آج کے ہوس پرستانہ حالات کے تناظر میںاہلِ ذوق دوستوں کی نذر نظم
“بَلْ ھُمْ اَضَل”
مجھے اکثر یہ لگتا ہے
کہ دنیا میں
کہیں انساں نہیں باقی
یہ جو انسان لگتے ہیں فقط آدم نما ہیں سب
کوئی خصلت بھی انساں کی نہیں ان میں
خدا کے نام سے واقف نہیں کوئی
حیاتِ جاوِداں ان کے لئے بس اک فسانہ ہے
یہ نفرت کے ہیں دلدادہ محبت سے یہ عاری ہیں
نہ آنکھوں میں حیا باقی ہوس کے سب پجاری ہیں
کسی کو دیکھ کر تکلیف میں محظوظ ہوتے ہیں
کوئی حیواں نہیں ایسا جو اپنی جنس کو کھا لے
مگر انسان کو دیکھو
تو آدم خور لگتا ہے
فقط دکھنے میں انساں ہے
درندے ان سے ڈرتے ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
انہیں کیا نام دوں کس نام سے ان کو پکاریں اب
سنا ہے نظریہ ہے ارتقاء کا ایک
جو لادین لوگوں میں بہت مقبول ہے
جس میں
زمانے کے تسلسل میں
کبھی ہئیت بدلتی ہے
کبھی خصلت بدلتی ہے
وہ کہنے کو تو لگتا اک فسانہ ہے
مگر ہم ارتقائی اس فسانے کو حقیقت مان لیں
تو پھر یہ لگتا ہے
کہ شاید ارتقاء کی منزلیں طے کرتا یہ انسان بےچارہ کوئی حیوان ہی نہ ہو
مگر حیوان تو ایسے نہیں ہوتے
اٹھا کے دیکھ لو تاریخِ عالم کو
کہ دنیا کی تباہی اور بربادی کا بس انسان مجرم ہے
فقط انسان مجرم ہے
کسی حیوان کو دوشی نہ پاؤ گے
ارے نادان انسانو
خدا کی مان لینے میں بھلائی ہے
اگر تم مان لو گے تو
خدا کے بعد پھر انسان سے افضل نہیں کوئی
وگرنہ پھر
خدا کی بات ہی سچ ہے
کہ جو اس کی نہیں سنتا
زمانے میں کہیں کا بھی نہیں رہتا
نہ وہ انسان رہتا ہے نہ ہی حیوان رہتا ہے
فقط بَلْ ھُمْ اَضَل ہی ہے.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں