کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ/یاسر جواد

چادر اور چار دیواری کا تقدس، آئین کی پاس داری، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت، مذہب میں انسانی حقوق، ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل، قانون کی بالادستی….. یہ سب بکواس جملے ہیں جو حکمران طبقے نے اخلاقی اور قانونی اصولوں کے طور پر رٹے ہوئے ہیں۔ اِن کا پرچار بھی وہی میڈیا پر اور دیگر ٹٹوؤں کے ذریعے سے کرتے رہتے ہیں۔
ہمارا میڈیا غالب طور پر پنجابی ہے۔ اور قوم کا مزاج، سوچنے کا انداز، ری ایکٹ کرنے کا طریقہ وغیرہ سبھی کچھ میں پنجابی پن سمایا ہوا ہے۔ ہم سے تقریریں کروا لیں۔ ایسی ایسی گھٹیا دلیل دیں گے کہ اگلے کے اوسان خطا ہو جائیں۔ فلسطین کی بات کرنے والوں سے کہیں گے کہ تمھیں کشمیر پر آواز اٹھاتے ہوئے موت پڑتی ہے؟ بلوچستان کا ذکر آئے گا تو فلسطین کی بات کریں گے۔ وہ ہرگز نہیں بتائیں گے کہ فلسطین کی بات ہم کیوں اور کس حیثیت میں کریں۔
پنجابی ایک زندہ مزاج اور ہنسنے کھیلنے والی قوم یا گروہ ہیں۔ اِنھیں تماشا چاہیے، نظارہ چاہیے۔ مینارِ پاکستان پر عائشہ کو چپے دینے ہوں، یا موٹر وے ریپ کیس کا چسکا لینا ہو، دریائے راوی پر سیلاب دیکھنا ہو یا نہر کے پل تلے پھنسی ہوئی بھینسوں کا نظارہ کرنا ہے۔ بس اِسے تماشا چاہیے۔ یہ تماشوں کا ہی ایک سلسلہ ہی ہے جو ہمارا اپنی ہستی کو محسوس کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ شادی پر کھانا ’’کھول دیں،‘‘ کسی کی امی کو سرکاری ہسپتال میں غلط ٹیکہ لگ جائے، لاہور دا پاوا مل جائے، قادری اور عمران کے پیروکار پارلیمنٹ لاجز کے باہر ہگ رہے ہوں، مُلاں پولیس والوں کو پیٹ رہے ہوں۔ سب چلے گا۔ لیاقت علی ایڈووکیٹ صاحب نے کل ٹھیک کہا کہ پنجاب خود ایک مسئلہ ہے، اِس نے کیا مسئلے حل کرنے ہیں؟ زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پنجابی جواب میں خود کو مظلوم ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں مرنے والے پنجابی مزدوروں کا ذکر کر رہے ہیں۔ احمق! قاتل سب کے ایک ہیں۔ اور وہ اِسی پنجابی ذہنیت کی وجہ سے کامیاب ہیں۔ (یاد رہے کہ عمران کا قلعہ بھی پنجاب ہی ہے)
یاد رکھنا چاہیے کہ ہم کوئی بھی ہوں، ہم سب ’’ایک سنسان حجرے کی رات کی آرزو ہیں‘‘ ہماری کسی سے لڑائی نہیں، ہم پنجابی ہیں۔ بلوچ مزاحمت کر رہے ہیں، اُنھیں کرنے دیں۔ جی چاہتا ہے تو تماشے کو انجوائے کریں۔ جلد ہی ہم وہ بن جائیں گے جسے ن م راشد نے ’’کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ‘‘ کہا تھا۔
پنجابی قوم پرست جس انگریز سامراج کو روتے ہیں، اُنھیں اب شعور تک نہیں رہا کہ وہ سامراج اُن کے اندر تماشا بازی، بیہودگی، ساتھی اقوام کے تمسخر اور پاور گیم کا حصہ بن کر رہنے کی آرزوئیں بہت گہرائی تک سمو گیا ہے۔ بلوچ لڑکیوں کے کپڑے پھاڑا جانا بھی پنجابیوں کے لیے محض ایک تماشا ہے۔ ماہرنگ بلوچ کوئی تصویر تلاش نہیں کر پائیں گے، تو اُس کے سکول سرٹیفیکیٹس میں سے کوئی نقطہ نکالیں گے۔ ورنہ فوٹوشاپ زندہ باد۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply