تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے، مگر۔۔۔سید شاہد عباس

سرفراز چیمپئنز ٹرافی کا ہیرو قرار پایا۔ حق بنتا تھا اُس کا۔ فخر زمان یقینی طور پر داد کے قابل تھا کہ مسلسل دو اہم میچ جتوائے۔ وہاب ریاض کا خطرناک باؤلنگ اسپیل بھلا کس کو بھول سکتا ہے اگر شین واٹسن اب تک نہیں بھولے تو۔ عامر کی سوئنگ کا چرچا تو اب تک برقرار ہے۔ امام الحق کا چشماتی سٹائل کس کو نہیں بھائے گا۔ شاداب کی گگلی کا تو جواب ہی نہیں ہے۔ پروفیسر کی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے مخالفین کو چڑانا بھلا ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ شعیب ملک تو سینئر ترین کھلاڑی ہیں ہی۔ ان کا احترام کون کہے گا کہ لازم نہیں ہے۔ بابر اعظم کی کلاس کے تو کیا کہنے۔ عماد وسیم کے کالا چشمہ پہن کے باؤلنگ کروانے اور دلکش انداز پہ بیٹنگ کے دوران وکٹ پہ کھڑے ہونے کا بھی ثانی نہیں۔ حسن علی کا جنریٹر سٹائل جشن تو اب ان کی شناخت بن چکا ہے۔ اور ہمیں ایک ایک کھلاڑی نہ صرف عزیز ہے بلکہ ہمیں اِن سے بے پناہ محبت بھی ہے۔ اور کچھ بھی ہو، ہاریں یا جیتیں ہماری ان سے محبت برقرار رہے گی۔ کیوں کہ ہمارے قومی کھلاڑی ہیں، پاکستانی ہیں۔ اور پیار ان سے حب الوطنی کا لازمی جزو ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن اب ذرا محبت کی پٹی ہم اتار کے دیکھتے ہیں کیوں کہ زندگی میں عام انسان کو بھی بسا اوقات اپنی محبت سے ہٹ کے عقل سے کام لینا پڑتا ہے۔ وجہ یہ کہ محبت ہمیشہ آپ سے عقل کے مخالف فیصلے کرواتی ہے۔ اور پھر ساری زندگی کا رونا ہمارے گلے پڑ جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہماری قومی ٹیم کے معاملے میں بھی ہے۔ ہمارے پیارے سرفراز ہمیں بہت عزیز ہیں۔ لیکن ہمارے عزیز کیا چیمپئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیم کا گراف آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے دن بدن نیچے نہیں جا رہا؟ 2017 میں چیمپئنز ٹرافی کی فتح یقینی طور پر یادگار لمحہ ہے۔ اٹھارہ میں سے بارہ میچ جیتے بھی۔ 2018 میں یہ تناسب تھوڑا اور کم ہو گیا اور اور اٹھارہ میں سے فتح آٹھ میچز میں مقدر بنی۔ 2019 میں ہم ورلڈ کپ کی تیاری کے سلسلے میں پہلے سے انگلینڈ میں ڈیرے ڈال کے اپنی دانست میں درست فیصلہ کر چکے تھے وہ تو برا ہو کہ انگلینڈ کی ٹیم نے ہماری درگت بنا ڈالی۔ اور ورلڈ کپ کے لیے ہماری امیدوں پہ پانی پھیرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اب اس پورے قضیے میں اول الذکر ہمارے بہترین شاہینوں کی کارکردگی اٹھا کے دیکھ لیجیے۔ ہم ہر میچ کے بعد یا تو قدرت سے دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں۔ یا پھربارش کی امید لیے ہوئے۔ اور جو قوم کرکٹ سے اتنی محبت کرتی ہے اس کی امیدوں کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ وہ اپنی ٹیم کی کارکردگی کو اس قدر جان گئے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے روایتی ٹاکرے سے قبل بارش کی دعائیں مانگتے نظرآئے۔ اور سونے پہ سہاگہ کہ ملبہ باؤلنگ پہ گرتا رہا۔ کوئی اس جانب توجہ دینا گوارا نہیں کر رہا کہ موجودہ ورلڈ کپ میں جہاں ساڑھے تین سوکا مجموعہ عام بات بن چکی ہے وہاں ہماری بیٹنگ میں اتنی سکت بھی باقی نہیں کہ وہ ایک مرتبہ آسٹریلیا کو، جب امید کی جا رہی تھی مجموعہ چار سو تک ہو گا، کو باؤلنگ نے ان کو 307 پہ محدود کر دیا تو ہماری بیٹنگ لائن کے لیے یہ پہاڑ بن گیا۔ تو کل کے میچ میں جب بھارت کا آغاز ایسا تھا کہ مجموعہ ساڑھے تین سو سے زائد معلوم ہو رہا تھا تو باؤلنگ نے اسے تین سو چھتیس تک محدود کر دیا لیکن ہمیں معلوم تھا کہ یہ ہدف ہماری بیٹنگ کی مجموعی صورتحال دیکھتے ہوئے۔ اور بیٹنگ لائن کی اپروچ دیکھتے ہوئے کم و بیش ناممکن ہی ہے۔ لیکن امیدوں کا کیا کریں پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
پورے قضیے میں نہ تو تنقید ہے نہ ہی کوئی ذاتی عناد۔ سینئر کھلاڑیوں حفیظ، شعیب ملک، سرفراز، و دیگر کو دیکھیے یہ جب خود کارکردگی میں آگے نہیں بڑھ پا رہے تو جونیئرز سے کیا توقع رکھیں کہ وہ میچ جتوا سکتیں گے۔ ہار یا جیت معنی نہیں رکھتی، اہم ہے تو لڑنے کا جذبہ۔ شائقین کو نظر تو آئے کہ ان کی ٹیم لڑ کے ہار رہی ہے۔ تین سو سے اوپر مجموعہ گیا نہیں کہ ہماری ٹیم پہلے ہی نفسیاتی شکست کا شکار ہو جاتی ہے کہ نہیں بھئی یہ تو ہمارے بس کی بات نہیں۔ جدید کرکٹ کے تقاضے بدل چکے ہیں اور ہم آج بھی نوے کی دہائی کی کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ ہمارا ڈومیسٹک سسٹم ہر سیزن میں نئے تجربات کی آماجگاہ ہے۔ ہم پی ایس ایل کی کامیابی کی خوشی سے نکلیں تو عالمی کرکٹ میں اپنا کھویا وقار بحال کر پائیں۔ دنیائے کرکٹ میں جہاں اوپننگ شراکت داری میں ابتدائی دس اوور میں سو رنز بننا معمول بن رہا ہے۔ ہم وہاں بیس اوور میں پانچ کی اوسط کو اپنی کامیابی سے تعبیر کر رہے ہوتے ہیں۔ مڈل آرڈر میں جہاں اننگ کو تقویت دینے والے اور سکور کارڈ کو مسلسل حرکت میں رکھنے والے کھلاڑی اہم ہوتے ہیں وہاں ہمارے کھلاڑی ذاتی ریکارڈ بک کو بہتر کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ جو کام اوپننگ بلے بازوں اور مڈل آرڈر کو کرنا چاہیے وہ ٹیل اینڈرز کر رہے ہیں۔ کبھی حسن علی دو چار چھکے مار دیتے ہیں، کبھی وہاب ریاض، کبھی عماد وسیم تو کبھی شاداب۔ جس کا جو کام ہے وہ نہیں کر رہا، باقی سب کچھ کر رہا ہے۔ باؤلنگ میں جن پہ تکیہ ہوتا ہے وہ پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ اور جنہیں بمشکل ٹیم میں جگہ ملتی ہے وہ کارکردگی دکھا دیتے ہیں۔ عامر کے کردار پہ بحث رہی ٹیم میں، وہ وکٹیں لے گیا۔ اور جو ہراول دستے میں شامل تھے، ان کی لائن و لینتھ ہی اب تک سیٹ نہیں ہو رہی۔ ایک اینڈ سے باؤلر دو سے تین رنز کی اوسط سے باؤلنگ کرا رہا ہے تو دوسرے اینڈ سے دس کی اوسط سے۔ ٹیم نہ ہوئی چوں چوں کا مربہ ہو گئی۔
ہمارا فرض ہے ٹیم کا ساتھ دیں۔ ہم پہ لازم ہے کہ بے جا تنقید نہ کریں۔ اور ایک میچ کے بعد بھی تنقید جائز نہیں۔ لیکن کیا کرکٹ کی دنیا کے سب سے بڑے مقابلے میں بھی اگر آپ اوسط درجے کی کارکردگی سے بھی نیچے چلے جائیں تو ہم منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے رہیں؟ اور آپ کو اگر گرین کلر مل گیا تو کیا یہ اس بات کی ضمانت ہو گئی کہ آپ ہر تنقید سے بالاتر ہو گئے؟ آپ کو ایک کام دیا گیا ہے ملک کی نمائندگی احسن انداز سے کرنے کا۔ آپ کو پیسے مل رہے ہیں۔ ملک سے بھی اسپانسر سے بھی۔ تو پھر آپ جب وہ کام بہتر انداز سے نہیں کریں گے جو آپ کے ذمے ہے تو محبت پہ عقل تو غالب آئے گی ہی۔ آپ ہم سے توقع ضرور رکھیے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ لیکن ہم بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ شائقین کے ساتھ بھی کھڑے ہوں۔ ذمہ داری تو قبول کیجیے۔ آپ تو لولی لنگڑی توجیحات شکست کے بعد پیش ایسے کرنا شروع ہو جاتے ہیں جیسے عوام روٹی کو چو چو کہتی ہے۔ ایک کڑاکے کا میچ جیتے تو ستے ای خیراں کہ اگلا سال پورا ہارتے رہیں۔
آخر میں اپنے کپتان سے ایک عاجزانہ درخواست ہے کہ پیارے کپتان آپ اس لشکر کے سپہ سالار ہیں۔ آپ بزدلی کا دامن چھوڑیے تا کہ آپ ایسے بے وقوفانہ فیصلوں سے بچ پائیں کہ ٹاس جیت کے دنیا کی مضبوط ترین بیٹنگ لائن کو آپ بیٹنگ کی دعوت دے ڈالیں۔ آپ ہمت پکڑیں گے تو آپ کے کھلاڑی بھی ہمت دکھائیں گے۔ آپ بیک فٹ پہ جائیں گے تو آپ کی ٹیم آپ سے بھی دو قدم پیچھے ہٹ جائے گی۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply