• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہندی سینما کا ارتقا (ایک تجزیاتی مطالعہ)۔۔۔قسط1/ذوالفقار علی زلفی

ہندی سینما کا ارتقا (ایک تجزیاتی مطالعہ)۔۔۔قسط1/ذوالفقار علی زلفی

سینما دیگر فنون کے مقابلے میں نسبتاً جدید اور موثر ترین فن ہے ـ سینما کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ مختلف فنون جیسے ادب، شاعری، موسیقی ، مصوری، مجسمہ سازی اور فوٹو گرافی کا مرکب ہے ـ اس خصوصیت کی وجہ سے اسے انسان کی اہم ترین تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے ـ

برصغیر میں سینما کی شروعات 1896 کو ہوئی ـ فرانس کے لومیئر برادرز نے انگریز حکومت کی اجازت سے ممبئی کے ایک ہوٹل میں مختصر فلموں کی نمائش کی ـ کہا جاتا ہے اس محیرالعقول نمائش کو دیکھنے کے لیے ایک جمِّ غفیر امنڈ آیا تھا ـ نمائش گاہ میں تَل دھرنے کو جگہ نہیں تھی ـ فرانسیسی فلم سازوں کی کامیابی نے یورپ کے دیگر فلم سازوں کو بھی اکسایا ـ اطالوی فلم ساز بھی اپنی خاموش فلموں کے ساتھ پہنچے ـ ممبئی، کلکتہ اور مدراس میں فلموں کی نمائش شروع ہوگئی ـ

ممبئی کے فوٹوگرافر ہریش چندر سکھارام بھٹواڈیکر وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا ـ انہوں نے لندن سے موشن کیمرہ منگوا کر 1899 کو ہندوستانی پہلوانوں کی کشتی کے مقابلے کو فلما کر دکھایا ـ ہریش چندر نے اس کے بعد بھی طویل مدت تک مختصر دورانیے کی فلمیں بنائیں ـ ان کے بعد دوسرا نام بنگال کے ہیرا لال سین کا آتا ہے جنہوں نے کلکتہ کے تھیٹروں کو اپنا مرکز بنایا ـ ہندوستان میں لیکن باقاعدہ فلم سازی کا سہرا دادا صاحب پھالکے کے سر بندھتا ہے ـ دادا صاحب ایک جنونی شخصیت تھے ـ انہوں نے اپنی اہلیہ کے زیور گروی رکھ کر لندن کا دورہ کیا، موشن کیمرہ خریدا اور 1913 کو ہندوستان کی پہلی طویل دورانیے کی فیچر فلم “راجہ ہریش چندر” بنا کر پیش کی ـ یہاں سے فیچر فلموں کا وہ دور شروع ہوا جو آج تک مختلف ارتقائی ادوار سے گزرتا ہوا جاری ہے ـ

نوآبادیاتی عہد

ہندوستان اور بالخصوص بمبئی کی ہندی سینما جسے آج کل بالی ووڈ کہاجاتا ہے کے فلمی ارتقا کو سمجھنے کے لیے اسے مختلف ادوار میں تقسیم کیا جارہا ہے ـ اس میں پہلا دور نگریزوں کا نوآبادیاتی عہد ہے جسے فلموں کی نوعیت کے لحاظ سے مزید دو زیلی ادوار میں تقسیم کیا جارہا ہے ـ

1 – دھارمک دور

ہندوستانی فلموں کے باوا دادا صاحب پھالکے بنیادی طور پر ایک ہندو قوم پرست تھے ـ انہوں نے قوم پرستانہ جذبے کے تحت انگریزی ثقافت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ـ اس کے لیے انہوں نے ہندو مائتھالوجی کو اپنا ہتھیار بنایا ـ انہوں نے ہندو دیوی دیوتاؤں کے قصوں کو فلمی روپ دینا شروع کردیا ـ غلام اقوام عموماً اپنی بازیافت کے لیے تاریخ اور بالخصوص اپنی مائتھالوجی کی طرف دیکھتے ہیں ـ مائتھالوجی سے سماج کو سمجھنے اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں ـ متھ عوامی ہوتی ہے، اس میں عموماً نیکی اور بدی کے درمیان جنگ میں نیکی کو فاتح دکھانے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے ـ

ہندوستان کے متوسط طبقے نے کتابی داستانوں کو چلتی پھرتی تصویروں میں منقلب دیکھ کر انہیں زبردست حمایت بخشی ـ یہ گویا متوسط طبقے کے دل کی آواز تھی جو طویل نوآبادیاتی حاکمیت کے باعث شناخت کے بحران میں مبتلا تھی ـ دادا صاحب نے اس بحرانی کیفیت کی خاموش جھیل میں دیومالا کا پتھر پھینک کر ہلچل پیدا کردی ـ دادا صاحب کی دیکھا دیکھی میں دیگر فلم ساز بھی میدان میں اترے ـ مقامی تاجروں کو اس کاروبار میں نفع نظر آیا ، انہوں نے بھی اس میں سرمایہ لگانا شروع کردیا ـ یہ بظاہر عام مذہبی فلمیں تھیں لیکن درحقیقت سینما کے ہتھیار سے انگریز کی نوآبادیاتی حاکمیت کے خلاف فلموں کے ذریعے احتجاج کیا جارہا تھا ـ اس احتجاج کی قیادت متوسط طبقہ کررہی تھی لیکن اس کے پیچھے مقامی سرمایہ دار تھے ـ

انگریز حکومت کو جلد ہی اس نئی فلمی تحریک کے اثرات کا اندازہ ہوگیا ـ 1918 کو سینما ٹو گرافی ایکٹ نافذ کیا گیا ـ اس ایکٹ کے بعد فلم سازوں کو فلم کی نمائش سے قبل انگریزوں سے اجازت لینی لازمی ہوگئی ـ اس ایکٹ میں فلم بنانے کے کچھ قائدے اور حدود بھی وضع کیے گئے ـ اس ایکٹ نے کسی حد تک نوآبادیاتی حاکموں کو مطمئن کردیا لیکن 1920 کو جب فلموں کی نوعیت بدلی تو انگریز کے کان ایک دفعہ پھر کھڑے ہوگئے ـ

2 – سماجی دور

نوآبادیاتی عہد میں شری ناتھ پٹنکر ایک بڑے نام سمجھے جاتے تھے ـ وہ بیک وقت اسکرین رائٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر تھے ـ دادا صاحب پھالکے کی مانند وہ بھی قوم پرستانہ نظریات کے حامل تھے ـ اوائل میں انہوں نے بھی زمانے کی چلن کے مطابق ہندو دیومالائی داستانوں پر مبنی فلمیں بنائیں لیکن چونکہ وہ سیاسی ذہن رکھتے تھے اور سیاسی جدوجہد میں بھی کردار ادا کرتے تھے اس لیے انہوں نے 1920 کو ایک نئے انداز کی بنیاد رکھی ـ انہوں نے 1920 کو ہندوستان کی پہلی سماجی فلم “کٹورا بھرا خون” پیش کی ـ اس فلم نے ہندوستانی فلموں کی سمت بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا ـ فلم میں ہندوستانیت کو متاثر کن انداز میں دکھایا گیا ـ جدید قوم پرستانہ نظریات سے متاثر متوسط طبقے نے اسے دل کھول کر سراہا ـ

انگریز بھی زمانے کی ہوا بھانپ گئے ـ نوآبادیاتی حاکموں نے فوراً اسی سال سینسر بورڈ قائم کردیا ـ بورڈ کے دفاتر ممبئی، کلکتہ اور مدراس میں قائم کیے گئے ـ 1928 کو جب لاہور کی فلم انڈسٹری نے پر پُرزے پھیلانے شروع کیے تو وہاں بھی بورڈ کا ایک دفتر کھول دیا گیا ـ سینسر بورڈ کسی سین، مکالمے یا گانے کو حذف کرنے کا لامحدود اختیار رکھتا تھا، اگر کسی فلم سے حکومت کو خطرہ درپیش ہو تو اس پر پابندی بھی لگا سکتا تھا ـ

سینسر بورڈ کی تلوار لٹک جانے کے باوجود فلم سازوں نے شری ناتھ پٹنکر کے راستے کو ہی درست سمجھنا شروع کردیا ـ 1921 کو کلکتہ سے ہندوستان کی پہلی مزاحیہ سماجی فلم “ولایت پلٹ” سامنے آئی ـ اس فلم میں مزاحیہ انداز میں ان ہندوستانیوں کا مذاق اڑایا گیا جو انگریز کی تہذیبی برتری کے قائل تھے اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو کمتر تصور کرتے تھے ـ یہ فلم وسیع سطح پر دیکھی اور سراہی گئی ـ اب مذہبی فلمیں اپنا اثر کھونے لگیں اور ان کی جگہ سماج اور اس کے مسائل سینما کا موضوع بن گئے ـ انگریزی تلوار بھی مزید تیز ہوگئی ـ

1921 کی فلم “بھکت ودھر” وہ پہلی فلم بنی جس کی نمائش پر کراچی اور مدراس میں پابندی لگائی گئی ـ اگلے سال فلم “پتی بھکتی” کے ایک گانے کو سینسر کیا گیا ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

سینسر بورڈ کی تلوار کے باوجود سماجی فلمیں بنتی گئیں ـ ان فلموں میں البتہ اس کا مکمل خیال رکھا گیا کہ ایسی کوئی چیز نہ بنائی جائے جو حاکموں کی پیشانی پر بل ڈالنے کا سبب بنے ـ زیادہ تر فلمیں ہندوستان کی متوسط طبقے کو درپیش مسائل کے گرد بنائی گئیں ـ کچھ فلموں میں مغلیہ تہذیب کو بھی دکھایا گیا ـ مغلیہ تہذیب کو ہندوستانیت اور مزاحمت کے استعارے کے طور پر پیش کیا گیا ـ 1931 کو ہندوستانی فلموں نے ایک لمبی چھلانگ لگائی ـ خاموش فلمیں بولنے لگیں ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply