لکھنے والے اور عالمی دن/یاسر جواد

دنیا میں لکھاریوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستان لکھاریوں کا دن بلکہ زندگی اصل میں پبلشر مناتے ہیں، اور کئی نسلوں تک مناتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اپنے شعبے کے سوا ہر چیز پر بات کرنے کا رواج ہے، ٹیچرز کبھی محکمہ تعلیم کی خامیوں پر بات نہیں کرتے، صحت کے شعبے سے وابستہ لوگوں کو اپنے مسائل پر بات کرنے کی زحمت نہیں ہوتی، صحافی اپنی تنظیموں کی خبریں نہیں دیتے۔ دراصل اِس طرح اُنھیں قبیلے سے باہر ہو جانے یا نوکری کھونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ اور وہ خود بھی تو اُس نظام کا حصہ ہی ہوتے ہیں۔

ایک مرتبہ مجھے لاہور پریس کلب نے اپنی لائبریری کی تقریب میں بلایا کیونکہ کبھی میں بھی صحافی ہوا کرتا تھا۔ پریس کلب کا صدر اور دیگر عہدے دار بھی موجود تھے۔ نئی نمبر لگی کتب رَیکوں میں لگی ہوئی تھیں اور تقریباً الماریوں پر تالے لگے تھے۔ مجھے بھی اظہار خیال کرنے کو کہا گیا۔ میں نے کہا کہ اگر کتابوں کی نمبرنگ کرنا ہی تھی تو کم ازکم کسی ریٹائرڈ لائبریریئن کو ہی بلوا لیتے۔ اب 101 سے لے کر 200 تک نمبر لگے ہیں اور بالفرض مستنصر صاحب کی کتب 101 تا 105 ہیں اور اُن کا نیا ناول آ جاتا ہے تو وہ کہاں رکھیں گے؟ پریس کلب کے صدر نے میری بات کاٹ کر تالیاں بجوانے کو ترجیح دی۔ اُس کے بعد پھر کبھی مجھے ایسی کسی تقریب میں نہ بلوایا گیا۔ سو زیادہ تر لوگ خاموش رہتے ہیں یا واہ وا کر کے اُٹھ جاتے ہیں۔

قلم قبیلے کے لوگوں کی نوکریاں نہیں ہوتیں، مگر وہ اپنے شعبے کے متعلق کبھی کھل کر بات نہیں کرتے، کیونکہ وہ خود بھی لپیٹ میں آتے ہیں۔ لاہور کے نجی پبلشرز اور کچھ اسلام آبادی سرکاری اداروں کا ارتقا میرے سامنے ہوا ہے۔ مجھے لکھاریوں کے عالمی دن کے موقع  پر کہنا پڑے گا کہ پاکستان میں لکھاریوں کے کوئی حقوق نہیں۔ وہ پبلشنگ ہاؤسز پر بندھے ہوئے صدقے کے بکرے ہیں۔ جو ایک دو فیصد بہت بکنے والے لکھاری ہیں، اُن کی زندگی ٹیلی وژن اور ریڈیو کے سہارے کی وجہ سے آسان ہوئی۔ متعدد تو ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا اُن کے گرو تھے۔ 90 فیصد لکھاری پیسے دے کر کتاب چھپواتے ہیں اور رائلٹی کے تصور تک سے واقف نہیں۔ اگر کوئی رائلٹی کا تقاضا کرے تو مسترد ہو جاتا ہے، یا پبلشر کی ناراضگی مول لینا پڑتی ہے، بلکہ وہ بدتمیزی پہ بھی اُتر سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چند ایک لکھاریوں کو ہر سال انعامات اور تمغے ملتے ہیں۔ وہ کیسے ملتے ہیں؟ اِس کا اندازہ آپ بخوبی کر سکتے ہیں۔ اِس کے لیے Links کی ضرورت ہوتی ہے۔ کل کو خدانخواستہ مجھے کوئی انعام یا تمغہ ملا تو مجھ سے نہ پوچھیے گا کہ کیسے ملا ! البتہ میں ضرور بتا سکوں گا کہ کیوں ملا؟ ہمارے زیادہ تر لکھاری دوسرے سوال کا جواب کبھی نہیں دے پاتے۔
(یہ باتیں شکوہ نہیں حقائق ہیں۔ شکوہ ایک اخلاقی سی چیز ہے، اور دنیا اخلاق نہیں قانون پر چلتی ہے )

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply