونوں ہاتھوں میں تربوز اٹھائے جاتے دیکھ کر میں نے اسے روک لیا یہ کہتے ہوئے کہ میں ہنزہ کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی نرم اور شفیق سی مسکراہٹ ابھری تھی اور وہ بولا تھا۔
‘‘بھئی ہوں تو میں ہنزائی پر ساری زندگی فوج اور میدانی علاقوں میں گزار کر چند ماہ پہلے ہی یہاں آیا ہوں۔ میں اتنا کچھ آپ کو نہ بتا پاؤں گا کہ آپ کی تشفی ہو سکے’’۔
پر اتنا کرم ضرور ہوا کہ اس نرم خو شخص نے مجھے ایک ایسے لڑکے کے سپرد کر دیا جو اس علاقے کے بارے میں بڑے مستند حوالوں سے بات کرتا تھا۔ دبلے پتلے وجود کا مالک دیدار علی شیرازی ہندی (ناصر آباد) کے اسکول میں ٹیچر تھا اور ہنزہ سے متعلق ہر قسم کے اعداد و شمار اس کی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔
ہم دونوں میر آف ہنزہ کے نئے محل کو دیکھنے ہل ٹوپ ہوٹل کے پاس آکر رک گئے۔ میں نے اپنے نیچے دیکھا تھا۔ گردوپیش پر نظریں دوڑائی تھیں۔ میرے چاروں طرف قراقرم اور راکا پوشی کی چوٹیوں کے دلفریب مناظر تھے۔ خوبصورت چبوتروں کی شکل میں کھیت اور شاہ بلوط کے سرسبز جھومتے درخت وادی کی ڈھلوانوں پر پھیلے آنکھوں کو روح پرور آسودگی بخش رہے تھے۔ خوشگوار ہواؤں کے جھونکے چہروں سے ٹکراتے پھولوں اور پھلوں کی خوشبو سے دماغ معطر کئے جاتے تھے۔
ہرچی نالے اور حیدر آباد نالے کے درمیان کا علاقہ بلتت کہلاتا ہے۔ التت میں وہ قلعہ نما محل ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ بالتی یُل (موجوہ بلتستان) کے بادشاہ می زوس عبداخان نے اپنی بیٹی شاہ خاتون کی نسبت ہنزہ کے راجہ عیا شو دوم سے کر دی۔ اس وقت معاشرتی لحاظ سے ہنزہ ریاست بہت کمزور تھی۔ اس لئے بادشامی زوس عبداخان نے اپنے معماراور آدمی بھیج کر ہنزہ میں التت کے مقام پر ایک قلعہ نما محل بنوایا جس کے صدر دروازے پر بدھ مت کے پیروکاروں کا قدیم مقدس نشان کندہ ہے۔ یہ محل تیار ہونے پر بادشاہ نے اپنی بیٹی کو بہت سارے ساز و سامان خادموں اور کنیزوں کے ساتھ ہنزہ روانہ کیا۔ راجہ ہنزہ نے ان خادموں اور کنیزوں کو جس جگہ آباد کیا جو بلتت کے نام سے مشہور ہوئی۔
‘‘بلتت کا موجودہ نام کریم آباد ہے۔ دیدار علی اب کچے راستے پر چل رہا تھا۔ آگے بلتتکھن تھا۔ میرے قدموں نے عجیب سی مقناطیسی کشش محسوس کی تھی۔ رک کر میں نے پھر ادھر ادھر دیکھا تھا۔ خوبصورت چہروں والے بچے ‘غیر ملکی ٹولیاں نیچے سے آئے ہوئے میدانی لوگ مقامی مرد اور کہیں کہیں گھومتی پھرتی کوئی بوڑھی عورت اپنے مقامی لباس میں سب نظروں کو بار بار نظر بازی کرنے پر اکسا رہے تھے۔
اس نظر بازی میں ایک معجزہ رونما ہوا۔ میں نے دیکھا تھا۔ میرے ابتدائی سفر کے ساتھی عروج اور اس کا خاوند زمان بڑی سڑک پر بھاگتے ہوئے میری طرف آرہے تھے۔
‘‘یا میرے پروردگار کس زبان سے تیرا شکریہ ادا کروں’’۔
میں نے عروج کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور ساتھ ہی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جانے کی وجہ دریافت کی۔ عروج تنک کر بولی۔
‘‘ارے ہم تو اسی دن یہاں بھاگ آئے تھے۔ گلگت تو مار تنور بنا پڑا تھا۔ میں چھ سوئیٹر ساتھ لائی تھی ان کی نمائش کیسے ہوتی’’؟
وہ لوگ نیو جوبلی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ رات ان کے پاس گزارنے کا وعدہ کر کے میں نے انہیں خدا حافظ کہا۔
اس وقت جب آسمان کا پچھمی حصہ شفق سے لال گلال بنا ہوا تھا۔ جب پرندوں کی ڈاریں اپنے گھونسلوں کی طرف رواں دواں تھیں۔ جب وادی کے گھروں سے دھواں اٹھ کر فضا میں بکھر رہا تھا۔
عین ان لمحوں میں میرے دماغ میں اٹھتا ایک اچھوتا خیال میرے پاؤں کی حرکات پر اثر انداز ہوا تھا۔ میں رک گئی تھی۔ توکل کی حقیقی روح اور اس کی ماہیت کو سمجھنے میں آگہی نے بہت سی دشوار منزلیں طے کر لی تھیں۔ دل کی سر زمین پر میرے ماحول کے ہاتھوں لگائے گئے توکل کے پودے کی جڑیں کبھی گہری نہیں ہوئی تھیں۔ وسوسوں ’ تفکرات اور الٹے سیدھے اندیشوں کی تیز ہوائیں اسے جڑ پکڑنے نہیں دیتی تھیں۔
پر وادی ہنزہ کی اس کشادہ سڑک پر جس کے ایک ہاتھ آغا خان اکیڈمی اور دوسرے ہاتھ برشل محلہ تھا اس کے تنے کی رگیں بہت نیچے اتر گئی تھیں۔ میں نے ہر معاملہ کلی طور پر اس کے سپرد کرتے ہوئے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا جیسے ہوا میں اڑتا ہوا ایک غبارہ یا پتنگ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply