کرونا وائرس،حلال وحرام۔۔ایم اے صبور ملک

چین سے شروع ہونے والے کرونا وائرس نے پوری دُنیا کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے،ہمارے خطہ پوٹھوہار میں کروٹ کے مقام پر بننے والے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ میں بڑی تعداد میں چائنیز انجینئرز اور ٹیکنیشنز کام کرتے ہیں،جس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ کہیں یہ جان لیوا بَلا یہاں بھی نہ پھیل جائے،حضرت انسان نے جب بھی قدرت کے بتائے ہوئے اُصولوں سے انحراف کیا، اس کو نقصان ہی ہوا،جیسا کہ ایڈز جیسا موذی مرض بھی سب سے پہلے بن مانس سے انسانوں میں منتقل ہوا،جس کی وجہ انسانوں کا بن مانس کے ساتھ غیر فطری عمل تھا،اور آج تک ایڈز کا علاج دریافت نہیں ہوسکا،اور ایک عالم اس جان لیوا مرض میں مبتلا ہے،کچھ یہی معاملہ کرونا وائرس کا بھی ہے،چین میں چونکہ چوہے،سانپ،مینڈک،چمکادڑ وغیرہ کھانے کا عام رواج ہے،اور کرونا وائرس بھی چمکادڑ میں پایا جاتا ہے،جو کہ چین میں پائے جانے والے ایک مخصوص نسل کے سانپ کی مرغوب غذا ہے،اور چمکادڑ سے اس وائرس کا جراثیم سانپ اور پھر سانپ سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔

حالیہ کرونا وائرس کی وبا چینی صوبے ووہان سے پھیلنا شروع ہوئی، جس نے اب تائیوان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،پاکستان کے شہر ملتان میں ووہان سے آنے والے دو چینی شہریوں میں بھی کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے،جنہیں نشتر ہسپتال ملتان کے آئیسولیشن وارڈ میں داخل کروادیا گیا ہے،اللہ تعالی نے قرآن میں انسان کو جو حلال وحرام کھانے اور غیر فطری تعلقات سے دور رہنے کے حوالے سے تلقین کی ہے،اگر انسان اس پر عمل کرے تو بہت سی قباحتوں او رجان لیوا وبائی امراض سے بچا جاسکتا ہے،شکر ہے کہ اس قسم کے وائرس جب بھی پھیلنا شروع ہوئے یا جب بھی ان کا آغاز ہوا وہ غیر مسلم معاشرے سے ہی ہوا،کسی مسلم معاشرے سے نہ تو ایڈز پھیلا  اور نہ ہی کرونا وائرس،دُنیا کو اسلام اور مسلمانوں کا احسان مند ہونا چاہیے،کہ ہم نے دُنیا کو اس قسم کی  وبائیں نہیں دیں۔

سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ربانی ہے کہ خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا،وہ بڑی بے حیائی اور بہت ہی بری بات ہے،اس ایک ارشادپر ہی بنی نوع انسان اگر عمل پیرا ہوجائے تو ایڈز سے بچا جاسکتا تھا،اب اسی طرح قرآن نے انسان کے لئے کھانے پینے اور نکاح جیسے معاملا ت میں حلال وحرام کی تمیز کر دی تاکہ انسان ایک ایسے معاشرے میں رہ سکے جہاں بے حیائی اور وبائی امراض کا دور دورہ نہ ہو،لیکن انسان نے فطرت سے روگردانی کی،جس کا نتیجہ اب اقوام عالم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

کرونا وائرس چین سے شروع ہوا،کیونکہ چینی کھانے پینے کے معاملے میں اہل کتاب خصوصاً مسلم قوم کے یکسر برخلاف کھانے کھاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق وائرس کا سبب بننے والا پیتھوجن بالکل نیا ہے،اور یہ کرونا وائرسزکی وہ فیملی ہے،جس میں عام بخار کا سبب بننے والے وائرس سے لے کر ریسپائریٹری سینڈروم (سارس) شامل ہے،اس سے قبل بھی یہ وائرس/03 2002 میں چین اور ہانگ کانگ میں چھ سو سے زائد افراد کی موت کا سبب بن چکا ہے،اس مرض کی علامات میں متاثرہ مریض کو فلو،گلے میں خراش،اور سانس لینے میں دشواری ہو تی ہے اور دو سے تین ہفتوں میں متاثرہ مریض سانس گھٹنے سے دم توڑ جاتا ہے۔اس کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔

جینیاتی تجزیے کے مطابق اس وائرس کی افزائش چمگادڑوں سے ہوئی،جو چین میں پائے جانے والے مخصوص سانپ جس کی خوراک چمکادڑ ہیں، سے انسانوں میں منتقل ہوا،کیونکہ چین کے علاقے ووہان میں یہ وائرس وہاں موجود جنگلی جانوروں کی مارکیٹ میں موجود جنگلی جانوروں سے پھیلا،مذکورہ مارکیٹ میں مختلف قسم کے جنگلی جانورجن میں سانپ،لومڑی،مگرمچھ،بھیڑیے،وغیرہ فروخت کیے جاتے ہیں،کرونا وائرس پھیلنے کے بعد اس مارکیٹ کو اب بند کردیا گیا ہے،چین نے تصدیق کی ہے کہ یہ وائرس اب ووہان سے نکل کر ملک کے دوسرے علاقوں حتی کہ تائیوان تک پھیل چکا ہے،علاوہ ازیں چین کے نئے قمری سال کے موقع پر چینی اور غیر ملکی شہریوں کی چین آمد ورفت کی وجہ سے کرونا وائرس پور ی دُنیا میں پھیلنے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔امریکہ،یورپ،آسٹریلیا،افریقی ممالک ماسوائے بھارت دُنیا کے تمام ممالک نے اپنے شہریوں کو جو چین میں موجود ہیں،اپنے آبائی ممالک آنے سے روک دیا ہے،ووہان سے تمام ملکی و بین الاقوامی پروازوں،ٹرین اور بس سروس کو بند کردیا گیا ہے۔

پاکستان میں بھی تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر بیرون ملک خصوصاًچین سے آنے والے مسافروں کی سکر یننگ کی جارہی ہے،یہ سارا فساد محض چینی قوم کے  کھانے پینے کے معاملا ت میں حلال حرام کی تمیز نہ کرنے اور سانپ،چوہے،بلی،وغیرہ جنگلی جانور کھانے کی وجہ سے ہو رہا ہے،دُنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی،لیکن چینیوں کو کھاناپینا بھی نہ آیا،خود بھی عذاب میں مبتلا اور باقی دُنیا کو بھی مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔

ہمیں چین سمیت کسی بھی ملک کے باشندوں کے کھانے پینے سے کوئی سروکار نہیں،ہمیں ڈر ہے تو اس بات کا کہ اگریہ چینی باز نہ آئے تو کل دُنیا کو اس سے بھی زیادہ کسی خطرناک وبا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،جیسے ماضی میں ہوس کے مارے چند جاہلو ں کی وجہ سے ایڈز نے  دیگر انسانوں کی جانب رخ کیا تھا،اس وقت پاکستان میں متعد د ایسے تعمیراتی پروجیکٹ جاری ہیں جن میں چینی شہری کام کررہے ہیں،خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ کہیں پاکستان سے بلی،چوہے،سانپ وغیر ہ کی نسل بھی معدوم نہ ہوجائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

علاوہ ازیں اگر ہمارے ہاں بھی کرونا وائرس پھیل گیا تو ہم کیا کریں گئے،کیونکہ دُنیا ترقی کرکے کرونا تک پہنچ گئی اور ہم ابھی تک پولیو،پولیو کھیل رہے ہیں،اس لئے بہتر یہی ہے کہ قدرت کے بتائے ہوئے فطری طریقوں کے مطابق اعتدال کی زندگی گزاری جائے اور جو ہمارے لئے حلال کردیا گیا وہ کھائیں اور حرام سے بچیں،خواہ وہ مال حرام ہو یا پھر سانپ،چوہے،چمکادڑ وغیرہ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply