کم سن بچیوں کی شادی،اور عرب شیوخ ۔۔۔۔۔۔اسلم ملک

چینی بھائیوں کی کارستانیاں کچھ  عرصے سے آپ سُن اور پڑھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے عرب بھائی ایسا کچھ  کر رہے تھے لیکن ان کی چراگاہ بھارت تھی۔ بھارت میں خاص طور پر حیدرآباد اور بمبئی کے مسلم علاقے۔۔عمان،کویت، قطر، سعودی عرب اور بحرین کے پچاس پچپن سے ساٹھ  پینسٹھ  بلکہ اسی سال تک عمر کے شیوخ وہاں آتے اور غریب والدین کو لاکھوں روپے دے کر بارہ سے سولہ سترہ سال  تک کی لڑکیوں سے شادیاں کرتے، دو تین ماہ عیاشی کے بعد چھوڑ کر چلے جاتے۔ لڑکیاں اور ان کے والدین ویزے کا انتظار کرتے رہ جاتے ۔ لیکن بہت سے معاملات میں سب کو پتہ ہوتا کہ یہ عارضی کنٹریکٹ شادی ہے۔ بس نکاح کرکے عصمت فروشی کو حلال کرلیا جاتا۔
سن ستر کی دہائی میں ایسی شادیوں کا آغاز ہوا تھا اور اب تک کم از کم دس بارہ ہزار لڑکیاں غربت کی سزا پا چکی ہیں۔
یہ عرب شیخ طوائفوں ، بڑی  ماڈل گرلز اور اداکاراؤں کے ساتھ  بھی وقت گزارنے کے وسائل رکھتے ہیں لیکن کم عمر بچیوں سے شادی ان عرب شیوخ کو یوں مرغوب تھی کہ ہمارے عربی عجمی کلچر میں باکرہ ، معشوق چہاردہ سالہ ہمیشہ سے مرغوب چلا آرہا ہے۔ پھر یہ کہ ایڈز وغیرہ سے بھی بچنا چاہتے ہیں۔

مسلمان علما ء نے کبھی ان شادیوں کے خلاف احتجاجی آواز بلند نہیں کی۔ حالانکہ یہی علما ء عورت کو تین طلاق دینے کے معاملے میں اکٹھے ہوگئے تھے۔۔ حیدر آباد دکن کے اخبار ’’سیاست ‘‘ کے مطابق حیدرآباد کی پولیس نے عمان کے پانچ اور قطر کے تین شہریوں کو ہوٹلوں سے اس وقت گرفتار کیا، جب وہ کمسن لڑکیوں سے شادی کرنے کے لئے ان کے ’انٹرویو‘ لے رہے تھے۔ گرفتار شدہ ایک شخص کی عمر تقریباﹰ ساٹھ  برس تھی اور وہ چھڑی کے سہارے چل پا رہا تھا۔

گرفتار ہونے والوں میں کئی قاضی، دلال اور ہوٹل مالکان بھی شامل تھے۔ پولیس نے ان کے قبضے سے جن بیس لڑکیوں کو آزاد کروایا، ان کی عمریں پندرہ سے سترہ برس کے درمیان تھیں۔
حیدرآباد کے پولیس کمشنر کے مطابق شہر کے پرانے حصے کے مختلف علاقوں میں بیس خواتین سمیت پینتیس شادیاں کروانے والے دلال سرگرم ہیں۔ اس کے لیے لڑکیوں کے والدین کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ دلال کمسن لڑکیوں کا برتھ  سرٹیفیکٹ اور دیگر دستاویزات حاصل کر کے ان کی تاریخ پیدائش تبدیل کرا دیتے تھے تاکہ لڑکی کو قانونی طور پر بالغ ثابت کیا جاسکے۔بمبئی کے شہر قاضی فرید احمد خان کو بھی فرضی نکاح نامے تیار کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا

عرب شیوخ دلالوں کو دس لاکھ روپے تک ادا کرتے جب کہ لڑکی کے والدین کو ایک لاکھ  روپے سے بھی کم دیے جاتے ۔ ہاں، جہیز کیلئے کپڑے ، زیور مل جاتے ہیں۔

بی بی سی نے ظلم کا شکار ہونے والی کچھ  لڑکیوں سے ملاقات کر کے ان سے ان کی کہانیاں سنیں ۔
فرحین نے بتایا میں تعلیم مکمل کر کے نرس بننے کے خواب دیکھا کرتی تھی لیکن جب صرف 13 برس کی تھی تو اردن سے تعلق رکھنے والے ایک 55 سالہ شخص سے شادی کر دی گئی۔ میں چیختی رہی، چلاّتی رہی کہ میں پڑھنا چاہتی ہوں لیکن میری کسی نے نہ سنی۔ والدہ نے انھیں دلہن بنایا اور یہ بھی بتایا کہ اس شادی کے بدلے انھیں 25 ہزار روپے فی الوقت اور پانچ ہزار روپے ماہانہ ملا کریں گے۔ اس شخص کو تنہائی میں دیکھا تو اس کی عمر 50 سال سے زیادہ تھی۔اس رات جب میں روئی تو وہ مجھ پر چڑھ دوڑا اور پھر وہ مجھے تین ہفتے تک ریپ کرتا رہا۔’

اس کے بعد اس شخص نے فرحین سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ اردن چلے اور اس کی وہاں موجود بیویوں اور بچوں کی دیکھ  بھال کرے۔ معاہدہ ہوا تھا کہ وہ شخص واپس جا کر فرحین کو بلانے کے لیے کاغذات بھیجے گا مگر وہ ویزا کبھی نہیں آیا۔
تلنگانہ پولیس سٹیشن میں فرحین کا مقدمہ وہاں درج کروائے گئے 48 کیسز میں سے ایک ہے۔ پولیس افسر نے کہا کہ عموماً متاثرین ہمارے پاس نہیں آتے۔ شیخ چلے جاتے ہیں تو پھر خواتین رپورٹ کرتی ہیں۔ تلنگانہ پولیس نے آٹھ  شیوخ پر مشتمل ایک گروہ کو گرفتار کیا۔ جن میں سے دو کی عمر 80 سال تھی ان تمام کیسز میں خواتین کی عمر 12 سے 17 سال کے درمیان ہے۔
تبسم کی جب شادی ہوئی تو اس کی عمر 12 سال تھی۔ ہوٹل لے جایا گیا جہاں جنسی زیادتی کی گئی اور یہ کہہ کر گھر بھیجا گیا کہ اس کے شوہر جلد ان کا ویزا بھجوائیں گے۔ تبسم نے ایک سال بعد ایک بچی کو جنم دیا، لیکن اس بچی کی پرورش اس کی بہن کے طور پر ہوئی۔ وہ کہتی ہے ‘میری بیٹی مجھے بہن کہتی ہے اور ہر بار میرا دل دھڑکنے لگتا ہے۔ میرے کان امی سننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔‘

زیادہ تر شیخ عمان، قطر، سعودی عرب اور یمن سے آتے ہیں۔ پندرہ سالہ زہرہ یتیم ہیں اور اپنی دادی کے ساتھہ رہتی ہے۔ زہرہ کہتی ہے’اس رات ایک قاضی آیا اور اس نے گھر سے ہی فون کے ذریعے نکاح پڑھ دیا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ میری کس کے ساتھ  شادی ہو رہی تھی۔ اس کے بعد ویزا آیا اور میں  یمن پہنچی جہاں ایک 65 سالہ شخص نے خود کو شوہر کے طور پر پیش کیا۔ اس کے بعد وہ شخص اسے ہوٹل میں لے گیا۔ زہرہ نے بتایا کہ اس شخص نے اس کے ساتھ  زبردستی کی اور اس کے بعد اس نے انھیں حیدرآباد واپس بھیج دیا۔

فرہین اور زہرہ جیسی لڑکیوں کا استعمال کرکے انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ایک سماجی کارکن جمیلہ  بتاتی ہیں  کہ جس غریب مسلم علاقے میں وہ کام کرتی ہیں وہاں ایک تہائی خاندانوں نے پیسے لے کر اپنی بیٹیوں کی شادی کی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

روبیہ اور سلطانہ بچپن کی دوست تھیں۔ ان دونوں کی بھی شادی ہوئی تھی اور بعد میں دونوں کو پتہ چلا کہ ان کی ایک ہی آدمی سے شادی ہوئی ہے۔ روبیہ کی شادی 13 سال کی عمر میں عمان کے ایک 78 سالہ شیخ سے ہوئی۔ انھوں نے روتے ہوئے کہا ’’ وہ مجھے اور میری دوست کو چھوڑ گئے۔ ہمیں ہفتوں ان کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ بالآخر میری دوست نے خود کشی کر لی‘‘۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply