• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا پاکستان کی سیاست کا راسپوٹین بھٹو تھا؟-تحریر/عامر کاکازئی

کیا پاکستان کی سیاست کا راسپوٹین بھٹو تھا؟-تحریر/عامر کاکازئی

ایک سوال جس کی تلاش میں ہم کافی عرصے سے سرگرداں ہیں کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک کریکٹر “بھٹو” آخر کون تھا؟ کیا وہ اس ملک کی بربادی کا ذمہ دار ہے۔ آئیۓ اس سوال کو کھوجتے ہیں۔

محترمہ ثمینہ صدیقی اپنی ایک تحریر میں لکھتی ہیں کہ پاکستانی افواج دلیری سے لڑ رہی تھیں۔ دو سے تین روز میں کلکتہ اور دِلی کا لال قلعہ فتح ہو جاتا مگر اچانک بھٹو، اپنے سفلی عمل کے ذریعے ہزاروں میل دور سے چِلایا بلکہ گرجا “اِدھر تم اُدھر ہم” بھٹو کی آواز کی گرج اور کڑک سے 90 ہزار فوجیوں کا پِتہ پھٹ گیا، دل بیٹھ گیا اور وہ بے چارے مسمرائز ہو کر ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو گئے۔ حرامی اور مکار انڈیا نے بھٹو ہی کے کہنے پر ان کے ہتھیار جمع کر لیے تھے۔اس لیے وہ نہ لڑ سکے۔ اگر بھٹو عین وقت پر نہ بولتا تو پاکستانی افواج پورے بھارت پر پاکستان کا جھنڈا لہرا دیتیں ۔ بھٹو بہت ظالم تھا اس نے پاکستانی افواج کو شکست دلوا کر ملک توڑ دیا ۔

پاکستان کی بربادی کی داستان اس وقت شروع ہوتی ہے جب پینتیس سالہ نوجوان بھٹو نے صرف اپنی وزارت کے لالچ میں جنرل ایوب کو ڈیڈی ڈیڈی کہہ کہہ کر اپنے جال میں پھنسایا اور چِکنی چُپڑی باتیں کر کے ایک ایماندار اور بہادر فوجی کو اُکسا کر، پاکستان پر قبضہ کروا کر پہلا مارشل لا ء لگوا دیا تھا۔ جب جنرل ایوب کی سربراہی میں ملک ترقی کرنے لگا تو پینسٹھ میں فیلڈ مارشل اور پوری فوج کو تگنی کا ناچ نچوا کر جنگ کروا دی اور ملک کو پیچھے دھکیل دیا۔ پھر جنرل ایوب کو مجبور کیا کہ اپنے تین دریا مفت میں ہندوستان کو دے دے۔

جب جنرل ایوب بیمار ہو کر کمزور پڑا تو یہ بھٹو ہی تھا جو چھوٹے چھوٹے بچوں کو پیسے دے کر ایوان صدر کے باہر کھڑا کروا کر فیلڈ مارشل جنرل ایوب کے خلاف گندے گندے نعرے لگواتا تھا۔ جس کے نتیجے میں ایوب خان ذہنی مرض میں مبتلا ہو گیا۔ یہ بھٹو ہی تھا جس نے بندوق کے زور پر ایک اور معصوم اور نیک روح والے جنرل یحییٰ کو ملک کا مُکھیا بنوا کر دوسرا مارشل لاء  لگوا دیا۔

فوجی حکمران بھٹو سے لرزتے اور ڈرتے تھے جو اس وقت تک کسی سرکاری عہدہ پر نہیں تھا، ایک چپڑاسی تک کی پوسٹنگ نہیں کروا سکتا تھا مگر اتنا پاورفل تھا کہ مشرقی بنگال والا فوجی آپریشن اپنی مرضی سے شروع کروا دیا کہ ملک ٹوٹ جاۓ۔ بھٹو اگر ہتھیار ڈالنے کا حکم نہ دیتا تو فوجی مر جاتے مگر ہتھیار نہ ڈالتے۔ ہم جنرل یحییٰ پر الزام لگاتے ہیں مگر اصل سازش بھٹو نے کی، بھٹو نے مغربی پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کروا کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش قرار دے دیا تھا۔

ہم جنرل یحییٰ پر عیاشی اور ملک توڑنے کا الزام لگاتے ہیں مگر یہ بھٹو اتنا بڑا شیطان تھا کہ اس نے جنرل رانی، ترانہ بیگم اور نور جہاں کو ایک سازش کے تحت بھیج کر معصوم سے فوجی جنرل جس کی نیک نامی کی گواہی فرشتے بھی دیتے تھے، کو شراب و شباب کے نشے میں گُم کروا دیا اور بے چارہ معصوم جنرل، سفلی عمل کے ہاتھوں ان عورتوں کے پیچھے پاگل ہو کر یہ گانا گاتا رہا کہ

میں تیرے پیار میں پاگل، ایسے گھومتا ہوں
جیسے میں کوئی پیاسا بادل، برکھا کو ڈھونڈتا ہوں۔
برکھا کو تلاش کرتے کرتے وہ مدہوش ہو کر ایوان صدر میں دیدہ دھویا ہو گیا اور پیچھے بھٹو  سازش کر کے De Facto حکمران بن گیا اور یہ نعرہ بلند کیا کہ جو ڈھاکہ گیا اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے اور تمام سیاسی پارٹیز کے ممبرز، فوجی اور بیوروکریٹس ڈر کر، دبک کر بیٹھ گئے اور ملک ٹوٹ گیا۔

جب بھٹو نے سازش کر کے جنرل نیازی کو ڈھاکہ آپریشن پر بھیجا تو بجاۓ اُن کے منورجن کے لیے سامان مغربی پاکستان سے جاتا، مگر بھٹو نے ان بھولے بھالے مجاہدوں کو ورغلایا کہ بنگال کا حسن مشہور ہے تو اپنے منورجن کا بندوبست ادھر ہی سے کر لینا۔ ان کے منورجن کےلیے اس نے بنگالی لڑکیوں کا ایک حرم بھی بنوا کر دیا۔ افسوس کہ ہم وہ بدبخت قوم ہیں کہ اس شیطان کو کوسنے کی بجاۓ، اپنے معصوم مجاہدوں پر الزام دھرتے ہیں۔

بہت ظالم انسان تھا۔۔ کمبخت!

اس بات سے اندازہ لگایئے کہ بھٹو کتنا پاور فل اور شیطان تھا کہ پوری فوج کو کھڈے لائین لگا دیا اور بے چاری فوج اس کے پیچھے پیچھے پائیڈ پائپر کے چوہوں کی طرح چلنے پر مجبور ہو گئی۔

اکہتر میں اپنے اقتدار کے لالچ میں بھٹو نے ملک دو ٹکڑے کروا دیا مگر فوج بے چاری کچھ نہ کر سکی۔ بلکہ بھٹو کے کہنے پر ہتھیار تک ڈال دِیئے۔ بھٹو کے ہی کہنے پر لاکھوں بنگالیوں کو مارا اور ان کی عورتوں کا ریپ بھٹو نے اپنے سفلی عمل سے کروایا اور بدنام ہمارے مجاہد ہو گئے۔ یہ بھٹو ہی تھا جس نے سازش کر کے معصوم جماعتیوں کو بہلا پُھسلا کر ان سے البدر اور الشمس نامی دہشتگرد لشکر بنواۓ اور آج تک بدنام جماعت اسلامی ہے۔

ملک توڑنے کے بعد جب زبردستی ملک پر قابض ہوا تو سب کو یہ لاڑے لپے دِیئے کہ شکر کرو کہ “پاکستان بچ گیا”۔

یہ ملک کبھی نہ ٹوٹتا اگر نیک دل جنرل یحییٰ بھٹو کی چکنی چپڑی باتوں میں  آکر مجیب کو گرفتار نہ  کرواتا اور اس پر غداری کا مقدمہ نہ چلواتا۔
کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں
میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں

آپ بھٹو کی دہشت اور شیطانیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جنوری 72 میں وہ پاکستان سے ہزاروں میل دور بیٹھا تھا مگر اس نے فوج کو اپنے سفلی عمل اور ٹیلی پیٹھی کے علم کے ذریعے مجبور کیا کہ اسے صدر بنا دیا جاۓ۔

یہ کمبخت بھٹو تو پاکستان کا خدا تھا کہ سب کچھ ملیامیٹ کر دیا مگر بے چاری مجاہد فوج کچھ نہ کر سکی۔

جب اقتدار ملا تو رشیا سے لڑنے کے لیے بھی کود پڑا۔ بےچارے ضیا کو ہم ایسے ہی بدنام کرتے ہیں جبکہ رشین فساد میں بھٹو ضیا کے آنے سے پہلے ہی کود چکا تھا۔ حتی کہ فوج کے ہاتھوں پھانسی چڑھ گیا مگر اس کی دہشت اتنی تھی کہ فوج اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے پلان کو نہ  چھوڑ سکی اور رشیا / امریکہ جنگ شروع کروا کر چھوڑی۔

ابھی بھی گو کہ فوج نے اسے پھا لگوا دیا  ہے مگر بھٹو کی روح سے تھرتھر کانپتی ہے۔ بھٹو اصل میں یہود و نصار اور ہندوؤں کا ایجنٹ تھا جس کی اصلیت کا پتہ مرنے کے بعد چلا کہ جب جنرل ضیا نے اس کی سنتیں چیک کیں۔

عمران کو لانے کااصل پلان بھٹو کی روح نے بنایا تھا کہ پاکستان برباد ہو، ہم بے چارے جنرل باجوہ پر ایسے ہی الزام لگاتے ہیں۔ لیکن جب ملک برباد ہونے کی بجاۓ، عمران کی سربراہی میں ملک دوڑنے لگا تو اس کی روح بے چین ہو گئی اور جنرل باجوہ کے خوابوں میں آکر اسے کالی دیوی کے ذریعے ڈرا ڈرا کر عمران جیسے ہیرے کی حکومت تڑوا ڈالی۔ ورنہ ہم آج ایشین ٹائیگر ہوتے۔ بلغ سے لے کر دہلی تک پر ہمارا جھنڈا لہرا رہا ہوتا۔ امریکی ہمارے  ملک میں آ آکر نوکریاں کر رہے ہوتے۔

تحریر کے آخر میں ایک اہم بات بتائیں کہ جس دجال کا تاریخ میں ذکر ہے، وہ اصل میں بھٹو تھا۔ نیک اور رحمدل جنرل ضیا سمجھ گیا تھا مگر دجال اتنا پاور فل شیطان ہے کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی روح اس ملک پر آسیب کی طرح منڈلاتی رہتی ہے۔ پاکستانی مایوس ہو کر اس شعر کی صورت بن گئے کہ
پہلے دل کو آس دلا کر بے پروا ہ ہو جاتا تھا
اب تو عزمؔ بکھر جاتا ہوں میں خود کو بہلانے میں

لیکن عالم اسلام کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ زمان پارک لاہور میں اسلامک ریپبلک عمرانستان کے خلیفہ، ریاست مدینہ کے حقیقی وارث اعلیٰ حضرت امام حاضر ، اہل سنت، ولی نعمت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمع رسالت، مجدد دین و ملت، حامی سنت، ماحی بدعت، عالم شریعت، پیر طریقت، باعث خیروبرکت، حضرت علامہ مولانا الحاج الحافظ عمران خان نیازی علیہ رحمۃ الرحمن کی سربراہی میں اس دجال سے لڑنے کے لیے دستے  صَفِیں آرا ءہو چکے ہیں۔ اس بھٹو نامی دجال سے اب آخری جنگ لڑنے کا وقت آ گیا ہے۔

ہم سب پاکستانیوں کو چایئے کہ دجال بھٹو سے آخری لڑائی لڑنے کے لیے بقول امیر خسرو، اپنے امام کے ساتھ اس طرح ہو جائیں کہ
’من تو شُدم ، تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی، تاکس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری”

آخر میں باجماعت دعا کیجیۓ کہ بقول مرشد ڈن ہل والی سرکار کے مجہول القوم الجاہلیہ للعقل و المحدود (لمیٹڈ ایڈیشن) کے امام کی ولایت میں مسلمانوں کو فتح مبین نصیب ہو گی۔  آمین۔

بھٹو اسلامی اور پاکستانی تاریخ کا بہت ہی خطرناک کریکٹر ہے۔ اگر ہم بھٹو کو پاکستانی راسپوٹین کا خطاب دیں تو غلط نہ ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم محترمہ ثمینہ صدیقی اور جناب شرافت رانا کے شکرگزار ہیں کہ ان کی پوسٹ کی بدولت یہ تحریر لکھنے کی تحریک ملی۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply