لاہور: اب کی طرح تب بھی لاہور تھا/یاسر جواد

آپ ماضی کے اُسی دور اور اُسی ماحول میں جا کر بسنا چاہتے ہیں جس میں پہلے نہ رہے ہوں۔ سو بیس تیس سال پہلے کے لاہور کے ناستلجیا میں مبتلا ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہم ’’زیادہ‘‘ بوسیدگی کا شکار ہو گئے ہیں، یہ بات درست ہے۔ لیکن ہم پہلے بھی کم نہیں تھے۔ پچھلے ستّر سال میں ہم ہر وقت ایک خاص طرح سے انحطاط زدہ تھے۔

لیاقت بلوچ اور قاضی غراتے اور دھاڑتے پھرتے تھے، عابد چودھری اور عاطف چودھری بسیں جلاتے پھرتے تھے، ویگنوں کے پیچھے مولوی لہولہان کے اشتہارات پینٹ سے لکھے ہوئے تھے، لاہور میوزیم میں کیمرے کا ٹکٹ الگ سے لگتا تھا، لائبریریوں میں بیس سے زیادہ فوٹوکاپیاں کروانے پر پابندی تھی، مال روڈ پر نہر کے کنارے واقعہ مدرسے کے لونڈے بس کا کرایہ نہیں دیتے تھے، والوو بس میں چڑھتی طالبات کے کولہوں پر ہاتھ پھیرے جاتے تھے اور وہ باقی سفر سراسیمگی کے علام میں بس کی اندرونی دیواروں پر لگے مقدس سٹیکروں کو پڑھتے ہوئے کرتی تھیں، رمضان میں ہسپتالوں کے باہر لگے خیمے روزہ خوروں کی جائے پناہ تھے، بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی، اخبار تنخواہیں نہیں دیتے تھے اور صحافی پریس کانفرنسوں میں ٹی شرٹس کی خاطر لڑتے تھے، یونیورسٹیوں میں ہراسانی اور جمعیت کی مقدس بدمعاشی جاری تھی، جیالے اور لیگیے اِسی طرح دشمن تھے جیسے آج لیگیے اور عمرانیے دشمن ہیں، سینما والے کِسنگ کے مناظر کاٹ دیتے تھے اور مون لائیٹ میں فُل پورن شو چلتا تھا، اولمپک دوڑ کی جھلکیوں میں لڑکیوں کو قریب اور سامنے سے نہیں دکھاتے تھے، فلسطین کے نام پر اِسی طرح چندہ اکٹھا ہوتا تھا، پنجاب زبان نافذ کروانے کے جلوسوں میں آج ہی کی طرح دو درجن لوگ ہوتے تھے، یہی چودھری اور زرداری اور شریف اپنے گزرنے کے لیے ٹریفک رکواتے تھے، ایسے ہی خواب تھے اور ایسی ہی ناکامیاں، ایسے ہی تقدس بھری باتوں سے دم بخود لوگ تھے، مولیاں نقلی مرچوں میں لتھیڑ کر بیچی جاتی تھیں، ہسپتالوں کے باہر مجبوراً آئے ہوئے رشتے دار لیٹے ہوتے تھے، بڑے اور چھوٹے کا فرق صرف پبلک ٹوائلٹ کی حد تک تھا، داتا صاحب نشئیوں کو پالتے تھے، آرٹسٹ آج کی طرح تب بھی بس نہر اور سڑکیں اور چوبارے پینٹ کرنے کا ہنر ہی دکھاتے تھے، نہ کہ آرٹ۔

ایک دوست انارکلی میں کتابیں دیکھتے ہوئے دُکان دار سے بحث کر بیٹھا اور کتاب بھی نہ خریدی۔ وہ کچھ کتابیں پھلانگ کر جانے لگا تو دُکان دار نے گالی دی، تکرار بڑھی تو دُکان دار نے اِس بنیاد پر اُسے پھینٹی لگا دی کہ فٹ پاتھ پر رکھی ہوئی کتب پر مقدس الفاظ لکھے تھے اور وہ گناہ کا مرتکب ہوا تھا۔ کیا اب بھی یہی نہیں ہو رہا؟ قبریں بدلی ہیں، عذاب نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بس تب کی نسبت لاہور کی آبادی تقریباً دُگنی ہو چکی ہے، لہٰذا خباثتیں اور ناکامیاں بھی دُگنی ہو گئی ہیں۔ لاہور آنے سے یا لاہور میں پیدا ہونے سے کوئی زندہ دل نہیں ہو جاتا۔ یہ بھی ’’غیور‘‘ کے ٹائٹل جیسی دغابازی ہے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply