مجھے معلوم ہے کہ میں آپ اور بہت سے دوسرے لوگ یکم مئی کے روز ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر سمارٹ فون اور ٹیب ہاتھ میں پکڑے یوم مزدور کی پوسٹس دھڑا دھڑ شئیر کر رہے ہوں گے۔اپنےدوستوں کی پوسٹس پر کمنٹس دے رہے ہوں گے۔لائیک کر رہے ہوں۔۔کہیں دل ری ایکشنز اور کہیں آنسو ری ایکشنز دے رہے ہوں گے۔ گھروں میں کام کرنے والی ملازمائیں اور ملازمین چھٹی کے دن ہمارے فرمائشی پروگرام “کچھ منفرد” کے لیئے ہماری خدمات سر انجام دے رہے ہوں گے ۔
ہمارے مشہور و معروف لوگ ٹھنڈے ہال میں مائیک کے سامنے تھری پیس سوٹ پہنے یا شلوار قمیض ویسٹ کوٹ زیب تن کیئے زور و شور سے مزدور کے حقوق کی بات کر رہے ہوں گے۔جبکہ ان کا اپنا اصل مزدور ڈرائیور باہر دھوپ گرمی میں صاحب کے باہر انے کے انتظار میں بیٹھا ہو گا۔
دیہاڑی دار مزدور چھٹی کرے گا تو بچوں کو کھلائے گا کیسے؟
ہاں البتہ میرے جاننے والے بے شمار مزدوروں میں سے ایک مزدور نے آج چھٹی ضرور کی ہے۔۔اپنی 30 سال کی محنت مزدوری اور خالص رزق حلال کے بعد آج ایک دن اسے سکھ کا نصیب ضرور ہوا ہو گا۔بس اپنی پوری زندگی میں وہ گزشتہ رات سکون اور بےفکری کی نیند سویا ہو گا۔۔ابدی نیند اور ابدی سکون۔۔۔۔
اللہ بخش میرے گاوں کے مین سٹاپ پر عرصہ 30 سال سے جوتے مرمت کرنے کا کام کر رہا تھا۔
زمین پر بیٹھا سر جھکائے اپنے کام میں مگن شخص کو آس پاس کے شور شرابے اور آتے جاتے کسی بندے کی پرواہ نہیں ہوتی تھی پرواہ تھی تو بس اپنا کام توجہ سے مکمل کرنے کی۔
10 روپے دیں 20 دیں یا زائد۔اس نے کبھی سر اٹھا کر یہ نہیں کہا کہ کم ہیں صاحب۔ایسا مطمئن ، شاکر اور قناعت پسند جیسے دنیا کی ڈھیروں دولت اسکے پاس ہو۔کبھی کسی سے برائی نہیں۔انتہائی خاموش طبع۔کبھی اونچی آواز میں بات نہیں۔۔دل کا امیر اتنا کہ تھوڑے کام پر اجرت پوچھنی تو کہنا رہنے دیں۔شاکر اتنا کہ آپکی دی تھوڑی اجرت پر دو بول دعا کے “اللہ راضی ہووی”۔
ایک بار اسے اسکی اجرت سے زائد کچھ پیسے دئیے ایک ہی نوٹ کی صورت میں تو بولا۔جناب مجھے کھلےپیسے دیں میرے پاس کھلا نہیں۔۔۔
نہ کوئی لالچ نہ کوئی سوال۔نہ کسی سے شکائیت نہ اللہ سے اپنی غربت کا شکوہ۔۔۔
گرمی سردی میں صبح 9 سے مغرب تک اسکا تخت شاہی وہی زمین تھی۔اپنا کام بھی زمین پر بیٹھ کر کرنا اور کھانا بھی زمین پر بیٹھ کر کھانا۔کام نہ ہونے کی صورت میں بھی وہ اپنی زمین اپنی مٹی کو نہیں چھوڑتا تھا۔
اس زمین اس مٹی سے اللہ بخش کو اتناپیار تھا کہ اللہ بخش معمولی بیمار ہونے کے بعد کل اسی مٹی میں دفن ہو گیا۔۔۔
جی ہاں اللہ بخش کو حالات شائد کبھی بھی یوم مزدور پر چھٹی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔لیکن اللہ پاک کو بالآخر اسکی 30 سال کی محنت پر رحم آ ہی گیا۔
آج اللہ بخش کے محفل قل میں شرکت کے موقع پر سوچ رہا تھا کہ شائد اللہ بخش خوش قسمت تھا جسے یوم مزدور پر کام سے چھٹی مل گئی۔ایسی چھٹی کہ جس کے بعد اسے مزید ہاتھ زخمی کرنے،زمین پر بیٹھنے،روکھی سوکھی کھانے،گرمی سردی برداشت کرنے، دولت مندوں کی جھڑکیاں سننے سے ہمیشہ کے لیئے آزادی مل گئی۔۔ایسی آزادی کا خواب اس نے زندہ رہتے ہوئے کتنی بار دیکھا ہو گا۔۔یہ اسے ہی معلوم ہو گا۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
میں یہ بھی سوچ رہا تھا خالص رزق حلال کمانے والے اپنی دہائیوں کی محنت کے بعد بھی اپنی جائز اور اصل اجرت شائد فقط اللہ سے ہی وصول کرتے ہوں۔۔آج اسکی موت پر اسکے جملے کا قرض اسی کو لوٹانا چاہتا ہوں یہ کہہ کر کہ”اللہ راضی ہووی”۔
آئیں مل کر دعا کریں کہ اللہ بخش مرحوم کی مشقت بھری زندگی کا مالک دوجہان اسے آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے اور جنت میں اسکے درجات بلند فرمائے۔۔۔۔اور اس جیسے کروڑوں مزدوروں کی دکھ تکلیفیں پریشانیاں اپنی رحمت کے صدقے دور فرمائے۔آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں