بل ھم اضل۔۔۔۔۔۔ساؔنول عباسی

آج کے ہوس پرستانہ حالات کے تناظر میںاہلِ  ذوق دوستوں کی نذر   نظم

“بَلْ ھُمْ اَضَل”

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے اکثر یہ لگتا ہے
کہ دنیا میں
کہیں انساں نہیں باقی
یہ جو انسان لگتے ہیں فقط آدم نما ہیں سب
کوئی خصلت بھی انساں کی نہیں ان میں
خدا کے نام سے واقف نہیں کوئی
حیاتِ جاوِداں ان کے لئے بس اک فسانہ ہے
یہ نفرت کے ہیں دلدادہ محبت سے یہ عاری ہیں
نہ آنکھوں میں حیا باقی ہوس کے سب پجاری ہیں
کسی کو دیکھ کر تکلیف میں محظوظ ہوتے ہیں
کوئی حیواں نہیں ایسا جو اپنی جنس کو کھا لے
مگر انسان کو دیکھو
تو آدم خور لگتا ہے
فقط دکھنے میں انساں ہے
درندے ان سے ڈرتے ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
انہیں کیا نام دوں کس نام سے ان کو پکاریں اب
سنا ہے نظریہ ہے ارتقاء کا ایک
جو لادین لوگوں میں بہت مقبول ہے
جس میں
زمانے کے تسلسل میں
کبھی ہئیت بدلتی ہے
کبھی خصلت بدلتی ہے
وہ کہنے کو تو لگتا اک فسانہ ہے
مگر ہم ارتقائی اس فسانے کو حقیقت مان لیں
تو پھر یہ لگتا ہے
کہ شاید ارتقاء کی منزلیں طے کرتا یہ انسان بےچارہ کوئی حیوان ہی نہ ہو
مگر حیوان تو ایسے نہیں ہوتے
اٹھا کے دیکھ لو تاریخِ عالم کو
کہ دنیا کی تباہی اور بربادی کا بس انسان مجرم ہے
فقط انسان مجرم ہے
کسی حیوان کو دوشی نہ پاؤ گے
ارے نادان انسانو
خدا کی مان لینے میں بھلائی ہے
اگر تم مان لو گے تو
خدا کے بعد پھر انسان سے افضل نہیں کوئی
وگرنہ پھر
خدا کی بات ہی سچ ہے
کہ جو اس کی نہیں سنتا
زمانے میں کہیں کا بھی نہیں رہتا
نہ وہ انسان رہتا ہے نہ ہی حیوان رہتا ہے
فقط بَلْ ھُمْ اَضَل ہی ہے.

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply