ماہ رمضان کی رونقیں عروج پر ہیں بلکہ اس سال تو پچھلے سال کی نسبت کچھ زیادہ ہی اونچی پرواز پر ہیں ۔ جیسے ہی اس بابرکت مہینے کا آغاز ہوا تو بمشکل چار روزوں کے بعد ہی دھڑا دھڑ افطار پارٹیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو نصف رمضان کے بعد بوچھاڑ کی شکل اختیار کر گیا۔
یوں لگتا ہے کہ افطار ڈنرز پر کمیونٹی کے افراد کا آپس میں کانٹے دار مقابلہ لگ گیا ہے۔ ہر کسی کی کوشش ہے کہ وہ اس دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے لہٰذا ایک دن میں ، ایک ہی شہر کے مختلف حصوں میں دعوتیں ہو رہی ہیں ، جن میں سیاسی ، غیر سیاسی تجارتی، غیر تجارتی، سماجی غیر سماجی یعنی تمام قسم کے احباب بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ رمضان کی اصل روح تو یہ ہے کہ اس ماہ میں سکون اور خاموشی سے زیادہ سے زیادہ عبادت کی جائے اور اللہ سے روحانی رابطہ قائم کیا جائے ۔ مستحقین کی مدد اور زکوٰۃ و خیرات کی جائے۔ غرباء کو روزہ افطار کروایا جائے ۔ فلسطین کے جنگ زدہ مسلمانوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ دسترخوان سے ایک بوٹی بھی منہ میں ڈالنے کو دل نہیں چاہتا۔ بے شک وہاں کے لیے بہت زیادہ فنڈ ریزنگ ہو رہی ہے مگر اسرائیل کی طرف سے پابندیوں کی وجہ سے امداد بھی محدود ہی جا رہی ہے۔ اور ہم سب حسب استطاعت چندہ اور عطیات دے رہے ہیں.
مگر سوچیں دنیا کے ایک حصے میں جہاں آپ کے مسلمان بھائیوں ، بہنوں ، بچوں پر اس قدر ظلم و ستم ہو رہا ہو اور دوسرے حصے میں دعوتیں اور کھابے اڑاۓ جا رہے ہوں تو کیا یہ بے حسی کے زمرے میں نہیں آتا۔ کیا ہمیں ان کے احساس اور عزت کی خاطر ہی افطاریوں کی گرم جوشی ذرا کم نہیں کر دینی چاہیے تھی ۔ غزہ کے متاثرین کا دکھ کرتے ہوئے کچھ سادگی اختیار نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مگر سوسائٹی میں بے حسی اور خود غرضی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے ۔
زیادہ پرانی بات نہیں صرف چند برس پہلے تک خواتین کی گفتگو رمضان کے حوالے سے یہ ہوتی تھی کہ کتنے قرآن ختم کیے ، روزانہ کتنے پارے پڑھنے کی روٹین ہے کتنے نوافل ادا کیے وغیرہ، سبحان اللہ ، ان عبادات کے لیے وقت اس لیے مل جاتا تھا کہ افطاریوں پر جانے کی پریڈ نہیں ہوتی تھی کبھی کبھار قریبی دوستوں یا فیملی نے افطار پر مدعو کر لیا تو ٹھیک ہے مگر اس بار کی طرح بھیڑ چال نہیں تھی۔ ہم مسلمان لوگ مذہب کے بارے میں مہا جذباتی واقع ہوئے ہیں ہر منفی چیز کو مذہب کے پردے میں ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور مذہب کا گولڈن لیبل لگا کر اپنے مقاصد کا حصول کرتے ہیں۔
کچھ روز پہلے میں نے اسی موضوع پر ایک مختصر سٹیٹس لکھا تو لوگوں نے کہا کہ ہر خاص و عام کو افطار کروانے کا ثواب ہوتا ہے یعنی ایسا نہیں کہ صرف غریب لوگوں کو افطار کروایا جائے تو ہی آپ نیکی کمائیں گے۔ بالکل ٹھیک بات ہے ۔ رب مجھے معاف کرے ، نیتوں کا حال اللہ تعالی جانتا ہے، کہ آیا یہ افطار پارٹیز ثواب کی غرض سے ہو رہی ہیں یا دکھاوے اور تعلقات بڑھانے اور سیاست چمکانےکی غرض سے؟ حالانکہ اس کے لیے پورا سال پڑا ہے ۔ سیاسی اور کاروباری ایجنڈے باقی گیارہ ماہ میں پورے کریں ۔ رمضان کے مہینے کو کمرشلائز نہ کریں ۔ اس ماہ کو صرف عبادت کے لیے مختص کریں۔ مزاج میں صبر اور ٹھنڈا پن پیدا کریں۔ یہ پوسٹ پڑھ کر غصے میں نہ آئیں کیونکہ بہترین رویہ یہ ہے۔۔ Keep Calm in Ramadan
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں