ٹیکنالوجی کے نو دولتیے اور یہ قیمتی نوادرات۔۔ضیغم قدیر

میرے ذاتی خیال کے مطابق ہر وہ شخص جس نے ٹیکنالوجی کا ڈوس اور کھڑکی نمبر ستانوے اٹھانوے کا دور نہیں دیکھا تو وہ ٹیکنالوجی کے خاندنی امرا میں نہیں آتا۔ کھڑکی بولے تو بل گیٹس کی ونڈوز۔ یہ دور میری پیدائش سے بھی پہلے کا دور تھا۔ جس میں کلرڈ سکرین کو آج کے نو دولتیے رنگوں والا ٹی وی کہا کرتے تھے۔ تو کارٹونز کو کانٹوس اور بڈاوے کہہ کر بلایا کرتے تھے۔

یہ دور کافی عجیب تھا۔ خاص کر ہمارے جنوبی ایشا کے لوگوں کے بیک گراؤنڈ کے حوالے سے بات کریں تو۔ ہمارے ایک ڈاکٹر صاحب انکل جو کہ جٹ ہیں وہ ایک دن اپنے پرانے دور کے قصے لے کر بیٹھ گئے۔ کہنے لگے۔۔

“70 اور 80 کی دہائی سے پہلے تک تو ہمارے بہت سے خاندانوں کو سالن تک کی شناسائی نہیں تھی۔ سادے زمانے ہوا کرتے تھے۔ جو کی روٹی اور گڑ زیادہ تر ان  کی خوراک تھی۔ دودھ تو خیر شروع تاریخ سے انسانی تہذیب کا حصہ رہا ہے۔ لیکن بات کریں گوشت کی، تو اس سبزی خور معاشرے میں گوشت کھانا ایک آسائش ہوا کرتا تھا۔ اور ہم صرف عید کے عید یا شادیوں پہ ہی گوشت کھایا کرتے تھے۔”

پھر بتانے لگے ” سادے زمانے تھے۔ پیسوں سے زیادہ رشتوں کی پرواہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن کیا دیکھتا ہوں میری ماں جی اور خالائیں گلے لگ کر رو رہی ہیں۔ میں پریشان ہو گیا کہ شاید کوئی فوتیدگی ہوگئی ہے۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ بہنیں آپس میں پانچ چھ ماہ بعد ملی ہیں اور یہ بین لگا کر رونا ان کی خوشی کا اظہار تھا۔”

چاولوں کی پِچ کھانا اسکا حلوہ بنانا یہ ان لوگوں کی مرغوب غذا تھی۔ حتی کہ میواتی لوگ ثابت مونجی پکایا کرتے تھے۔ اب تو زمانہ بدل گیا ہے ہر طرف پیسہ ہے۔ تب پیسہ والوں کی قدر تھی تو میرے خیال میں آج ہمیں اپنے ان اعزاء کی قدر کرنی چاہیے جو ہمارا احساس کرتے ہیں کیونکہ اب پیسہ تو ہے مگر احساس نہیں۔

بات ٹیکنالوجی کے امیر زادوں سے کہیں اور نکل رہی ہے۔ آج جو کلف لگا جوڑا پہنے ویگو میں بیٹھے خود کو چودھری کہلواتے نہیں تھکتے ان سب کا بیک گراؤنڈ بھی یہی تھا۔ بغیر سالن کے روٹی اور عید کے عید گوشت۔ بات کریں جوڑوں کی تو ابھی تک بھی مطلب ایک دہائی  سال پہلے تک بھی میں نے یہ دیکھا ہے کہ بہت سے بچوں کو نیا جوڑا عید کے عید ملتا تھا۔ چین کا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے جو سستی گارمنٹس ملیں ورنہ عید کے عید نیا جوڑا پہننے والے چودھریوں کی اونچی پگڑیوں کے شملے کسی شادی کی بارات پہ ہی نیچے ہوجاتے جب وہ دو عیدیں پرانا جوڑا پہنے کیچڑ والی گلیوں میں سے اپنی نئی ویگو یا کرولا کی بجائے پیدل گزر رہا ہوتا۔

یہ بات سننے سے سر شرم سے جھکانے کی ضرورت نہیں یہ ہمارا ماضی تھا ماضی کو دیکھ کر شرمانا نہیں سر فخر سے بلند کرنا چاہیے۔ بات کپڑوں کی ہو رہی تھی۔ تو جناب امیر گھرانے وہ سمجھے جاتے تھے جن کے بچے شادی پہ نیا جوڑا پہن کر جاتے تھے اور عموماً  ایسا صرف دولہے کے گھر والے یا گاؤں کے وڈے چودھری صاحب کی آل اولاد ہی کر پاتی تھی۔

پھر ہمارے یہاں علم و شعور آنا شروع ہوگیا۔ چودھریوں کے منڈے کلرک اور فوج میں سپاہی بھرتی ہونے شروع ہوگئے۔ کچھ کے سیکنڈ لفٹین لگ گئے ایک آدھ سی ایس پی افسر لگ گیا اور پیسہ آنا شروع ہوگیا۔ کرپشن کا یا ایمانداری کا یہ انکا دین ایمان ہے۔ بات کی ضرورت نہیں۔

لیکن پیچھے بچ گئے ہمارے چِٹے ان پڑھ رشتے دار، ان کو نا سرکار رکھتی تھی نا فوج۔ سارا دن کھوتوں کی طرح مزدوریاں کرتے اور بمشکل شام کی روٹی کھا پاتے تھے۔ پھر ڈونکی ایجاد ہوئی، یہ یہاں کھوتا بن کر ذلیل ہونے کی بجائے ڈونکیا لگا کر الیگل ملک سے نکلنا شروع ہوگئے ۔ اپنے گجرات ، جہلم اور منڈی بہاؤالدین کی پٹی والے سارے اٹلی اور فرانس کی ڈونکیا لگا گئے اور آج بڑے بڑے داروں اور حویلیوں کے مالک بن گئے۔ اور سیالکوٹ ڈسکہ والے دوبئی اور سعودیہ کی راہ نکل لئے۔ گو ان کو پیسہ یورپ والوں کی طرح کھلا ڈُلا نہیں ملا مگر یہ بھی کوٹھیوں کے مالک ہوگئے۔

پھر بچ جاتا ہے لہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ تو اس پٹی میں انڈسٹریز اور زراعت آ گئی۔ باسمتی چاولوں اور گندم کی ایکسپورٹ نے پیسے کی ریل پیل کر دی۔

آج اپنے تمام علاقوں کا ماضی سٹور روم سے نکلی ان چیزوں نے یاد کروا دیا ہے کہ ٹیکنالوجی کے نودولتیے وہ ہیں جن کو ان کے نام نہیں آتے اور دوسرے نودولتیے وہ ہیں جو یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ان کے گاؤں کے وڈے بابے کسی زمانے میں سالن سے نا آشنا اور عید کے عید گوشت کھایا کرتے تھے۔ شادی بیاہ پہ سکول شوز لینے والی بات تو یاد ہی نہیں کروائی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جو بھی ہے ماضی کو یاد رکھنا اچھے مستقبل کی نشاندہی ہے۔ تغیر کا نام ہی تہذیب ہے۔ ہر فیملی پہ سدا حالات ایک جیسے نہیں رہے۔ ہر نئی جنریشن پرانے والے سے خوشحال ہی رہی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply