ادب محبت کا ایندھن ہے‎/عفیفہ شہوار

ہمیں عام طور پر یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ ہم ایج آف آٹومیشن کے بچے ہیں۔ کبھی یہ اطلاع، کبھی طعنہ تو کبھی خوبی ہے۔ ادب کرنے کی روایت چاہے جتنی بھی آؤٹ ڈیٹڈ ہو، ہم سے نہیں چھوٹے گی، دلزیب روایات کی امین نسل صد شکر ہم سے ابھی زیادہ دور نہیں گئی، یہ ہمارے والدین ہیں اور وقتا فوقتاً ہمیں یاد بھی دلاتے ہیں کہ ہم جہاں بھی چلے جائیں اور جتنے بھی بدل جائیں مگر کچھ چیزیں ہماری پہچان ہیں اور اپنی پہچان کو نہیں کھونا ہے۔

میں اکثر کہتی ہوں کہ ہم محبت کی پیداوار ہیں۔ ہمارے والدین کا رشتہ ازدواج ہی ان کے بزرگوں کے ادب کے سامنے سر تسلیمِ خم کا ثبوت ہے جنہوں نے اپنی اولاد میں اپنی زندگیاں یوں لگا دیں کہ وہ اپنے زمانے کے لئے ایک مثال بنے۔

شک کے موسموں میں پیدا ہونے والوں کا نصیب فقط پچھتاوے ہی ہوتے ہیں اور ان کو لگتا کہ ان کے حصے کی خوشیاں کوئی اور لے گیا ہے اور اس کیفیت میں ادب، لحاظ اور مروت کی ہر حد کو پار کر جاتے ہیں اور یہ صورتحال ہماری زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ہے مگر آجکل سیاست اور سوشل میڈیا اس کی زد میں کچھ زیادہ ہیں۔

ہماری دلکش روایات کہ بڑوں کے سامنے اونچی آواز سے بات نہیں کرنی، اپنی بات کو کسی ایسے طریقے سے منوانا ہے کہ ان کی طبیعت پہ گراں نہ گزرے، بیٹی سب کی بیٹی ہے، کسی بڑے کے سامنے اپنی بات سے پیچھے ہٹ جانا ہے، کوئی غیر اخلاقی عادت پڑ گئی ہے تو اس کو اپنے بڑوں سے چھپانا ہے، اپنی غلطیوں پہ نہیں اکڑتے، بڑوں کے سامنے وہ بات جو صحیح ہونے کے باوجود آپ کو پسند نہیں کو وقتی طور پہ اختیار کر لینا ہے وغیرہ وغیرہ کو بر بار ترویج کی ضرورت ہے۔

جب یہ رکھ رکھاؤ والدین اور اولاد میں ہوتا ہے تو یہ تربیت کہلاتا ہے، بہن بھائیوں میں ہوتا ہے تو اٹوٹ تعلق، میاں بیوی میں ہوتا ہے تو قیمت بن جاتا ہے ان دو لوگوں کی، یہ سوسائٹی مرد اور عورت کو اتنی ہی ویلیو دیتے ہیں جتنی وہ ایک دوسرے کو دے پاتے ہیں، یہ ایک ایسی تہذیب بنتا ہے جو آگے نسلوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ وہ راز ہے جو ایک ماں اپنی اولاد میں آئی کانٹیکٹ کے ذریعے ٹرانسفر کر لیتی ہے، یہی ادب جب ایک استاد اور شاگرد کے درمیان ہوتا ہے تو سیکھ کہلاتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل میرے ایک مینٹور انکل علی ارشد رانا نے مجھ سے کہا، “مگر یہ دو طرفہ ہوتا ہے”۔ یہ وہ نقطہ تھا جو اس سے پہلے میری نظر سے اوجھل تھا۔ جس طرح دو یا دو سے زیادہ انسانوں کے درمیان کوئی بھی معاملہ یک طرفہ نہیں ہوتا ٹھیک ویسے ہی ادب بھی دو طرفہ ہے اور نہایت احتیاط طلب بھی جس کی تفصیل ایک ہی نشست میں میرے لئے ہرگز ممکن نہیں۔ بس اتنا کہوں گی محبت زندگی کا ایندھن ہے جو کہ صرف اور صرف ادب ہی سے تخلیق پاتی ہے اور یہ راز انسانی تاریخ کے اول روز ہی سے معاملات زندگی میں جگہ جگہ بکھرا پڑا ہے اور توجہ چاہتا ہے۔

یہ نہ تو سوال کی اجازت دیتا ہے اور نہ تنقید کی کیوں کہ جہاں یہ دو چیزیں ہوں وہاں محبت مفقود ہو جاتی اور جہاں محبت نہ ہو وہاں بچتا ہی کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک مشینی یا روبوٹک لائف؟ ہاں مگر ادب کی ضرورت کہاں کہاں پر ہے، اس دائرے کا تعین خود ہم ہی کر سکتے، کوئی دوسرا نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply