اور کتنی اسماؤں کا خون چاہیے؟۔۔۔۔نادر گوپانگ

موجودہ حالات میں جہاں پر ذرائع پیداوار کا مقصد صرف اور صرف منافع کا حصول ہے وہاں خدمت خلق کا کوئی  بھی ایسا شعبہ نظر نہیں آتا جس پر منافع کی ہوس کا بھوت سوار نہ ہو۔ تعلیم جیسا عظیم شعبہ کاروبار بن کر اتنا زنگ آلود ہو چکا ہے کہ اپنی بنیادی اساس کو دولت کی ہوس کے عوض فراموش کر چکا ہے۔ جس معاشرے میں تعلیمی ادارے بنانے کا مقصد بے پناہ دولت کا حصول ہوتا ہے وہاں پر تعلیم حاصل کرنا ایک عیاشی سے کم تصور نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کی تاریخ میں جس طرح سرکاری تعلیمی ادارے معیاری طور پر زوال پذیری کا شکار ہوئے ہیں اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ جیسے سرکاری تعلیمی ادارے زوال پذیری کی طرف گئے ہیں ویسے ویسے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہر جگہ پہ کھمبیوں کی مانند اگتے گئے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان بڑے کاروباری حضرات ہیں یا اب انہوں نے اتنی کثیر دولت جمع کر لی ہے کہ سرمایہ دار گردانے جاتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار حضرات تعلیمی اداروں کو فیکٹریوں کی طرز پہ چلانےپر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق تعلیمی اداروں کا بنیادی مقصد شعور و آگہی دینے کی بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہے۔ اس اصول پہ کارفرما ہوتے ہوئے کوشش کی جاتی ہے کہ اپنی لاگت کو جتنا ہو سکے کم کیا جائے۔ مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے والدین سے پیسے بٹورے جائیں۔ اپنے تعلیمی ادارے کی یونیفارم، کتابیں، سٹیشنری وغیرہ خود بیچ کر تجوریاں بھری جائیں۔ اپنے ادارے کی تشہیر پر لاکھوں روپے خرچ کر کے کچھ پوزیشن ہولڈر طلبہ و طالبات کی قد آدم تصویریں لگواتے ہوئے لوگوں کو پھنسایا جاتا ہے۔ بیروزگاری کی آسمان کو چھوتی ہوئی  شرح کی وجہ سے ایسے تعلیمی اداروں کو نہایت کم تنخواہ پر اساتذہ میسر آجاتے ہیں کیونکہ اگر ایک فرد کم تنخواہ پر نوکری نہیں کرے گا تو اس کے پیچھے ہزاروں نوجوان اس کی جگہ لینے کےلیے کھڑے ہوئے ہیں۔
ایسے میں چار ہزار سے دس ہزار ماہانہ تنخواہ پر نوجوان سارا دن محنت کی چکی میں پستے ہیں۔ اداروں کے مالکان اور پرنسپل حضرات، قوم کے ان معماروں کو اپنے زر خرید غلام تصور کرتے ہیں۔ کلاس رومز میں اساتذہ کی بے عزتی اور نفسیاتی جبر کے ساتھ ساتھ نوکری سے نکالنے کی دھمکی دینا ان فرعونوں کا مرغوب مشغلہ ہے۔ معاشی اور نفسیاتی طور پر ناآسودہ اساتذہ بھلا کس طرح سے قسمت نوع بشر تبدیل کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں؟ جس طرح ہمارے معاشرے میں عورت دہرے استحصال کا شکار ہے اسی طرح ان تعلیمی اداروں میں ایک طرف تو خواتین اساتذہ کو تنخواہ بہت کم دی جاتی ہے، نفسیاتی جبر اور معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ صنفی و جنسی استحصال کا ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ملتان میں ہونے والے واقعہ کا غور سے تجزیہ کیا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف لاریٹ پبلک سکول کا نہیں ہے بلکہ  تمام تعلیمی فیکٹریوں کا ہے کہ جن میں انسان کی زندگی، ضروریات، مجبوری اور جذبات کی کوئی  قدر نہیں ہے بلکہ  اگر کوئی  مقام و مرتبہ ہے تو وہ صرف اور صرف سرمائے کا ہے۔ کوئی  بھی واقعہ معاشرے سے الگ تھلگ نہیں ہوتا اور نہ اس واقعے کو معاشرے سے کاٹ کر دیکھتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیمی ادارے جیلوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں، یہاں پر طلبہ روزانہ کی بنیاد پر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ والدین کی آدھی سے زیادہ آمدن بچوں کے تعلیمی اخراجات پر خرچ ہو جاتی ہے جس کے بعد نوجوان بیروزگاری کی عفریت کا مقابلہ کرتے ہوئے لاریٹ سکول جیسی قتل گاہوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں کہ جہاں ایک انسان کا نفسیاتی مریض ہونا، معاشی طور پہ تنگدست ہونا اور نوکری چھن جانے کے ڈر سے مرجانا عام سی بات ہوتی ہے۔ اسما کے قاتلوں کو سزا دینے کی غرض سے بہت سارے لوگ میدان میں نظر آتے ہیں جن میں سے متعدد حضرات کا مطمع نظر اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنا ہے نہ کہ معاملے کی جڑ تک پہنچنا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اس نظام کے پروردہ ہیں جو ایسی قتل گاہوں کی نظریاتی اساس ہے۔ یہاں ہر سکول لاریٹ سکول کی مانند قتل گاہ ہی ہے کہ جہاں پر انسانی جانوں سے زیادہ گاڑیوں کی اہمیت ہے اور ہر استاد اسما کی طرح مجبور ہے۔ اگر کوئی  بھی انسان دلی طور پر اسما کے حق کی لڑائی  لڑنا چاہتا ہے تو اسے ہر استاد کی لڑائی  لڑنا ہوگی جو ان ظالموں کی چکی میں پس رہا ہے۔ جب تک تعلیمی اداروں کا مقصد منافع کی ہوس پر مبنی ہوگا تب تک ایسے واقعات روزمرہ بنیادوں پر نظر آتے رہیں گے،اساتذہ مرتے رہیں گے اور طلبہ خودکشیاں کرتے رہیں گے، والدین اپنی ساری جمع پونجیاں لٹاتے رہیں گے۔ ہمیں اس نظام کو بدلنا ہو گا کہ جس میں تعلیم کو کاروبار اور سرمایہ داروں کی لالچ و ہوس مٹانے کا اوزار بنا دیا گیا ہے۔تاکہ پھر ہم ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں کہ جس میں استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا جاسکے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply