عورتوں کی ہم جنس پرستی اور اسلامی ادب۔راشد یوسفزئی/قسط1

”غیر شادی شدہ ہم جنس پرست کی زیادہ سے زیادہ سزا دس کوڑے ہیں“۔
امام ابن حزم الظاہری الاندلسیؒ بحوالہء ”نزہة الالباب فی ما لا یوجد فی الکتاب“ از امام التفاشیؒ!

انگریزی ادب میں آسکر وائلڈ ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جسے نہ وکٹورین کہا جاتا ہے نہ جدید۔ وہ خود ایک جداگانہ کلاسک ہے۔ وائلڈ کا ہر جملہ ہیرے کی طرح قلمی اور چمکدار ہوتی ہے۔ ڈراموں اور شاعری کے علاوہ ایک ناول لکھا ہے، A Picture of The Dorian Gray جو کرارے دار انگریزی اسلوب کے طالبعلموں کے لۓ واجب التقلید ہے۔ خود انتہائی حسین تھا اور لارڈ ڈگلس کوینز بیری کے حسین ترین بیٹے لارڈ الفرڈ ڈگلس کے ساتھ ہم جنس پرستانہ تعلق کے بناء پر متہم ہوا اور الزم لڑکے کےوالد نے خود لگایا۔ عدالت نے وائلڈ کو ہم جنس پرستی کی سزا میں دو سال کے لۓ جیل بھیجا۔ رہائی پر تمام برطانیہ نے وائلڈ سے سوشل بائکاٹ کیا۔ بھوک، افلاس اور بھیک مانگتے ہوۓ فرانس اور برطانیہ کے بارڈر پر بھکاری کی حالت میں 1900ءمیں فوت ہوۓ۔ جہاں تیرہ سوسال بعد بھی مغربی دنیا کی تنگ نظری کی یہ حالت تھی وہاں عرب اسلامی دنیا میں ہزار سال قبل ہم جنس پرست ادب باقاعدہ اور مربوط شکل اختیار کر چکا تھا۔ نہ صرف جاحظ، علامہ بدرالدین عینی، ابن ہندو، علامہ تفاشی جیسے نابغے مردانہ ہم جنس پرستی پر علیحده کتابیں لکھ چکے تھے بلکہ عورتوں کی ہم جنس پرستی Lesbianism یا ”سحاق“ پر تیسری صدی ہجری میں ابوالعنبس السیمری نے مخصوص تصنیف ”کتاب السحاقات“ لکھی تھی!

ہم جنس پرستی اگر چہ جدید میڈیکل سائنس اور نفسیات کے مطابق نہ غیر فطری ہے نہ گمراہی، ایک صدی قبل ظاہراً مذموم ومعتوب ضرور تھی۔ اور یہ عتاب ”لواطت“ کے لفظ کی قوم لوط سے بیجا نسبت کی وجہ سے تھی۔ راقم کے خیال میں لواط کا تعلق ”لطاء“ سے ہے۔”لطاء کا معنی ہے چمٹ جانا۔ عربی محاورہ ہے ” لاط الشیء بقلبہ“ کسی چیز کا دل کے ساتھ چمٹ جانا اور عاشق کردینا۔”ہو الوط بقلبی“ میرا دل اس پہ فریفتہ ہوا۔ ”لاط قاضی فلانا بفلان“ قاضی کا کسی کو کسی سے نسباً وابستہ کرنا۔ ”لوطہ بالطیب“ خوشبو لگانا۔”استلاط الولد“ کسی کو بیٹا بنانا۔ مرورزمانہ اور لفظی ومعنوی مشابہت سے لواط اور لواطت معیوب معنوں میں مستعمل ہونے لگا۔عربی میں ہم جنس پرستی کے اصطلاحات کافی دلچسپ ہیں مگر یہ بحث پھر کبھی۔

عوامی عربی میں فاعل ہم جنس پرست(Active Agent) کو لائط، لوطی، ملوط کہتے ہیں۔ جبکہ مفعول ہم جنس پرست(Passive Agent) کو ”مئبون“ اور اس کے فعل کو ”اٗبنَ“ جبکہ مصر ومراکش میں”حاوی۔۔۔جمع حیوی’“ مستعمل ہےتاہم زیادہ معروف لفظ مخنث رہاہے۔

قران مجید میں ہم جنس پرستی کی کوئی سزا ذکرنہیں۔ مابعد کےروایات میں بھی کافی ابہام ہے۔ فقہاء بالکل متفق نہیں۔ جاحظ نے ”مفاخرہ“ میں خلیفہ اول ،عبداللہ ابن زبیر،عبداللہ ابن عمر اور ہشام بن عبدالملک سے مختلف روایات نقل کی ہیں۔ نویری نے ”النہایة“ میں ہم جنس پرستی کی تمام روایات اور فقہاء کی آراء جامعیت کے ساتھ نقل کرنے کے بعد اپنی راۓ لکھی ہے” اقتلول الفاعل والمفعول بہ“۔ مگر یہ النویری کی اپنی راۓہے۔ منطق کی کتاب ”قطبی“ کے ہمارے استاد مولانا بحرالعلوم فرماتے تھے کہ ہم جنس پرستی کی اسلام میں کوئی سزا نہیں!

عربی دنیا میں ہم جنس پرستی قبل ازاسلام رائج تھی جس کا ثبوت امام المیدانی کے منقول محاورے ہیں۔”الواط من“ میدانی نے ایک محاورہ نقل یا ہے” الواط من الدٌب“ اگر چہ دٗب ریچھ کو کہا جاتا ہے تاہم یہاں دٗب اسم معرفہ ہے۔ جاہلی روایات میں ذوانواس بادشاہ نے ذوشناطر کو اس لئے قتل کیاکہ وہ اس کی جنسی فرمائشوں سے تنگ آگیاتھا۔تاہم عربی ہم جنسی ادب کا باقاعدہ آغاز عربی نثر کے شہنشاه اور امام المعقولات جاحظ سے ہوتی ہے۔جاحظ کا پہلا رسالہ ”مفاخرت الجوارء والغلمان“ اور دوسرا تصنیف ” الرسالہ فی تفضیل البطن علی الظہر“ دونوں ہم جنس پرستی پرہیں۔ عربی دان حضرات موخرالذکر کے رنگین نام سے نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔

لڑکیوں کے شائقین کی لڑکوں کے شائقین پر برتری۔
یہ رسالہ عربی مزاحیہ نثر کا اعلی ترین نمونہ ہے۔جدید میڈیکل سائنس نے ہم جنس پرستی کا فطری عمل ہونے کا یہ ثبوت بھی دیا ہے کہ یہ عمل جانوروں میں بھی ہے۔ جاحظ نے صدیوں قبل ”کتاب الحیوان“ میں ایک ضرب المثل نقل کیاہے ”الواط من الدیک“ مرغ سے زیادہ ہم جنس پرست۔ اگر چہ دیک آدمی کا نام بھی ہوسکتاہے ۔ صفحہ ٢٠٤ پر جاحظ نے بصرہ کی ایک ”فرس مئبون“ یا مفعول گھوڑے کی کہانی نقل کی ہے جو نرگدھوں، خچروں اور گھوڑوں کے پیچھے پڑھ کے اپنی ہم جنسی تسکین کرتاتھا۔ مسعودی نے مروج الذہب میں ایک جانور ”عضار“ کا نام لکھاہے جو سامنے آنے والے پر حملہ آور ہوتا جس کے بعد وہ بندہ مئبونن بن کے مرجاتا۔(کمزور اردو کی بناء پہ راقم اس لفظ کے ترجمہ سےقاصرہے)

Advertisements
julia rana solicitors

جاحظ نے ”مفاخرہ“ میں قبیلہ بنی خزاعہ کے ایک مولی، مامون بن زید بن ثوران کے بطورِ لوطی ضرب المثل بننے کا واقعہ نقل کیا ہے۔ جس کو قاضی و انتظامیہ نے کوئی سزا نہ دی۔ جاحظ نے ایک بچہ باز اور عام جنسی ذوق والے کامناظرہ بھی نقل کیاہے جس کے آخر میں بچہ باز بحث سمیٹتے ہوۓ کہتا ہے” عورتوں کی محبت پرانے عرب بدوؤں اور اجڈ احمق تہذيب کی علامت ہے۔ جو لوگ اس دنیا اور اعلی تہذیب یافتہ معاشرے کے لطیف احساسات کے ادراک کےقابل نہ ہوں وہ بچہ بازی کا مزہ کیا جانیں“(مفاخرہ۔ص١١٦)
جاری ہے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply