• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط4)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط4)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشا
جاتے ہیں جدھر سب میں اُدھر کیوں نہیں جاتا

وہ خواب جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے
وہ خواب ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتا

مسکن ادویات کے زیر اثر اس نے بھرپور نیند تو لی مگر عجیب سا خواب اس نے دیکھا جیسے وہ ڈوب رہی ہے اور پانی کی سطح بلند ہونے کے ساتھ اس کی روانی میں بھی جوش دکھائی دیتا ہے وہ پکارتی ہے اور ہاتھ پاؤں چلاتی ہے۔منظر بدلتا ہے اور ہسپتال کا وارڈ اس کی پکاروں سے گونج اٹھتا ہے ۔طبی عملے سمیت بہت سے افراد اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
وہ غیر یقینی سی کیفیت کے ساتھ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اردگرد کا منظر دیکھتی ہے ۔ پسینہ سے شرابور بدن کے ساتھ وہ اسی گومگو کیفیت میں ہوتی ہے کہ وہ خواب ہےیا حقیقت ۔
ساتھ میں اس کا سینہ بری طرح جلتا ہے اور دل کی دھڑکن بے لگام گھوڑے کی طرح سر پٹ دوڑتی محسوس ہوئی۔ اماں اور بہن ڈاکٹر کے ساتھ اس کے سرہانے کھڑے اسے تشویش سے دیکھنے لگتے ہیں کہ ایک جھٹکے سے وحشت کے ساتھ اٹھ بیٹھتی ہے حالانکہ اس نے سونے سے پہلے کے حالات کا جائزہ لیکر اپنے منتشر خیالات اور اعصاب کو یک جا کیا تھا اور سب کو بہتر کی رپورٹ دی تھی۔
مگر۔۔
ہسپتال سے گھر آنے کے بعد کئی دن اور راتیں گزر گئیں مگر حال دل ویسا ہی پریشان رہا۔ضحیٰ  اپنے بستر میں ملجے کپڑوں ،الجھے بالوں،بےترتیب حلیے اور بیزار شکل لیے وہی کام کر رہی تھی جو کچھ دنوں سے اکلوتا مشغلہ تھا۔سوچنا اور حد سے زیادہ سوچنا۔ اسی کیفیت کی وجہ سے اس کی صحت گرتی گئی اور وہ دیکھنے والوں کو ہڈیوں کا ڈھانچہ لگنے لگی تھی اس کی حالت اس خزاں رسیدہ درخت جیسی ہوگئی تھی جسے اندر سے دیمک چاٹ گئی ہو۔فی الحال وہ اپنی ظاہری حالت سے بے پروا اپنی سوچوں کا مرکز اندرونی حالت زار کو بنائے ہوئی تھی اور کانوں میں ڈاکٹر کی باتوں کی بازگشت تھی۔مسلسل کانپتے ہوئے اسنے اٹھنے کی کوشش کی اور ایک عزم کیا کہ اب کچھ بھی ہو بزنس بھی دیکھنا ہے جو لاپرواہی،سست روی ، منتشر سوچ اور بدنظمی سے دن بدن بگڑتا جا رہا تھا۔ مگر یہ سوچنا صرف آسان تھا ۔ تپتے صحرا، کانٹوں بھرے راستے اور پرخطر اندھیری رات میں گھنے جنگل سے گزرنے کے موافق ہمت چاہیے ۔
روم لاک کرکے باتھ روم میں تیار ہونے لگی کہ اب تو بند جگہ سے بھی خوف آتا تھا۔ضحیٰ نے آہستہ آہستہ اپنا ایک کمفرٹ زون تیار کرلیا تھا ۔باتھ روم کا دروازہ لاک نہیں کرنا،منہ نیچے کرکے نہیں چلنا کہیں گر نہ جاؤں،جو چیز گلے میں پھنس گئی وہ پھر کبھی نہیں کھانی کہ کہیں میں مر نہ جاؤں۔اب وہ فوبیاز کی طرف سمیٹنے لگی بلاوجہ کے خوف اسے گھیرنے لگے ۔ خود اعتمادی متزلزل ہونے لگی ۔بے بسی سے یہ سوچنے لگی مجھے کیا ہوتا جارہا ہے۔میری ذات تو خود ہی میں سمیٹنے لگی ہے۔

خیالات میں گم الجھے بالوں کا جوڑا اور دوپٹے کا اسکارف بناتے ہوئے اسے لگا کہ آنکھوں کا منظر پھر دھندلا رہا ہے ، فوراً لڑکھڑاتے قدموں اور کانپتی ٹانگوں بے ترتیب سانسوں کے ساتھ بیڈ کو تھام کر بیٹھ گئی۔بے بسی سے آنسو آنکھوں سے بہنے لگے ۔ سوچنے لگی کیا کرو اب تو بہت ہوگیا۔اب میں ختم ہو رہی ہوں۔میں مرجاؤں گی۔ کسی سے شئیر کرو ں توکس سے میرا مزاق بن جائے گا پہلے ہی گھر میں میری کیفیت کو مشکوک سمجھا جاتا ہے ۔
باہر سے اماں نے اونچی صدا لگائی ” ضحیٰ، او ضحیٰ ،ضوئی کچھ کھا لے صبح سے بھوکی پڑی ہے اور پھر تمہارا ڈیپریشن کا دورہ شروع ہوجائےگا۔مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے کام ٹھپ ہوا پڑا ہے اور تم پتہ نہیں کونسا جوگ لیے بیٹھی ہو” اوپر سے ابا تمہارا کچھ کرتا نہیں ہے ۔
ضحیٰ نے نحیف اور مرمریں آوازمیں کہا”آئی اماں”
دوپٹے سے آنسو صاف کیے “اللّٰہ میرے اللّٰہ” اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔
کہیں یہ میرے گناہوں کا نتیجہ تو نہیں ہے ۔ منفی سوچ نے اسے گھیر لیا ۔
خوف نے دل میں گناہوں کو بوجھ اور احساس ندامت کو بڑھا دیا ۔شیطان نے بھی وسوسہ ڈال دیا کہ درست سوچ رہی ہو اور مغفرت کی سوچ کو دبا دیا۔ بد دلی چھا گی ۔ اب نماز میں کھڑا نہ ہوا جاتا تھا تو نمازیں بھی جاتی رہیں۔روح جب پیاسی ہوئی تو دل کی زمین بنجر ہونے سے اس میں منفی خیالات کی بوچھاڑ شروع ہونے لگی ۔ کیا اللّٰہ مجھے معاف کردےگا؟
مایوسی گرجی اور دل پر گہرے سایے ڈال دیے۔
بر آ مدے میں ریشمہ تخت پر رول میں قرآن رکھے ہل ہل کر اونچی تلاوت کر رہی تھی۔اچانک روکی اور ضحی کو ٹوکا،”اللّٰہ سے لو لگاؤ،جو اللّٰہ کا ذکر کرتا ہے اسے کونسا خوف ہوتا ہے بھلا,ہونہہ”
طنز کے تیر پھینک کر دوبارہ قرآن پڑھنے لگی ۔ضحی کے قدم تھم گئے، دل پر بوجھ آ گیا۔ دل گرفتگی کے ساتھ سننے لگی۔
“اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو”
(البقرہ:155)
ضحی نے مسکرا کر سر جھٹکا اللّٰہ کے بندے تو اللّٰہ کے بندے ہیں۔مگر اللّٰہ ہی ہے جو مجھے خوف سے آزما رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں صبر کروں۔میں صبر کرونگی۔میں کل ہی سائیکالوجسٹ کے پاس جاؤں گی۔میں لوگوں کی باتوں پر دل تنگ نہیں کروں گی مجھے لوگوں کے رویوں پر دکھی ہونا ہی نہیں ہے کیونکہ
“کیا اللّٰہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے”
(زمر:36)
اماں کے پاس آرام سے بیٹھی ،گھونٹ گھونٹ پانی خوف کے بگولوں سمیت گلے سے اتارنے لگی۔اماں اب حسرت سے ضحی کو دیکھ رہیں تھیں اچھی بھلی بچی نماز،قرآن ،بزنس کرتی تھی۔بیٹھے بیٹھے پاگل پن کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ضحی نے اماں کے چہرے کو دیکھتے ہوئے آنکھیں کسی مجرم کی طرح جھکا لیں جیسے وہ سوچیں انکے چہرے سے پڑھ رہی ہو۔
دل ہو حساس تو جینے میں بہت گھاٹا ہے
میں نے خود اپنے ہی زخموں کا لہُو چاٹا ہے
مُجھ پہ احساں ہے میری تِیشہ بکف سانسوں کا
زِندگی تُجھ کو پہاڑوں کی طرح کاٹا ہے

اور پھر اس نے ماضی کے دروازے پر دستک دی اور دل شکستہ اندر داخل ہوگئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔