عمران خان صاحب ویسے تو کئی مواقع پر معترضہ شخصیت بنتے رہے ہیں لیکن اُن کے ایک حالیہ بیان نے اُنہیں پھر سے سخت تبصروں کی زد میں لا کھڑا کیا ہے ۔عمران خان نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ چار سالوں کے دوران اصل اختیارات اُن کے پاس تھے ہی نہیں ،وہ تو فقط نام کے وزیراعظم تھے ،ایک ڈمی کی طرح اقتدار اُن کے پاس رہا ۔بہت سے حقیقت اور رجائیت پسند لوگ اُن کے اس بیان کو حقیقت کی ترجمانی کہتے ہوئے اِس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، تو وہیں پر ان کے بہت سارے مداح مایوس بھی نظر آتے ہیں ۔
اُن کے حق میں تبصرہ کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ عمران خان نے جراءت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اختیارات کی اصل مالک قوت پر اُنگلی اُٹھائی ہے ،اُن کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے اور باقی سیاست دانوں کو اس نظریئے کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان میں جمہوری روایات پامال کرنے والوں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے ۔اُن کے مخالفین کا یہ کہنا ہے کہ اگر عمران خان کے پاس اختیارات نہیں تھے تو وہ کس بنیاد پر مخالفین کو دھمکیاں دیتے تھے اور این آر او نہ دینے کا عندیہ دیتے رہتے تھے ۔اُن کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کے پاس اختیارات نہیں تھے اور کسی اور قوت کے پاس تھے تو عمران خان نے تو ایسے ملنے والی حکومت کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا ،عمران خان نے اپنے انتخابی منشور میں واضح طور پر کہا تھا کہ اگر اُنہیں ایسی حکومت ملی تو وہ قبول نہیں کریں گے ،پھر وہ چار سال تک اقتدار سے کیوں چمٹے رہے ؟۔اس سوچ کے حامل لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اب عمران خان اپنی ناکامی کا سارا ملبہ کسی اور پر ڈالنا چاہتے ہیں اس لیے ایسا کہہ رہے ہیں ۔
اس کے علاوہ اُن کے مخالفین کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان ایسی کئی قلابازیاں لگا چکے ہیں اور ماضی میں اپنے ہی کئی بیانات کو جھٹلا کر اُلٹ بیانات دے چُکے ہیں اب جن کیسز کی بنیاد پر وہ نواز شریف کو چور کہتے ہیں اور نواز شریف کو این آر او نہ دینے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں اِنہی کیسز پر وہ مشرف دور حکومت میں پرویز مُشرف کی مخالف کرتے ہوئے نواز شریف کے ساتھ جلسے کرتے تھے اور اُنہیں ایک آمر کے جھوٹے بنائے گئے کیسز کہتے تھے ۔اب اُن کے مفادات نواز شریف سے ٹکرانے لگے ہیں تو اُنہیں نواز شریف سب سے بڑا چور دکھائی دینے لگا ہے ۔
اُن کے مخالفین نے اُن کے کئی گزشتہ بیانات کا حوالہ دیا ہے جن میں وہ جنرل باجوہ اور اسٹیبلشمنٹ کا دم بھرتے نہیں تھکتے تھے ۔
عمران خان نے 3 دسمبر 2018 کو حامد میر اور دیگر صحافیوں سے گُفتگو کرتے ہوئے کہا تھا
“اس وقت پاکستان کی فوج مکمل طور پر پاکستان تحریکِ انصاف کے منشور کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے ،جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی آمر اسٹیبلشمنٹ کے برعکس جنرل باجوہ کی اسٹیبلشمنٹ ایک ڈیموکریٹک گورنمنٹ کے ساتھ کھڑی ہے ،ایک پیج پر کھڑے ہیں “۔
اس پر صحافی نے سوال کیا
“کیا فیصلے آپ لیتے ہیں ؟
تو عمران خان صاحب نے جواب دیا کہ
“صاف ظاہر ہے میں لیتا ہوں ،کوئی ایک فیصلہ نہیں جو میرا نہ ہو ”
24 مارچ 2020 کو عمران خان نے صحافیوں سے گُفتگو کرتے ہوئے کہا
“جو بھی فیصلہ ہے اُس کا ذمہ دار میں ہوں ،میں ذمہ دار اس لیے ہوں کہ جو بھی فیصلہ ہو وہ مجھ سے پوچھے بغیر مجھے بتائے بغیر نہیں لیا جاتا۔ ”
17 اکتوبر 2020 کو ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے کہا
“جنرل باجوہ نے جس طرح اس حکومت کی مشکل وقت میں مدد کی ،ابھی کراچی میں مدد کی جب وہ بارشیں آرہی تھیں ،کرونا کے اندر پوری طرح مدد کی ،جب ملک میں پیسہ نہیں تھا تو دو سال پاکستانی فوج نے اپنے دفاعی بجٹ میں کمی کی کیوں کہ اُن کو فکر تھی کہ پاکستان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی میں فوج اور جنرل باجوہ ہمارے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ ”
بہت سے تجزیہ کار یہ رائے رکھتے ہیں کہ عمران خان صاحب اُس آرمی چیف پر جسے وہ اپنے دورِ حکومت میں جمہوریت پسند اور تعاون کرنے والی شخصیت کہتے رہے ہیں اب اُسی پر الزام لگا کر دراصل ایک دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر اثرانداز ہوسکیں لیکن ایسا ہونا اب ممکن نہیں بلکہ غالب امکان یہی ہے کہ پاکستان کے اس مضبوط ترین ادارے کو متنازع بنا کر وہ اسٹیبلشمنٹ کی رہی سہی حمایت بھی کھودیں گے ۔
میرا ماننا یہ ہے کہ عمران خان ایک بڑے لیڈر ہیں کیوں کہ وہ اپنی بات پر پوری طرح عمل پیرا ہیں کہ یوٹرن لینا ایک بڑے لیڈر کی نشانی ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں