ذہانت (7/8) ۔ ڈیٹا/سپر مارکیٹ/وہاراامباکر

کالج کے ایک طالب علم، مارک زکربرگ، نے 2004 میں فیس بک کے نام سے نیا سافٹ وئیر بنایا۔ ان کی اپنے دوست سے چیٹ ہوئی۔
زک: اگر ہارورڈ یونیوورسٹی میں کسی کے بھی بارے میں معلومات چاہیے ہو تو مجھ سے پوچھ لینا۔
زک: میرے پاس چار ہزار سے زیادہ لوگوں کے ای میل تصاویر اور ایڈریس ہیں۔
دوست: کیا؟؟ تم نے یہ کیسے کر لیا؟
زک: لوگوں نے یہ بس میرے حوالے کر دئے
زک: پتہ نہیں کیوں۔
زک: وہ مجھ پر “اعتبار” کرتے ہیں۔
زک: بے وقوف لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خیال میں ہمیں ایک انیس سالہ لڑکے کی اس شیخی کو اتنا سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ میری یہ رائے ہے کہ زکربرگ درست نہیں تھے۔ لوگ اپنی انفارمیشن بس ایسے ہی ان کے حوالے نہیں کر رہے تھے۔ یہ ایک سودا تھا۔ اس کے جواب میں انہیں الگورتھم تک رسائی مل رہی تھی جس سے وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ رابطہ رکھ سکتے تھے۔ ایک کمیونٹی بنا سکتے تھے۔ انٹرنیٹ کی وسیع و عریض دنیا میں اپنا نجی نیٹورک قائم کر سکتے تھے۔ مجھے باقی لوگوں کی رائے کا علم تو نہیں لیکن اس وقت میں میرے لئے یہ ایک مناسب سودا تھا۔
اب یہاں پر اس منطق کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ ہمیں ہمیشہ علم نہیں ہوتا کہ اس تجارت کے طویل مدتی اثرات کیا ہوں گے۔ یہ بالکل بھی واضح نہیں ہوتا کہ ہمارا ڈیٹا کر کیا سکتا ہے۔ اور اگر اس کو ہوشیار الگورتھم کے حوالے کیا جائے تو اس کی قدر کتنی ہو سکتی ہے۔ کیا یہ fair trade ہے؟
(جاری ہے)

(8)سپرمارکیٹ
Wahara Umbakar جولائی 13, 2023 ,Computer Science

Advertisements
julia rana solicitors

ڈیٹا کی قدر کا ادراک سب سے پہلے سپرمارکیٹ کی طرف سے ہوا۔ یہ وہ ادارے ہیں جو صارف کی توجہ کے لئے تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اگر صارف ان کی طرف معمولی سی توجہ بھی بڑھا دے تو اس سے ہونے والا فائدہ بہت ہے۔ اور اس کے لئے ہم 1993 میں برطانیہ کی مارکیٹ ٹیسکو کی طرف چلتے ہیں۔
ایڈوینا ڈن اور کلائیو ہمبی میاں بیوی تھے۔ ان کی راہنمائی میں ٹیسکو نے اپنے کچھ سٹور پر کلب کارڈ کا اجرا کیا۔ صارف اس کارڈ کو خریداری کے وقت پیش کر سکتے تھے۔ خریداری کے عوض پوائنٹ ملتے تھے اور ان کو مستقبل کی خریداری میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ٹیسکو اس سے معلوم کر سکتا تھا کہ صارف کیا کچھ خریدتا ہے اور اس کا ریکارڈ رکھ سکتا تھا۔ یہ سادہ سا سودا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلب کارڈ کے پہلے ٹرائل کے وقت بہت ہی محدود ڈیٹا حاصل کیا گیا تھا۔ نام اور پتہ، اور خریداری کا وقت اور رقم۔ اس میں خریدی گئی اشیا بھی نہیں تھیں۔ لیکن ڈن اور ہمبی نے اس ڈیٹا سے بھی بیش قیمت معلومات نکال لی۔
انہوں نے دریافت کیا کہ وفادار صارفین کی ایک قلیل تعداد کا کل فروخت میں بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے یہ دیکھا کہ ہر محلے اور گلی کے لوگوں کا خریداری کا کیا پیٹرن ہے۔ لوگ کتنا سفر کرنا گوارہ کر لیتے ہیں۔ انہوں نے یہ معلوم کیا کہ کونسے علاقے ہیں جہاں پر ان کے مقابلے میں کوئی اور جیت رہا ہے اور کونسے ہیں جہاں ٹیسکو کو برتری حاصل ہے۔ اس ڈیٹا نے بتایا کہ کونسے صارفین ویک اینڈ پر آتے ہیں اور کونسے روزانہ چکر لگاتے ہیں۔ اس سب معلومات سے لیس ہو کر وہ صارفین پر اثرانداز ہو سکتے تھے۔ انہیں ڈاک کے ذریعے کوپن بھیجے گئے۔ زیادہ خریداری کونے والوں کو بڑی رقم کے جو تین سے تیس پاونڈ کے درمیان تھی جبکہ کم خریداری کرنے والوں کو ایک سے دس پاونڈ کے۔ نتائج بہترین رہے۔ کلب کارڈ کے حامل لوگوں کی خریداری مجموعی اوسط سے چار فیصد زیادہ ہو گئی۔
بائیس نومبر 1994 کو کلائیو ہمبی نے ٹیسکو کے بورڈ کو اپنے اس تجربے پر presentation دی۔ بورڈ نے خاموشی سے یہ سب سنا۔ جب یہ ختم ہوئی تو میٹنگ کے چئیرمین بولنے والے پہلے شخص تھے۔ انہوں نے کہا، “میرے لئے یہ ڈرا دینے والی بات ہے کہ آپ تین ماہ میں ہمارے صارفین کو اس سے زیادہ جانتے ہیں جتنا ہمیں ان کے بارے میں تیس سال میں پتا لگا ہے”۔
کلب کارڈ کو تمام صارفین تک پہنچا دیا گیا۔ اور برطانیہ میں ٹیسکو کی کامیابی کی ایک وجہ یہ رہی ہے۔ وقت کے ساتھ اس سے اکٹھے کئے جانے والے ڈیٹا میں تفصیل بھی زیادہ آتی گئی اور اس سے صارفین کی عادات سمجھنا اور ان کا فائدہ اٹھانا بہتر ہوتا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آن لائن شاپنگ شروع ہوئی تو ٹیم نے ایک فیچر متعارف کروایا جو My Favourites تھا۔ اس میں وہ اشیا نمایاں طور پر نظر آتی تھیں جو صارف کی طرف سے خریدی جاتی تھیں۔ اور کلب کارڈ کی طرف یہ بھی بہت کامیاب رہا۔ آپ اپنے مطلب کی چیز سامنے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ صارف بھی خوش اور سیلز بھی زیادہ۔
اس فیچر کے شروع ہونے کے بعد ایک خاتون نے ٹیسکو فون کیا اور شکایت کی کہ ڈیٹا غلط ہے۔ ان کی فیورٹ کی فہرست میں کنڈوم بھی نظر آ رہے ہیں اور یہ ان کے شوہر کے بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ ان کے گھر میں استعمال نہیں ہوتے۔ ان کی درخواست پر ٹیسکو کی ٹیم نے ڈیٹا دیکھا۔ پتا لگا کہ فہرست بالکل درست تھی۔ لیکن ان خاتون کی ازدواجی زندگی میں چپقلش کا سبب بننے کے بجائے فیصلہ یہ کیا گیا کہ “غلط ڈیٹا” پر معافی مانگ کر اسے ہٹا دیا جائے۔
اور یہ ٹیسکو کے لئے ان کی پالیسی بن گئی۔ جب بھی کوئی شکایت آتی ہے، وہ معذرت کر لیتے ہیں اور ڈیٹا ہٹا دیتے ہیں۔ گوگل کے ایرک شمٹ کہتے ہیں کہ انہوں نے بھی یہی پالیسی رکھی ہے۔ جہاں پر ڈیٹا کسی کو پریشان کرے، اس لکیر کو عبور نہیں کرنا۔
لیکن اگر ڈیٹا اکٹھا کریں تو آپ کو معلوم نہیں کہ اس میں کیا دریافت کر لیں گے۔ سودا سلف صرف استعمال کی اشیا نہیں، ان کو احتیاط سے دیکھا جائے تو آپ کی عادات، شخصیت اور طرزِ زندگی کے بارے میں بتاتی ہیں۔ کئی بار ایسی چیزیں بھی جنہیں آپ نہیں جاننا چاہیں گے۔ اور ان سے ملنے والی انسائٹ کو کمپنیاں استعمال کر سکتی ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply