یادوں کے دریچے وا ہوتے ہیں تو کیا کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ ایک ایسی ہی یاد کا ذکر ہے۔ ایک روز ابا گھر آتے ہی بولے :
”آج ہم سب کو کسی کے گھر جانا ہے۔“
امی نے ہم سب بچوں کو اچھے کپڑے پہنائے اور تیار کیا۔ اس وقت ہم کرشن نگر میں رہتے تھے۔ بس میں سوار ہو کر ہم دور کی ایک بستی ماڈل ٹاؤن کے ایک بڑے سے گھر جا پہنچے۔ یہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے نئے نکور گھر ”داستان سرائے“ کی شاید افتتاحی تقریب تھی، جس میں انہوں نے کچھ دوستوں کو مدعو کر رکھا تھا۔ اتنا بڑا خوبصورت اور شاہانہ گھر دیکھ کر میں تو حیرت زدہ رہ گئی۔ پُرتکلف کھانا کھانے کے بعد ہم سب کو پورا گھر گھمایا پھرایا گیا۔ اشفاق صاحب نے ہمیں اپنا ریکارڈنگ سٹوڈیو بھی دکھایا جہاں وہ غالباً اپنے ریڈیو پروگرام ”تلقین شاہ“ کی ریکارڈنگ کیا کرتے تھے۔ میں تو اس بات سے بھی بہت متاثر ہوئی کہ گھر میں ہی سٹوڈیو موجود ہے، واہ کیا بات ہے۔
یہ دو مقبول زمانہ تخلیق کاروں کا آشیانہ تھا، کیا ہی اچھی بات تھی۔ پھر اشفاق صاحب نے اپنا فرنٹ لان دکھاتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس میں بلیو گراس لگوائی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں سوچ رہی تھی، یہ گھاس نیلی تو نہیں سبز ہی ہے، تو پھر یہ اسے بلیو گراس کیوں کہہ رہے ہیں؟ بعد میں جا کے علم ہوا کہ اس گھاس کا نام ہی بلیو گراس ہے۔ جب اشفاق صاحب نے بتایا کہ یہ گھاس ڈھاکہ سے جہاز کے ذریعے منگوائی گئی ہے تو بہت سوں نے حیرت کے مارے انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ کھانے کے بعد میوزک کا دور چلا، جس میں ہم بہنوں نے امی کے ساتھ مل کر گانے سنائے اور بانو آپا کے بیٹوں نے طبلہ بجایا۔ بانو آپا نے اس روز تنگ پاجامہ پہن رکھا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس دن کے بعد انہوں نے ہم بہنوں کو ہمیشہ بانسریاں کہہ کر پکارا۔
اس کے بعد سے وہاں ہمارا باقاعدہ آنا جانا شروع ہو گیا۔ مفتی جی جب بھی اسلام آباد سے لاہور آتے ان کا قیام ”داستان سرائے“ میں ہی ہوتا اور وہ آتے ہی آواز لگاتے ”مجھے ملنے آؤ۔“ میں اور پروین عاطف بھاگے دوڑے داستان سرائے پہنچ جاتے۔ اس ادبی ٹولے کے ساتھ بیٹھ کر بابوں، پراسرار ہستیوں کے تذکرے سننا بڑا اچھا لگتا، نامعلوم حقیقتوں کو جاننے کا تجسس بڑھتا رہا اور پہلے سے بہت سا سیکھا ہوا علم مسترد ہونے کے عمل سے گزرتا رہا۔
جب میں نئی نئی افسانہ نگار بنی تو سب کی طرح میرے دل میں بھی مقبولیت اور شہرت حاصل کرنے کے بڑے ارمان تھے۔ میری اولین کتاب ”گلابوں والی گلی“ کے افسانے پہلے ہی سے پذیرائی حاصل کر چکے تھے۔ میں اٹھلاتی ہوئی اشفاق صاحب کے پاس گئی اور کتاب کا دیباچہ لکھنے کی درخواست کی جو انہوں خندہ پیشانی سے قبول کر لی۔ انہوں نے چند دنوں بعد ایک حوصلہ افزا قسم کا مضمون لکھ کر میرے حوالے کیا تو میں خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ پھر دو تین روز بعد اچانک اشفاق صاحب کا فون آیا کہ ”کاکی واپس آ“
میں بھاگی بھاگی داستان سرائے پہنچی۔ انہوں نے مضمون کو غور سے پڑھا، ایک پیرا چھوڑ کے سارا کاٹ دیا اور کہا
”میں نے تیری کچھ زیادہ ہی تعریف کر دی تھی۔“
پھر منو بھائی نے کسر پوری کردی اور میری کہانیاں پڑھ کر کھل کھلا کے مجھے ”منٹو کی پٹھی“ کا خطاب دے دیا جو آج بھی میرے لئے ایک اعزاز کی حیثیت رکھتا ہے۔
بانو آپا اور اشفاق صاحب کی ہماری فیملی سے بہت قربت تھی۔ مفتی جی وہ دھاگہ تھے جس میں اشفاق، بانو، انشا، شہاب، احمد بشیر اور پھر ان کی آل اولاد کے تعلق کی مالا پروئی رہتی تھی۔ پروین عاطف بانو کی مریدنی اور بہت معتقد تھیں۔ اکثر ان کے قدموں میں بیٹھی رہتیں۔ میں بھی ساتھ ہوتی مگر ذرا فاصلے پر رہ کر ان کی تصانیف، طاقت، تحریر و گفتار، عقل و دانش کو دل ہی دل میں سراہتی رہتی۔ میری عقیدت کبھی اس درجے کو نہ پہنچی جس میں صرف اندھا یقین اور اعتماد ہو۔ اس کی وجہ یقیناً یہی رہی ہو گی کہ مجھ میں میرے ابا احمد بشیر کی شخصیت سے مستعار لئے ہوئے شک و شبہ اور رد کرنے والے جذبے سرسراتے رہتے تھے۔
ان خوبصورت ادبی شخصیات کے ساتھ میری بہت اچھی یادیں وابستہ ہیں مگر آج میں کچھ ایسا لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں جس کے لئے میں کئی برس سوچتی رہی کہ لکھوں یا نہ لکھوں؟ صبر کروں، پی جاؤں یا کہہ ڈالوں؟ پھر سوچا کہ سچ کو ضرور لکھنا چاہیے۔ اک تھوڑا سا گلہ ہے اس ہستی سے، جس کے ادبی قد و قامت کا اک زمانہ گرویدہ اور معتقد ہے۔ ادب کے ہر قاری اور متوالے کی طرح میں بھی بانو آپا کو اپنا استاد اور گرو مانتی ہوں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ عورتوں کے بارے میں جو نظریات رکھتی تھیں وہ میری فکر اور سوچ سے مطابقت نہیں رکھتے۔
محترمہ بانو قدسیہ اپنی تحریروں میں عورتوں کو سڑک پر بکھری ہوئی ٹافیاں اور کھلا گوشت تک کہہ چکی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مرد معصوم اور عورت اکثر چلتر باز ہوتی ہے۔ اگر مرد عورت کو دیکھ کر للچا جاتا ہے تو اس کی ذمہ دار بھی عورت ہوتی ہے۔ ذاتی ملاقاتوں میں بھی وہ یہی کہتی تھیں کہ ہر خانگی اور خاندانی مسئلے کا حل عورت کے پاس ہی ہوتا ہے۔
ایک بار میں اور میری ایک دوست ان سے ملنے گئیں۔ اس وقت ہم دونوں شدید قسم کے بحران سے گزر رہی تھیں اور ان سے رہنمائی چاہتی تھیں۔ انہوں نے ہماری پوری بات بھی نہ سنی اور نہ ہی جائز شکایات کو خاطر میں لائیں۔ بالکل ہی حتمی انداز میں ہمیں مشورہ دیتے ہوئے بولیں :
”گھریلو زندگی کا دار و مدار صرف اور صرف عورت پر ہوتا ہے۔ مرد تو گھر میں آیا گیا بندہ ہے۔ تم لوگ اس کی ہر بات کو قبولیت بخشو۔ گھر سے باہر کی ہر دلچسپی چھوڑ دو، بس گھر بیٹھ جاؤ اور لب سی لو۔“
مجھے لگا جیسے بانو آپا کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ہر کسی کی ذاتی زندگی منفرد اور الگ ہوتی ہے۔ ہر گھر کی اپنی ہی ایک کہانی ہوتی ہے۔ ہر گھر پر ایک ہی کلیہ لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
تو میں نے کہا:
”گھر بیٹھ جائیں تو باہر کے کام کون کرے گا؟ بل کون دینے جائے گا؟ سودا کون لائے گا؟ بچوں کو سکول سے پک ڈراپ کون کرے گا؟“
بولیں : ”بس کچھ بھی ہو، عورت کو گھر سے باہر قدم نہیں نکالنا چاہیے۔“
شاید انہیں آج کی مڈل کلاس، پڑھی لکھی، باشعور مگر ذہنی طور پر خود مختار عورت کی مشکلات اور شریک حیات سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے آزار کا کوئی ادراک ہی نہ تھا۔ ان کی طرح میں ایک نوازی ہوئی عورت نہ تھی۔ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی دلچسپی کا کام بھی جاری رکھنا چاہتی تھی مگر یہ ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔
بانو آپا ایک مراعات یافتہ بیوی تھیں۔ خاوند ممد و مددگار، جس سے ان کی وابستگی اور جڑت بے مثال تھی۔ گھر میں باورچی ، ہیلپر، مالی اور دیگر کئی نوکر چاکر تھے جس کی وجہ سے ان کا مسلسل یوں کام کرنا ممکن ہو پایا۔ ذہن زرخیز، مواقع بے شمار اور پذیرائی از حد، سو وہ پھلتی پھولتی چلی گئیں۔ ان کا لکھا ہوا ہر لفظ اردو ادب کی آبرو بنتا چلا گیا مگر ہر عورت کا نصیب ایسا تو نہیں ہوتا۔ مسلسل لکھنے کا جیسا چلن ان کے گھر میں تھا، ہر لکھاری کے ہاں نہیں ہوتا۔ انہوں نے رج کے لکھا اور خوب نام کمایا۔ اتنی ذہین فطین خاتون کو جانے یہ احساس کیوں نہیں تھا کہ غیر موافق ازدواجی حالات کے طوفان گو کہ مرد عورت دونوں کو ہی اپنی جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں مگر زیادہ اذیت عورت کے ہی حصے میں آتی ہے۔
میں ان کے عالمگیر شہرت یافتہ ناول راجہ گدھ کے غیر مدلل اور غیر سائنسی ہونے کو بھی ہرگز نہیں للکاروں گی جس کی وجہ سے کئی نسلوں میں خوش فہمیاں، غلط فہمیاں اور کنفیوژن پیدا ہوئی۔ جس میں کئی کمزور عقائد کی سرپرستی کا سبق دیا گیا۔ اکثر پڑھنے والے روبوٹ کی مانند سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے چلے گئے۔ اندھی بھیڑوں کی طرح تقلید اور بجا آوری میں اتنے دور نکل گئے کہ لوٹنا کٹھن ہو گیا۔ اس بات کا سہرا البتہ ان دونوں فاضل میاں بیوی کو جاتا ہے کہ انہوں نے نوجوان نسل کی ذہن سازی اتنے غیر محسوس اور کامیاب طریقے سے کی کہ آج بھی ان کے پیش کردہ تصورات، فرسودہ خیالات، رجعت پسند نظریات اور نان پروگریسو رویوں کو توڑنے کے لئے، متضاد سوچ رکھنے والوں کو بہت سے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ میں ان کی اس تھیوری کو بھی یہاں تنقید کا نشانہ نہیں بناؤں گی کہ معذور بچوں کی پیدائش ان کے والدین کے کالے کرتوتوں اور غلط کاریوں کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ اب تو بہت سے ماہرین جینیات ان کے حرام حلال کی تھیوری کو بھی بے بنیاد کہہ کر رد کر چکے ہیں۔ ویسے گدھ بیچارہ تو ماحول صاف کر کے قدرت کا توازن اور تناسب برقرار رکھتا ہے، آپا نے اسے منفی انداز میں پیش کیا تو میں ان سے اتفاق نہ کر سکی۔
مگر ایک بات ایسی ہے جو میرے دل میں کانٹے کی طرح برسوں سے کھٹکتی رہی ہے۔ سوچا اس کانٹے کو نکال ہی دوں اس سے قبل کہ میرا بلاوا بھی آ جائے اور ان کہی ہمیشہ کے لئے میرے اندر ہی دفن ہو جائے۔
بانو آپا نے اپنے اور اشفاق صاحب کی زندگی میں آنے والے اشخاص کے حوالے سے اپنی یادداشتیں قلم بند کیں تو انہیں ”راہ رواں“ کے نام سے اپنی کتاب میں شامل کیا۔ اس توانا، باوقار اور مستند ادیبہ کی اس کتاب کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا مگر جب مندرجات سامنے آئے تو انکشاف ہوا کہ اس میں احمد بشیر کی فیملی کے بارے میں انتہائی بے سر و پا باتیں لکھی ہیں، وہ باتیں جن سے ہماری فیملی کی عزت اور ساکھ کو ٹھیس پہنچی تھی۔
جب یہ کتاب شائع ہوئی، تو ابا اور اشفاق صاحب دونوں ہی پر لوک سدھار چکے تھے۔ اگر ابا زندہ ہوتے تو یقیناً بہت فساد پڑتا، شکر ہے وہ جا چکے تھے اور اب یہ پدی رہ گئی ہے چوں چوں کر کے شور مچانے کو۔ اس یاد نگاری میں ہماری فیملی کے بارے میں کافی غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ اوپر اوپر سے اتنے پیار محبت سے ملنے والوں کے دل میں کیسی کیسی باتیں چھپی ہوتی ہیں۔
جو پہلا الزام لگایا گیا، سراسر جھوٹا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ابا نے ”نیلا پربت“ فلم بنانے کے لئے شہاب صاحب سے چار لاکھ روپے قرض لئے تھے جو وہ نہ لوٹا سکے۔ تو پیارے لوگو! یہ بات بالکل ہی غلط ہے۔ ابا نے قرض لیا ضرور تھا مگر اپنے ابا اور بہن سے، اور کسی سے کچھ نہیں لیا تھا کیونکہ ایسے وقت میں فیملی ہی کام آئی تھی۔
دوسرا الزام صرف جھوٹا ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی تھا۔ لکھا تھا کہ احمد بشیر ہماری الیکٹرانک میڈیا کی شہرت سے جلتے تھے، اس لئے انہوں نے اپنی بیٹیوں کو آگے کر دیا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ احمد بشیر فکشن یا ڈرامے کے آدمی ہی نہیں تھے، یہ ان کا میدان تھا ہی نہیں، وہ تو ایک دبنگ صحافی تھے ضیاء الحق کے ”نظام مصطفیٰ“ کے نعرے کے کٹر مخالف، منافقت کی روزی پر لات مارنے والے، نڈر اور بے خوف آدمی۔ ویسے اس بات پر ہنسی آتی ہے کہ آج بھی اس طرح کا خواب ریاست مدینہ کے نام سے بیچا جاتا ہے اور خریدار بھی نکل آتے ہیں۔
ابا کو بانو آپا اور اشفاق صاحب کی طرح مراعات بھلا کیوں ملتیں؟ چاپلوس صحافیوں کی طرح وہ پلاٹ، روپیہ، نوازشات کے حقدار کیوں ٹھہرتے؟ نہ تو وہ ضیاء کے لاڈلے تھے اور نہ فوج کے خوشامدی۔ وہ تو آتش نمرود میں بے خوف و خطر کود جانے والے ایک دیوانے تھے۔ ان کی ٹھوکر سے حکومتی، صحافتی ادارے دو نیم ہو جاتے اور موقع پرست، رجعت پسند ان کی ہیبت سے رائی بن جاتے۔ ان کو الیکٹرانک میڈیا کی شہرت کی کوئی طلب یا بھوک نہیں تھی، اگر وہ لالچی اور موقع پرست ہوتے تو بہت سے ادیبوں اور صحافیوں کی طرح عہدہ داروں کے آگے گھگیاتے، منمناتے اور ایلیٹ کلاس لکھاری بن کر خاطر خواہ اجر کماتے۔ انہوں نے فقر اور درویشی کی روش اختیار کی اور تاحیات اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہیں نوجوانی میں ریڈیو پر نوکری کے دوران احمد فراز، مفتی، زیڈ اے بخاری جیسے قابل لوگوں کے ساتھ سکرپٹ نویسی کا موقع ملا تھا، وہ ڈاکیومنٹری فلمیں بھی بنا چکے تھے مگر ان کے نزدیک میڈیا کی شہرت عارضی اور غیر مطلوب تھی، انہیں اس کی کوئی للک نہیں تھی۔
اور پھر بھلا وہ اپنی بیٹیوں کو کیسے آگے کر سکتے تھے؟ بشریٰ انصاری اپنے شوہر کے ساتھ تھیں، انہوں نے مل کر اپنا شوبز کیریئر بنایا، دوسری بیٹیاں تو ابا کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ہی ٹیلی ویژن آرٹسٹ بنیں۔ ان کے اپنے خانگی حالات نے جب انہیں موقع دیا تب وہ آگے آئیں۔ باقی رہ گئی میں، تو میں کون سی کوئی میڈیا سٹار ہوں کہ کسی کو نظر آؤں یا میرا کوئی نوٹس لے؟ میں ٹھہری ادبی دنیا کی باسی، مجھے کس نے آگے کرنا تھا؟
سچ بات تو یہ ہے کہ ابا اپنی زندگی میں مست الست اور من موجی قسم کے آدمی تھے۔ انہوں نے کبھی اپنی کسی بیٹی یا اکلوتے بیٹے تک کو نہیں کہا کہ تم ایسا کرنا اور ایسا نہ کرنا۔ میری شادی ہوئی تو میں امریکا روانہ ہو گئی۔ ایئرپورٹ پر ابا میرے کان میں فرماتے ہیں :
”بہادر لڑکی بن کر جینا اور یہ کبھی نہ بھولنا کہ تم ایک پاکستانی ہو۔“
نہ جنازے کی شکل میں واپس آنے کی تلقین نہ سرنگوں ہو کر جینے کی نصیحت نہ ایسی کوئی اور بات۔ لو جی کیا ہمارے ہاں کوئی باپ اپنی بیٹی کو پردیس رخصت کرتے وقت کیا ایسا بھی کہتا ہے؟ جہاں تک میرا کچھ ماڑی موٹی کہانیاں لکھنے کا تعلق ہے تو وہ سب کچھ خود بخود ہی ہوتا چلا گیا۔ نہ انہوں نے کبھی مجھے نہ اپنی بہن پروین کو پوچھا کہ آخر تم دونوں کیا کرتی پھرتی ہو؟ کیا لکھتی ہو؟ کیا پڑھتی ہو؟ کبھی نہیں پوچھا۔ البتہ ممتاز مفتی نے ہم دونوں کی حوصلہ افزائی ضرور کی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم میں ابا کے سامنے جانے کا اعتماد ہی نہیں تھا۔ ان کے آگے ہماری بساط ہی کیا تھی؟ وہ ٹھہرے اتنے اعلیٰ پائے کے لکھنے والے تو ہم جیسی بھلا چھوٹی موٹی لکھنے والیاں ان کے آگے کیا حیثیت رکھتی تھیں؟ ابا کی بہن اور بیٹیوں نے اپنے اپنے محاذوں پر زندگی کی لڑائیاں خود لڑیں۔ اپنے ماتھے پر ہمت کی پٹی باندھ، کمر پر جرات کا دوپٹہ کس، اظہار کے میدان میں کود پڑیں کہ ان میں خداداد صلاحیتیں موجود تھیں۔ ممتاز مفتی کہا کرتے تھے :
”احمد بشیر کے جینز کا جوار بھاٹا ان کو چین سے نہیں جینے دے گا۔ یہ اپنے اپنے اظہار کی راہ ڈھونڈ نکالیں گی۔“
ان کی بات واقعی سچ ثابت ہوئی۔ ویسے یہ ایک بڑی خوبصورت حقیقت ہے کہ آج ہم میں سے کوئی بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اور کوئی ہمارے ساتھ احمد بشیر کا لا حقہ لگا دے تو دل فخر سے بھر جاتا ہے۔
بانو آپا کو کبھی ادب کی مدر ٹریسا سے کم نہیں سمجھا گیا۔ ایک زمانہ ان کے مرتبے، ذہانت، متانت، قابلیت کا معترف ہے۔ ان کی تحریروں نے کئی نسلوں کی ادبی تربیت کی۔ تو پھر بھلا ان کے قلم سے ایسی غیر ذمہ دارانہ تحریر کیسے پھوٹ پڑی؟ ہم لوگ تو حیران ہو کر رہ گئے۔ پیاری آپا کا پیارا تصور کچھ ایسا ہی ہے جیسے وہ ایک برگزیدہ صوفی منش خاتون ہوں، جسے دنیا کی کوئی لوبھ نہیں ہوتی۔ انہیں ججمینٹل ہونے سے کوئی سروکار نہیں، ایک پیار کا سمندر ان کے اندر ہے مگر پھر سنا ہے کہ کبھی کبھی سمندر بھی سلگ اٹھتے ہیں۔ شاید ہم سب کے اندر ایک کالا سیاہ گدھ چھپا رہتا ہے جو موقع ملنے پر ٹھونگا مارنے سے باز نہیں آتا۔ شاعر کہتا ہے ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی۔ تو کوئی ننھا سا کمینہ سا آدمی ایک پیاری سی ہستی میں بھی کہیں نہ کہیں تو سانس لیتا ہوگا اور یہ قصور اسی کا رہا ہو گا کہ جو کچھ انہوں نے لکھا آج ادبی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ میں یہ سب اس لئے لکھ رہی ہوں تاکہ تاریخ اپنا ریکارڈ درست کر لے، کوئی کسی کو غلط انداز سے یاد نہ رکھے۔
ابا جیسے سچ کی راہ کے مسافر، بے لوث، بے غرض، بے حرص صحافی پر لگی تہمت کسی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی تھی اور ان کی اولاد کے لئے تو یہ بالکل بھی قابل قبول نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے آپا جی کو ابا پر کوئی غصہ رہا ہو یا ان سے کوئی شکایت ہو۔ ابا بھی تو ایک منہ پھٹ، سچے کھرے اور مکمل طور پہ مصلحت سے عاری شخص تھے۔
ایک بار کسی صحافی نے ابا سے اشفاق صاحب کے بارے میں رائے پوچھی تو فٹ سے کہہ دیا:
”اشفاق سگ دنیا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر چراغاں ہو، قوالیاں گونجیں، عرس منایا جائے۔“
مجھے یاد ہے یہ سن کر اشفاق صاحب اور آپا کافی بد مزہ ہوئے تھے۔ ویسے بانو آپا تو سچ مچ اپنے شوہر کو کسی پیر کا درجہ دیتی تھیں۔ ان کی کتاب مرد ابریشم کا مطالعہ کر لیجیے جس میں انہوں نے اپنے پتی دیو کو حضرت شہاب صاحب کے ہم پلہ پیر بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔ ایک پتی بھگت عورت سے یقیناً یہی توقع کی جا سکتی ہے۔ ایسی ناریاں پتی کے پریم میں ستی ہو جانے کو بھی اپنا سو بھا گیا سمجھتی ہیں۔ شاید ان کو اندر ہی اندر احمد بشیر کے اکھڑ پن اور میں نہ مانوں والے مزاج سے کوئی خار رہتی ہو۔
بانو آپا جانتی تھیں کہ احمد بشیر کی آزاد روح کو عقائد کے پنجرے میں قید کرنا ممکن نہ تھا۔ جب ان کی کتاب ”راہ رواں“ سامنے آئی تو ابا کی پیاری بیٹی بشریٰ نے تڑپ کے عکسی مفتی کو فون کیا اور سارا ماجرا کہہ ڈالا۔ عکسی جو آپا کو ماں سمجھتے تھے، یہ سب سن کر سٹپٹا گئے۔ جواب تو ان کے پاس بھی کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے آپا کو فون کر کے پوچھ گچھ کی، بانو آپا شاید اس کی توقع نہ رکھتی تھیں مگر اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
ان کے پاس ایک ہی جواب تھا:
”میرے ہاتھ جڑے ہوئے ہیں مجھے معاف کر دو، میری یاد داشت خراب ہے، میں بھول گئی تھی۔“
بشریٰ نے کہا: ”آنٹی جی آپ ہمیں ہی بھول جاتیں، ہماری اور ہمارے باپ کی یوں مٹی تو پلید نہ کرتیں۔“
”اب تم لوگ کیا چاہتے ہو؟“ آپا نے پوچھا
”ہم ان الزامات کی تردید چاہتے ہیں، وہ صفحات بھی کتاب سے نکلوائیں اور معذرت نامہ بھی لکھ کر دیں۔“
بشریٰ نے مطالبہ کرتے ہوئے جواب دیا۔ آپا مان گئیں اور کہا: ”نیلم کو میرے پاس بھیجو۔“
اگلے روز میں اپنی ایک کزن کے ہمراہ ”داستان سرائے“ جا پہنچی اور کتاب کے مندرجات کی فوٹو کاپی ان کے ہاتھ میں تھما دی، میں نے پرس سے کاغذ قلم نکالا اور کہا یہ لیجیے، انہوں نے عنوان دیا ”معذرت نامہ“ اور پھر لکھنا شروع کر دیا۔ تحریر کچھ یوں تھی:
”میں نے اپنی کتاب راہ رواں میں کئی باتیں غلط لکھی ہیں جو میری یادداشت کی بھول ہے۔ مثلاً میں نے تحریر کیا کہ احمد بشیر کو شہاب صاحب نے چار لاکھ روپے امداد دیے، یہ غلط ہے اور اس کی وجہ میری خراب یادداشت ہے۔
انشا اللہ اگلے ایڈیشن میں یہ ذکر نکال دوں گی۔ قارئین اور احمد بشیر کے خاندان سے خصوصی طور پر معافی کی طلبگار ہوں۔ اللہ نے چاہا تو آئندہ محتاط رہوں گی۔ ”بانو قدسیہ 2010 / 10 / 01
گو کہ اس میں انہوں نے لکھی گئی سب باتوں کا احاطہ نہیں کیا تھا مگر پھر بھی میں نے خاموشی سے وہ معذرت نامہ لے لیا۔ اب ان کو اور کیا کہتی؟ میں شرمندگی محسوس کر رہی تھی کہ آج اتنی بڑی ہستی میرے سامنے جواب دہ ہو رہی ہے مگر یہ ضروری تھا، سچ کو سامنے آنا ہی چاہیے تھا۔ وہ معذرت نامہ اتنے برس گزر جانے کے بعد آج بھی میرے پاس موجود ہے۔
”اب تم جاؤ۔“ بانو آپا نے مجھے کہا اور میں الٹے قدموں لوٹ آئی۔
چند روز بعد میں نے منو بھائی سے تمام ماجرا کہہ سنایا اور عرض کی کہ اس موضوع پر ایک کالم لکھ دیں تو اچھا ہوگا۔ انہوں نے کہا : ”رہنے دو، اس سے تو کتاب کی مزید پبلسٹی ہو گی۔“ یہ سن کر میں خاموش ہو گئی۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ راہ رواں میں بانو آپا نے پروین عاطف کے بارے میں لکھا کہ اپنے شوہر کی دوسری شادی سے دل برداشتہ ہو کر انہوں نے خود کشی کی کوشش کی تو وہ اور مفتی جی ان کو دیکھنے ہسپتال گئے تھے۔
جب میں نے پروین سے اس کی بابت پوچھا تو وہ تو دنگ رہ گئیں اور بڑی معصومیت سے کہا: ”ایسا تو کچھ نہیں ہوا۔“ حقیقت میں پروین بھی کچھ کم پریم اور پریتم پجارن نہیں تھیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک مضبوط، زیرک اور با ہمت احمد بشیرن بھی تھیں۔ وہ بھلا کیوں کسی سولہ سالہ نادان ناری کی طرح بے وفا محبوب کی محبت میں ایسا بے وقوفانہ قدم اٹھاتیں؟
نہ جانے بانو جی نے ایسا کیسے سوچ لیا تھا؟ ہم عورتیں زندگی کی کٹھنائیوں سے نبردآزما ہونے کا ہنر جانتی ہیں کہ زندگی کو جی کر بسر کرنا ہی عورت کا جوہر ہوتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے خاندان میں کبھی ایسی کوئی عورت نہیں ہوئی جو منہ کے بل جا گری ہو اور پھر اٹھ نہ سکی ہو۔
وہ داستان سرائے میں میری آخری حاضری تھی۔ اس کے بعد میں نے کبھی بھی اس خوبصورت، افسانوی اور یادوں کی خوشبو سے مہکتے گھر میں قدم نہیں رکھا۔ حالانکہ مفتی جی اپنی وفات سے پہلے ہمیں کہہ کر گئے تھے :
”میرے بعد بانو کے پاس چلے جایا کرنا، وہ میری ماں ہے، وہ مج ہے اہنوں چو لو (وہ بھینس ہے اسے دوہ لو) ۔“
مگر مفتی جی کے جانے کے بعد بانو آپا کے گھر جا دھمکنے والا ماحول کافی کم ہو گیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملنے پر عجز کے وفور سے مالامال ان سینئر ادیبہ کی عقیدت اور محبت آج بھی ان کے مداحوں کے دلوں کے جزدان میں مہکتی ہے۔ کوئی انسان مکمل طور پر سیاہ یا سفید نہیں ہوتا اس میں سرمئی رنگ کی بھی جھلک ہوتی ہے اور یہ سب اسی سرمئی شیڈ کی کارستانی رہی ہو گی۔
نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں