حقوق کی جدوجہد(اختصاریہ)۔۔ایاز علی

روزا پارک وہ لڑکی تھی جسے امریکہ  میں  بس کی سیٹ سے یہ کہہ کر اٹھایا گیا کہ یہ سیٹ فقط گورے لوگوں کے لیے ہے۔ کالے لوگوں  کے لیے نہیں۔۔ اور پھر وہاں سے سول رائٹس موومنٹ چلی، جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، وہ کالے لوگ جنہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا انہی لوگوں کو بیدار کیا گیا۔ ان میں شعور پیدا کیا گیا اور انہی Negroes کالے لوگوں کے حقوق کے لیے انتھک جدوجہد کرکے انہیں وہ مقام دلایا گیا جو ناممکن تھا۔۔

پر ہمارے ہاں سندھ میں بسنے والے کولہی، کچھی، بھیل اور ایسی  بہت سے کمیونٹیز ہیں جو کسمپرسی والی حالت مین زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جنہیں بیدار کرنے پر انہیں تعلیم کی طرف مائل کرنے پر ایسے ہیں کچھ باشعور لوگ سندھ میں بھی موجود ہیں جو اس ظلم کے خلاف جدوجہد کر رہی  ہیں، پر کافی عرصے سے ان لوگوں  کو طرح طرح کے  الزام لگا کر ان پر کیس داخل کیے جاتے ہیں۔ یا پھر انہیں  تھانے لے جاکر ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔

اصل میں ہونا یہ چاہیے کہ ان دھرتی کے حقیقی وارث لوگوں کا ساتھ دے کر انہیں اس مقام پر لایا جائے جس کے یہ اصل حقدار ہیں، جیسے سندھی کے ایک گیت میں کہا جاتا ہے کہ،

آندھی۾ جوت جلائڻ وارا سنڌي ۽ خاڪ کي سون بڻائڻ وارا سنڌي ‘

یہی وہ لوگ ہیں  ہیں ،جو  دن رات کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور خاک کو سونا بنانے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں، پر یہ محنت کش کسان لوگ آئے دن یا تو کسی جاگیردار کی نجی جیل میں تذلیل کا نشانا بنتے ہیں یا ان لوگوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی بدسلوکی ہوتی رہتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بس اتنا ہی کہنا ہے کہ اس معاشرے کو روزا پارک اور مارٹن لتھر کنگ جیسی عظیم سوچ کی ضرورت ہے اور وہ سوچ تعلیم سے ممکن ہے!
دراوڑ اتحاد زندھ آباد!

Facebook Comments