اگلی نسل کی دنیا (2) ۔ آبادی/وہاراامباکر

ڈیموگرافی آبادی کا شماریاتی علم ہے۔ مختلف آبادیاں کہاں بڑھیں گی، کہاں سے نقل و حرکت کریں گی۔ اس میں پیدائش کی شرح، آمدنی، عمر کا سٹرکچر، نسل اور آبادی کی نقل و حرکت شامل ہے۔ اور یہ مستقبل کو شکل دینے والی پہلی فورس ہے۔ ابھی کے لئے اس کے سب سے بنیادی عدد دیکھ لیتے ہیں۔ یہ دنیا میں انسانوں کی تعداد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے بارہ ہزار سال قبل زراعت کی ایجاد سے پہلے، ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں دس لاکھ انسان بستے تھے۔ (یہ اتنی آبادی ہے جتنی آج کوئٹہ شہر کی)۔ لوگ چھوٹے قبائل کی شکل میں خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے۔ یہاں سے بارہ ہزار سال بعد تقریباً سن 1800 میں ہماری تعداد ایک ارب ہوئی۔ اور پھر چل سو چل۔
ہمارا دوسرا ارب 1930 میں مکمل ہوا۔ جو اس سے پچھلے بارہ ہزار سال میں ہوا تھا، اب صرف 130 سال میں۔ یہ وہ وقت تھا جب علامہ اقبال نے ہندوستان میں الگ ریاست کے قیام کا خیال پیش کیا تھا۔ جرمنی کے انتخابات میں نازی پارٹی نے حیران کن طور پر کامیابی حاصل کی تھی۔ میرے دادا اپنی تعلیم مکمل کر رہے تھے۔
ہم تین ارب اس سے صرف تیس سال بعد 1960 میں ہوئے۔ اس وقت اسلام آباد کا نام تجویز کیا گیا تھا۔ پہلی بار سیٹلائیٹ بھیجے گئے تھے اور میرے والد صاحب زیرِ تعلیم تھے۔
چوتھا ارب مکمل ہونے میں محض پندرہ سال لگے۔ یہ 1975 تھا اور ان چار ارب میں میں بھی شامل تھا۔ خمیر روج نے کمبوڈیا کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ پاکستان نے افغانستان کی طرف سے ہونے والی کمیونسٹ یلغار کو روکنے کے لئے پہلی بار افغانستان میں عملی کارروائی پنج شیر کے ایک سٹوڈنٹ اور جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے احمد شاہ مسعود کی افغان حکومت کے خلاف وادی سے اٹھنے والی بغاوت میں مدد سے کی تھی۔
ہمارا پانچواں ارب 1987 میں ہوا۔ یہ صرف بارہ سال میں ہی ہو گیا۔ ریگن نے گورباچوف کو دیوارِ برلن گرانے کا کہا تھا۔ سوویت یونین نے افغانستان سے انخلا کا اعلان کر دیا تھا اور سوویت کمیونسٹ تجربہ آخری سانسوں پر تھا۔ پاکستان میں پہلی بار کرکٹ ورلڈ کپ منعقد ہوا تھا جس میں ٹیم سیمی فائنل تک پہنچی تھی۔ اس وقت میں زیرِ تعلیم تھا۔
ہمارا چھٹا ارب 1999 میں آ گیا۔ یہ بہت پرانی تاریخ نہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون عام ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان میں مارشل لاء لگا تھا۔ نئی صدی کی آمد کی خوشی اور Y2K کا خوف بیک وقت موجود تھا۔
ساتواں ارب 2011 میں آ گیا۔ اور تمام پڑھنے والوں کے لئے یہ سنگِ میل تو یادداشت میں تازہ ہو گا۔
ایک ارب انسانوں کے اضافہ کے لئے لگنے والا وقت بارہ ہزار سال سے کم ہو کر بارہ سال تک رہ گیا تھا۔
آبادی بڑھنے کی شرح میں ہونے والی کچھ کمی کا مطلب صرف یہ ہے کہ آٹھواں ارب شاید سولہ سال لے جائے، لیکن یہ اضافہ اس قدر تیز ہے کہ مستقبل کی کوئی پیشگوئی اس کو نظرانداز کر کے نہیں کی جا سکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بیسویں صدی میں آبادی بڑھنے کی رفتار اتنی تیز کیوں ہو گئی؟ اس سے پہلے ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اور مستقبل میں یہ کیا رہے گا؟
ایک شرح لوگوں کے دنیا میں آنے کی ہے (شرحِ پیدائش) اور ایک شرح دنیا سے جانے کی (شرحِ اموات)۔ جب دونوں برابر ہوں تو آبادی ایک سطح تک رہتی ہے۔ ان میں فرق آ جائے تو اضافہ یا کمی ہونے لگتی ہے۔ اور ایک بار یہ کم یا زیادہ ہو جائیں تو وہ آبادی اگلی سطح بن جائے گی، خواہ شرح میں اس فرق کو ختم کر بھی لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ابتدائی برسوں سے لے کر انیسویں صدی تک شرحِ پیدائش اور شرحِ اموات، ان دونوں کی اوسط بلند تھی۔ ایک خاتون کے اوسط بچے آج کے مقابلے میں زیادہ ہوتے تھے لیکن ان کے بڑھاپے تک پہنچنے کا امکان بھی کم تھا۔ صنعتی دور سے قبل قحط، جنگ اور بیماریاں شرحِ اموات کو بلند رکھتی تھیں۔ نتیجے میں، عالمی آبادی کے بڑھنے کی رفتار زیادہ نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیسویں صدی کے آخر میں یہ تبدیل ہونے لگا۔ مغربی یورپ، شمالی امریکہ اور جاپان میں خوراک کی پیداوار اور تقسیم میں مشینوں کی آمد نے قحط سے ہونے والی اموات کم کر دیں۔ مضبوط مرکزی حکومتوں کے ابھرنے کا مطلب یہ نکلا کہ مقامی جنگوں کی تعداد کم ہو گئی۔ نئے میڈیکل پروسیجر، ادویات اور ہائی جین نے شرحِ اموات گرانا شروع کر دی۔ لیکن شرحِ پیدائش میں کمی ہونے کی رفتار کم تھی۔ کلچرل توقعات اور معمولات آسانی سے نہیں بدلتے۔ انسانی آبادی کا ٹیک آف ہو گیا۔ 1950 میں نیویارک پہلا شہر تھا جہاں آبادی ایک کروڑ تک پہنچ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ صرف صنعتی دور مشین اور ادویات لے کر آیا بلکہ اس کی وجہ سے لوگوں نے شہروں کا رخ کیا۔ آہستہ آہستہ لوگ چیزیں خود اگانے یا بنانے کے بجائے اشیا خریدنے لگے۔ گھروں کی قیمت چڑھنے لگی، معیشت بڑھنے لگی۔ خواتین زیادہ تعداد میں کالج اور دفاتر کا رخ کرنے لگیں۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ بچوں کی تعداد گرنے لگی۔ خاندانوں کے سائز سکڑنے لگے۔ جب یہ اتنی کم ہو جائے کہ پیدائش اور موت کی شرح برابر ہو جائے تو آبادی میں اضافہ ہونا بند جائے گا۔ صنعتی معاشرے اس سائیکل سے گزر چکے ہیں۔ اور اب چھوٹے، غریب، کثرت الاولاد اور اموات کی بھرمار کے بجائے یہ بڑے، امیر، طویل عمر رکھنے والے اور کم بچوں کے خاندانوں والی سوسائٹی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
واقعات کی یہ زنجیر، جس میں آبادی میں پہلے تیز اضافہ ہوتا ہے، پھر یہ جدت کی قوتوں کی وجہ سے مستحکم ہوتا ہے “demographic transition” کا عمل کہلاتا ہے اور یہ ڈیموگرافکس کے علم کا کلیدی تصور ہے۔
اور اس میں آبادی کی رفتار کے حوالے سے دو الگ تبدیلیاں ہیں۔ شرحِ اموات میں کمی اور شرحِ پیدائش میں کمی۔ یہ اکٹھی نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ میڈیسن اور خوراک کی پیداوار میں ٹیکنالوجی کی جدت کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں۔ اس وجہ سے شرحِ اموات تیزی سے گرتی ہے۔ لیکن شرحِ پیدائش کی کمی کے وجہ تعلیم میں اضافہ، خواتین کو پاور دینا، شہری طرزِ زندگی، فیملی پلاننگ کے طریقوں تک رسائی، چھوٹی فیملی کی سماجی قبولیت اور دوسرے کلچرل تبدیلیاں سست رفتار ہیں اور زیادہ وقت لیتی ہیں۔ اس کی وجہ سے تیز رفتار اضافہ اور پھر بڑھی ہوئی آبادی کی تعداد میں استحکام نظر آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی میں، ایک ڈیموگرافک ٹرانزیشن مکمل ہوئی لیکن ایک دوسری شروع ہوئی۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں اس تبدیلی میں 1750 سے 1950 کا عرصہ لگا۔ اس دوران یہاں آبادی میں بہت اضافہ ہوا جبکہ ایشیا اور افریقہ میں یہ اضافہ سست رفتار تھا۔ جب صنعتی ممالک نے اپنی ٹرانزیشن مکمل کر لی تو ان میں اضافے کی شرح صفر کے قریب آ چکی تھی۔
لیکن ترقی پذیر دنیا میں یہ سائیکل تاخیر سے شروع ہوا۔ ویکسین، اینٹی بائیوٹکس، ملیریا کی روک تھام جیسے اقدامات سے اموات تو بہت کم ہو چکیں لیکن پیدائش کی شرح میں کمی آہستہ ہے۔ کئی ممالک میں یہ ابھی کم ہونا بھی شروع نہیں ہوئی۔ اور یہاں پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔ کہ آیا یہ ہر جگہ پر یہ مغربی دنیا کی طرح ہی ہو گا یا نہیں۔ اگرچہ زیادہ تر جگہوں پر شرحِ پیدائش میں کمی ہو رہی ہے لیکن فرق ابھی بہت ہے۔ اور دوسری ڈیموگرافک ٹرانزیشن ختم ہونے میں وقت لے گی۔ اس لئے اگلی چند دہائیوں تک عالمی آبادی میں اضافہ جاری رہے گا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply