گلگت بلتستان فورتھ شیڈول کی زد میں/اشفاق احمد ایڈووکیٹ

شیڈول فورتھ انسداد دہشتگردی ایکٹ کا ایک دفعہ ہے جس کا اطلاق ایسے افراد پر کیا جاتا ہے جو کسی کالعدم تنظیم کے ممبر ہوں، دہشتگردی کے کسی اقدام میں ملوث ہوں، فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو، یا ریاست کی سالمیت کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو۔

ایسے افراد کو حکومت انسداد دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈول کی لسٹ میں ڈال کر ان کی نگرانی کرتی ہے، ان کے بنک اکاؤنٹس منجمد کئے جاتے ہیں اور ان کی نقل و حرکت کو محدود کیا جاتا ہے تاکہ ان کو منفی سرگرمیوں سے باز رکھا جائے۔
اس قانون کے اطلاق کے بعد انہیں عوامی جلسے جلوس، عوامی اجتماعات میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے اور بنا اجازت کے وہ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر بھی نہیں کرسکتے ہیں نہ ہی انہیں عوامی اجتماعات میں شرکت کرنے، بولنے یا تقریر کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس لئے عام طور پر اس قانون کو زبان بندی کا قانون بھی کہا جاتا ہے۔
ویسے تو اس قانون کے اطلاق کا بنیادی مقصد دہشتگردوں کی نقل حرکت اور ان کی ریاست مخالفت اور دنیا کے دیگر ممالک میں دہشتگردی میں ملوث افراد کو روکنے کے علاوہ ملکی اور عالمی سطح پر دہشتگردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے سے بھی روکنا تھا۔ یہ قانون پاکستان میں انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت نافذ العمل ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے اس قانون پر ایک بنیادی تنقید یہ کی جاتی ہے اس خصوصی قانون کے اس دفعہ ذریعے عام طور پر سیاسی مخالفین اور اختلافی رائے کو دبانے کے لیے حکومت وقت استعمال کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں جن کی ضمانت آئین پاکستان کے ارٹیکل 15، 16 ،17 اور آرٹیکل 19 میں دی گئی ہے۔ لہذا پرامن سیاسی کارکنوں کی بجائے اس فورتھ شیڈول کے اس قانون کا اطلاق صرف دہشتگردوں پر ہونا چاہئے تاکہ معاشرے میں رول اف لا ممکن ہو سکے۔

گلگت بلتستان میں چند سال قبل اس قانون کا اطلاق کیا گیا تھا جس پر عوام نے سخت احتجاج کیا چونکہ گلگت بلتستان ائین پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 کے تحت ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور انسداد دہشتگردی ایکٹ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں نافذ نہیں ہے۔ اور گلگت بلتستان میں بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دینے کے لئے آزاد جموں وکشمیر کی طرح آئین بھی نہیں دیا گیا ہے، بلکہ ایک صدارتی حکم نامے آرڈر 2018 کے تحت نظام کو چلایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کو بنیادی انسانی جمہوری سیاسی معاشی حقوق کا آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اس طرح کے حالات میں عدلیہ بھی اتنی موثر نہیں ہوسکتی ہے جس کا قیام ایک صدارتی حکم نامے کے تحت عمل میں لایا گیا ہو۔
چنانچہ ایسی صورت حال میں گلگت بلتستان میں شیڈول فور کا اطلاق دہشتگردوں کے بجائے سیاسی کارکنوں پر ہونا قابل افسوس اور تشویشناک ہے۔
حالیہ دنوں گلگت بلتستان کے مقامی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق حکومت گلگت بلتستان نے 36 افراد کو شیڈول 4 میں ڈالا ہے جن میں گلگت بلتستان کے چند مشہور سیاسی کارکنوں ، مثلا شبیر مایار، وزیر حسنین، منظور پروانہ، حسنین رمل اور یاور عباس وغیرہ کے علاوہ کچھ مشہور علماء کرام کے نام بھی سرفرست ہیں جن میں گلگت بلتستان کی ایک توانا آواز آغا علی اور چند ماہ قبل تک گلگت بلتستان اسمبلی کے وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا کا نام بھی سرفرست تھا۔گلگت بلتستان میں اس قانون کا اطلاق قوم پرست جماعتوں کے ممبران پر لاگو کیا جاتا ہے جن پر سرکاری بیانیہ میں sub Nationalism کو فروغ دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس اصطلاح کے خلاف رد عمل دیتے ہوئے گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبر اور مشہور قوم پرست لیڈر نواز خان ناجی نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے لئے یہ اصطلاح استعمال کرنا درست نہیں چونکہ یہ خطہ اپنی ایک منفرد قانونی شناخت اور قومی حیثیت کا حامل ہے۔ اس وقت پورے گلگت بلتستان میں گزشتہ سترہ دنوں سے گندم سبسڈی کے خاتمے کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں لیکن حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے سیاسی کارکنوں پر شڈول فور کا اطلاق کر رہی ہے ۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے چیف کواڈنیڑ احسان علی ایڈوکیٹ کے بقول یہ عوامی احتجاج گلگت بلتستان میں گندم سبسیڈی سمیت عوام کے غصب شدہ تمام بنیادی حقوق کے لئے ہے، جن میں اہم ترین مطالبات مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔فنانس ایکٹ 2023 اور نام نہاد ٹیکسوں کا خاتمہ۔
2۔عوامی اراضیات پہ خالصہ سرکار قانون کے نام پر قبضے کا خاتمہ۔
3۔معدنیات کی بیرونی کمپنیوں کو بندر بانٹ کا خاتمہ۔
4۔ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور میں تیسرے فریق کے حقوق۔
5۔ دیامر بھاشا ڈیم میں 80 فیصد اور داسو ڈیم میں 50 فیصد رائلٹی۔
6۔گلگت بلتستان کی ملازمتوں میں وفاقی حکومت کے کوٹے کا مکمل خاتمہ،۔
7۔ جی بی سے حاصل ہونے والی ڈائریکٹ اینڈ انڈائریکٹ ٹیکسوں کی آمدنی کا حساب ۔
7۔این ایف سی ایوارڈ میں گلگت بلتستان کا حصہ۔
9۔ گلگت بلتستان میں بجلی کی شدید ترین لوڈ شیڈنگ کی خاتمے کیلئے ہنگامی بنیادوں پہ دریائے سندھ اور دریائے گلگت پہ چھوٹے ڈیموں کی فوری تعمیر۔
10۔ گلگت بلتستان میں آزاد خودمختار آئینی عدالتی نظام کا قیام۔
11۔ گلگت بلتستان گورننس آرڈر 2018ء جیسے کالونیل نظام کی جگہ جی بی کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ایک عبوری آئین کی تشکیل اور اس آئین کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ ۔
12۔ایک بااختیار آئینی نظام حکومت کا قیام۔
13۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی میں طلباء فیسوں کا مکمل خاتمہ اور دیگر بنیادی مطالبات کے گرد عوامی تحریک کو منظم و متحرک کیا جائے گا۔
ایسی صورت حال میں گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنوں پر شیڈول فور کا اطلاق کرنا حکومت کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔
گلگت بلتستان میں شیڈول فور کا اطلاق دہشتگردوں پر ہونا چاہئے نہ کہ سیاسی کارکنوں پر ، کیونکہ سیاسی کارکن پر امن جدوجہد کرتے ہیں یہ ان کا بنیادی انسانی حق ہے کہ وہ پرامن جدوجہد کریں تاکہ گلگت بلتستان کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں جو پاکستان کے دیگر شہریوں اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے لوگوں کو حاصل ہیں۔ شیڈول فور کے شکار سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے حالیہ دنوں میں سیاسی کارکنوں کو شیڈول فور میں ڈالنے کا واحد مقصد ان کو گندم سبسڈی تحریک میں حصہ لینے سے روکنا ہے تاکہ وہ گلگت بلتستان کی توانا آواز بن کر عوام کی رہنمائی نہ کرسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت دہشت گردوں کو پکڑنے میں نام ہوئی ہے ۔
اور ان دہشتگردوں کو شیڈول فور میں کیوں نہیں ڈالتی ہے؟ جو جدید ہتھیاروں سے لیس ہوکر شوشل میڈیا میں آکر ویڈیو پیغام جاری کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ ماہ 2 دسمبر 2023 تاریخ کو غذر سے پنڈی جانے والی ایک مسافر بس پر دیامر ہڈور کے مقام پر دہشتگردوں نے بس پر مہلک ہتھیاروں حملہ کیا اور 14 بے گناہ افراد کا سر عام قتل کیا اور 40 کے قریب افراد کو زخمی کیا اور آسانی سے فرار ہوئے۔ تاحال حکومت انہیں گرفتار نہیں کرسکی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ حکومت نے ان کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں۔ حالانکہ قانون کے مطابق دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات کرنا غیر قانونی ہے۔ اس عمل پر ردعمل دیتے ہوئے گلگت بلتستان کے اپوزیشن لیڈر اور کچھ مذہبی جید علما نے اس عمل کو ایسے عناصر کی پشت پناہی کرنے کے مترادف قرار دیا ہے اور سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
گلگت بلتستان کے دانشور عزیز علی داد نے حکومت کے اس اقدام پر رد عمل دیتے ہوئے گلگت بلتستان کو زون آف zombies قرار دیتے ہوئےلکھا ہے کہ “آئین تو نافذ نہیں کرسکے مگر شیڈول فور جیسے گھناونے قانون کو گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں لاگو کرنے میں ان کی پھرتی تو دیکھئے۔بہتر ہے بصری بیریئر ( جہاں سے گلگت بلتستان کا حدود شروع ہوتی ہے ) سے اوپر کی طرف سارے گلگت بلتستان کو شیڈول فور زون میں شامل کیا جاۓ کیونکہ شہری کے تصور کو یہاں تاراج کرکے اس علاقے کو زونبی زون بنا دیا گیا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لہٰذا اس طرح کی پالیسی اور دھرے معیار اپنانے سے گلگت بلتستان جیسے اہم سٹریٹجک علاقے میں بسنے والے باشندوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہونے کے ساتھ اس خطہ امن و امان بھی متاثر ہوسکتا ہے اور دہشتگردی کے مذید واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا شڈول فور کا اطلاق دہشتگردوں پر کیا جائے نہ کہ سیاسی کارکنوں پر تاکہ گلگت بلتستان میں رول اف لا کا قیام ممکن ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply