فرعون کے دوبدو: حصہ سوم ۔۔۔ میاں ضیاء الحق

 

ایک محاورہ ہے کہ کسی چیز کو ایک دفعہ دیکھنا اس کے بارے میں ہزار بار سننے سے بہتر ہے۔ زندگی میں جن چیزوں سے لگاؤ رہا ان میں دریا اور پہاڑ سرفہرست ہیں۔ دریا کی وسعت اور بے لگام روانی اور پہاڑوں کی فلک شگافی کا میں دلی طور پر معترف رہا ہوں۔

معجزوں پر یقین تو نہیں ہے لیکن جس پہاڑ سے پہلا واسطہ پڑا اس عظیم چوٹی کا نام اب کٹی پہاڑی ہے۔ اس کو کئی دفعہ سر کرکے قصبہ کالونی جاچکا ہوں اس وقت اس کو کاٹا نہیں گیا تھا۔

گریٹ دریائے نیل:

مصر میں تاریخی مقامات کو دیکھنے کا جتنا شوق تھا تقریبا اتنا ہی اس دریا کو دیکھنے کا تھا جو دنیا کا دوسرا 6800 کلومیٹر لمبا دریا ہے کیونکہ کچھ لوگ ایمازون کو برتر مانتے ہیں۔

گریٹ دریائے نیل دراصل دو دریاؤں سے مل کر بنتا ہے۔ سفید اور نیلا نیل۔ سفید دریائے نیل روانڈا سے شروع ہوکر گریٹ جھیل وکٹوریا بناتا ہے جو تنزانیہ اور یوگنڈا میں بٹی ہوئی ہے۔ سوڈان میں خرطوم کے مقام پر ایتھوپیا سے آنے والا نیلا دریائے نیل اس سے مل جاتا ہے تو اس کا سائیز تقریبا دوگنا ہوجاتا ہے۔

شمالی افریقہ کے ٹروپیکل ایریاز میں ہونے والی بارش اتنی زیادہ ہے کہ یہ عظیم دریا بنا دیتی ہے۔ مصر کی خوش قسمتی ہے کہ اس کو دریا بھرا ہوا ملتا ہے اور اس کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔

8  کروڑ آبادی والے مصر کا نوے فیصد صحرا پر مشتمل ہے اور دس فیصد صرف وہ حصہ آباد ہے جو اس دریا کے کنارے پر آباد ہے۔

اہرام سے واپسی اور دریائے نیل میں انٹری :

اہرام مصر کی سیر کے اوقات شام ساڑھے چار بجے تک ہیں۔ باہر آکر ٹیکسی والے سے کہا کہ واپس قاہرہ لے جائے اور دریا کے اس کنارے پر اتارے جو میرے ہوٹل کے بالکل ساتھ ہے تاکہ واپس پیدل ہوٹل جاسکوں۔

کارنش پر دریائے کے دونوں جانب پرائیویٹ فلوٹنگ ریسٹورنٹس اور کلب ہیں۔ پلان یہ تھا کہ کسی طرح اس مقام تک پہنچا جائے جہاں سے کشتی مل جائے اور کچھ وقت دریا کے اندر گزارا جائے۔ ایک مصری سے پوچھا تو اس نے کہا کہ آپ کو دریا کے دوسری طرف جانا پڑے گا جہاں چھوٹی کشتیاں مل سکتی ہیں۔

دریا کے اوپر بنا پل یہاں سے ایک کلومیٹر دور نظر آرہا تھا۔ سارا دن فرعونوں کے ساتھ گزار کر اب ایک قدم چلنا بھی دشوار لگ رہا تھا لیکن محبت نیل میں کچھ بھی کر گزرنے کا ارادہ لیے چل پڑا۔پل کے اوپر پہنچ کر معلوم ہواکہ کشتیاں دائیں جانب ہیں۔ اور بہت سے لوگ اور فیملیز ان میں سوار ہورہی تھیں۔

میاں صاحب نے اعتماد کے ساتھ کشتی پر پاؤں رکھا تو ملاح نے کہا نا میاں صاحب نا۔ دوسری پر جاؤ۔ میں سمجھا شاید مطلوبہ افراد پورے ہوچکے ہیں اس لئے منع کر رہا ہے۔ دوسری کی طرف بڑھا تو ایک مصری نمودار ہوا اور کچھ پوچھنے لگا۔ اس کی وافر عربی سمجھ سے باہر تھی اپنی عربی بھی کم پڑ گئی۔ کافی تگ و دو کے بعد سمجھ آیا کہ یہ صرف سپیشل کشتیاں ہیں اور فیملی اونلی ہیں جہاں وہ ناچ گانا اور کھانا “پینا” بھی کرتے ہیں ۔ میاں صاحب کو چاہئے کہ الگ سے فل کشتی بک کروائیں اور جو چاہے ماہئیے ٹپے گاتے رہیں عربی میوزک کے سنگ۔ عرض کیا کہ کوئی راستہ نکالو اور اسی میں لے چلو میاں دعا دے گا۔ پاکستانی منت ترلا کام کرگیا اور ایک فیملی کے ساتھ جانے کا انتظام کردیا گیا۔ کشتی کی فرنٹ سیٹ پر براجمان ہوکر دریا کے سحر کو محسوس کرنے کی کوشش شروع ہی کی تھی کشتی نے ایڈوانس گئیر لگایا اور سپیڈو سپیڈ بیچ دریا لے گئی۔ العروسہ چائے کا کپ آفر کیا گیا جس سے سارے دن کی تھکاوٹ کم ہوتی محسوس ہوئی۔

کشتی پر کچھ دیر ٹائی ٹینک پوز بنا کر واپس سیٹ پر آگیا۔ اب اس پوز کا رواج پڑ چکا تھا اور سب افراد یہی کررہے تھے۔ میوزک عروج پر چل رہا تھا اور فیملی ممبران روائیتی عربی ڈانس کرہے تھے اس بات سے بے فکر ہوکر کہ میاں بھی ادھر ہی موجود ہے۔ دریا میں اسی قسم کی کشتیوں کی رونق لگی ہوئی تھی اور سب ٹھنڈی ہوا دریائے نیل کا پانی اور شام کے وقت کو انجوائے کر رہے تھے۔ یہاں گزرا ہوا وقت ایک یادگار تھا۔

ایک گھنٹہ پورا ہونے پر کشتی واپس کنارے آلگی۔ اس کشتی مینیجر کا پھر سے شکریہ ادا کیا تو وہ خوش ہوگیا۔ واپس پل پر آیا تو ایک مصری عورت مکئی کے تازہ بھٹے کوئلے پر بنا رہی تھی۔ یہاں کی مکئی کے دانے پیلے کی بجائے سفید رنگ کے تھے۔ اور ذائقہ میں بھی فرق تھا۔

رات کے 8 بج چکے تھے ۔ ایک مصری ریسٹورنٹ دیکھا تو عربی پیزا آرڈر کیا۔ آدھا کھایا اور آدھا پارسل کروا لیا کہ بہت بڑا تھا۔

الاقصر (Luxor) جانے کی پلاننگ:

کل کا دن قاہرہ میں ہی گزارنا تھا اور پرسوں لکسر جانا تھا۔لکسر قاہرہ سے 650 کلومیٹر دور ہے۔ ٹرین کے ذریعے 10 گھنٹے اور جہاز سے 1 گھنٹے کی فلائٹ تھی۔ دونوں کی قیمتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔ ٹرین کی ٹکٹ 80 امریکی ڈالر کی تھی جبکہ جہاز کی ٹکٹ 100 یورو یعنی 115 امریکی ڈالرز۔

ایڈوینچر کا تقاضہ تھا کہ دونوں کو ہی انجوائے کیا جائے۔ مصری ٹورسٹ ٹرینیں جرمنی سے امپورٹڈ ہیں اور تقریبا سب کی سب سلیپر ہیں۔ پہلی بوگی سکیورٹی کی ہوتی ہے جبکہ باقی سب ٹورسٹس کے لئے۔ایک کیبن میں دو افراد سو سکتے ہیں۔
رات کو سو کر علی الصبح الجیزہ (Giza) کے میٹرو سٹیشن جا کر ٹکٹ خریدنے کا پروگرام بنایا تاکہ اسی شام ساڑھے سات بجے لکسر کے لئے روانہ ہوا جائے اور واپسی کے لئے ائیر ایجپٹ Air Egypt کی فلائٹ ان کی ویب سائیٹ سے بذریعہ کریڈٹ کارڈ آن لائن بک کر لی۔ بکنگ ڈاٹ کام سے لکسر میں ہوٹل دیکھنا شروع کیا تو Eatab ملا جو 4 سٹار اور دریائے نیل کے کنارے واقع تھا۔ ایک رات کے 40 ڈالرز میں ڈیل بری نہیں تھی۔ یہ ہوٹل ابھی تک کے سب ملکوں اور تمام ہوٹلوں میں سب سے زیادہ اچھا ثابت ہوا۔

اگلے دن کے پروگراموں میں تاریخی تحریر سکوئیر اور قاہرہ میوزیم کا دورہ تھا جو کہ برادر شمشیر علی راؤ کی رائے میں پہلے دیکھنا چاہئے تاکہ لکسر جا کر رامسس اینڈ سنز وغیرہ وغیرہ کے مقبرے زیادہ معلوماتی لگیں۔ لکسر کے مقبروں سے ممیاں قاہرہ لا کر میوزیم میں رکھی جاچکی ہیں لیکن لکسر کے ویلی آف کنگز نامی مقام پر پہاڑی مقبروں کو ان کی اصل حالت اور مقام پر دیکھنا ضروری تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply