کیا غیر فطری فعل غیر فطری ہے؟-یاسر جواد

ہمارے اخبارات نے بہت سی لسانی دھوکے بازیوں کی بنیاد رکھی ہے۔ اِن میں زیادہ حصّہ دائیں بازو کے موقع پرست ایڈیٹروں اور اخبارات کا خصوصی حصّہ رہا ہے۔ ان میں سے چند دھوکے بازیاں یہ ہیں: قومی سلامتی، نظریاتی سرحدیں، شعائر، اخلاقی ذمہ داری، قومی غیرت، اور غیر فطری فعل۔ اصل میں آخری کے سِوا سبھی غیر فطری ہیں۔

غیر فطری فعل اصل میں حقیقی فطری اور خانقاہوں کی پیداوار ہے۔ اِس کی وجوہات دو تین ہیں: سماجی گھٹن، مذہبی پابندیاں، سماجی روایت اور تصوف۔ یہ بہت وسیع موضوع ہے، اور اِس کی طرف چند اشارے ہی کیے جا سکتے ہیں۔ ہماری اردو شاعری کی روایت چونکہ فارسی سے آئی، لہٰذا یہاں کبوتر بازی اور لونڈے بازی کی روایت بھی تھی۔ حافظ شیراز اور شیخ سعدی اِس روایت کے مبداء ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں پنجابی اور پختون روایت میں بھی خاصے شواہد ملتے ہیں۔ تونسہ شریف کے جنسی رجحانات سے ہم سب واقف ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان بھی پیچھے نہیں۔ لہٰذا ِاسے صرف مذہبی گھٹن سے منسوب کرنا سادہ لوحی ہے۔ کیا لاہور کے کالجوں کے ہاسٹلوں میں یہ ’’کھیل‘‘ نہیں پایا جاتا؟ پختونوں کے ہاں تو لڑکوں کی منڈیاں لگتی تھیں۔ بلبل اور لڑکا رکھنا فخر کی علامت تھی، اور ہے۔ حتیٰ کہ بیوی کے ساتھ بھی ’’غیر فطری فعل‘‘ غیر عام نہیں، حالانکہ ’’فطری‘‘ سہولت صرف دو انچ کے فاصلے پر ہوتی ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر خواجہ سرا اور لڑکے اب بھی موجود ہوتے ہیں۔

خواتین یا لڑکیوں کے ہاسٹلز میں رہنے والیاں بھی بتاتی ہیں۔ مگر آلۂ قتل ملوث نہیں ہوتا، لہٰذا ثابت بھی نہیں ہو سکتا۔ اور یہ کوئی نئے دور کی اور مغربی تہذیب سے آنے والی ’’برائی‘‘ بھی نہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید یا مامون الرشید نے دو لونڈیوں کو پکڑا جو ’’چپٹی کھیل رہی تھیں۔‘‘ ایک پہیلی ٹائپ کا مصرع بھی ہے: ’’آ سہیلی چپٹی کھیلیں۔‘‘ اور پیچھے جائیں (یعنی تاریخ میں پیچھے) تو قدیم یونان کا تقریباً ہر قابل ذکر نام اس علت میں مبتلا تھا۔ ساپفو (Sappho) اور امیزونز کے متعلق ہم جانتے ہیں۔ ہمیں سقراط، ارسطو، سکندر، بابر وغیرہ سبھی کا علم ہے۔ شمس تبریز ہو یا ایلن تورنگ، فلورنس نائٹنگیل ہو یا ایلیانور روزویلٹ، مائیکل جیکسن ہو یا شاہ حسین لاہور، سینٹ آگسٹائن ہو یا لیونارڈو دا ونچی، میر تقی ہوں یا راک ہڈسن، نیرو ہو یا بابر، سبھی اِس ’’غیر فطری‘‘ علت میں محو رہے۔ اور محمود و ایاز کلاس فیلو تو نہیں تھے۔

تصوف میں اِس کی خاص افادیت ہے: چونکہ دنیا فانی ہے، اِس سے تعلق بنانا غلط ہے، اور عورت کے ساتھ جنسی تعلق کے باعث اولاد پیدا ہوتی ہے اور بچوں کے باعث فانی دنیا کے ساتھ تعلق جڑ جاتا ہے، لہٰذا لونڈے بازی احسن قرار پائی۔ کیونکہ یہ قطعی فطری ہے۔اور ہر فطری چیز مہذب نہیں ہوتی۔ تہذیب فطرت کے خلاف لڑنے کا عمل ہے۔ اِس عمل میں آپ مختلف فطری جذبوں کو منظم اور منضبط کرتے ہیں، محض پابندیاں نہیں لگاتے۔ مثلاً شادیوں کے حوالے سے ہر تہذیب اور معاشرے کے اپنے قواعد ہیں۔ مسیحیوں کی نظر میں ہم اپنی تایا/چچا زاد بہنوں سے نکاح کرتے ہیں۔ بائبل میں میرا بھائی اور میرا محبوب ہم معنی ہیں۔

سو ضروری نہیں کہ ہر چیز کو مذہبی گھٹن کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔ آپ LGBTIQ کی بات کر سکتے ہیں تو جاہل فطرت پسندوں کی کیوں نہیں؟ البتہ قابلِ اعتراض اور مجرمانہ بات بدسلوکی ہے۔ اور وہ تب ہوتی ہے جب آپ رجحانات کو نکاسی کی راہ دینے کی بجائے محض دبا کر بیٹھ جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(نوٹ: سب کچھ مُلاؤں کے کھاتے میں ڈال دینا ویسا ہی ہے جیسے وہ ساری برائیوں کو سیکولر ازم کے کھاتے میں ڈالتے ہیں)۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply