جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ /چندریان تھری (11)-حامد عتیق سرور

رقبے میں خود سے چار گنا بڑے ، آبادی میں ساڑھے پانچ گنا زیادہ ، قومی آمدن میں دس گنا بیش اور فی کس آمدن میں 60 فی صد زائد والے بھارت کے ساتھ ہم پچھلے پچھتر سال خوب لڑے ہیں ۔ کرکٹ سے لے کر ایٹم بم اور میزائل ٹیکنالوجی تک ہر چیز میں برابری کی ۔پاکستان دفاعی اخراجات میں بھارت کے خرچ سے کئی گنا کم ہونے کے باوجود فوج ، ٹینک ، جنگی ہوائی جہاز ، ٹینک ، آبدوز وغیرہ میں ہم بھارت کے اعداد و شمار کے نصف سے کچھ زائد ہی ہیں ۔ یہ الگ بات کہ یہ سب منزلیں طے کرتے ہوئے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کوئی دس ارب ڈالر ہیں اور بھارت کے پانچ سو ارب سے زائد ۔ ہماری برآمدات وہی پچیس سے پینتیس ارب ڈالر کے درمیان ہیں اور بھارت کی اس سے بیس گنا زائد۔ یہی وجہ ہے کہ 1974 کے بھارتی ایٹمی دھماکے پر تو ہمارے اس وقت کے وزیراعظم نے گھاس کھا لینے کا عزم کر لیا تھا مگر اب ISRO vs SUPARCO جنگ میں ہم نے بھارت کو چاند پر پہنچنے پر مبارکباد دینے پر ہی اکتفا کیا ہے ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم ہند سے لے کر آج تک بھارت نے اپنے اتنے قد کاٹھ اور جسامت کے باوجود پاکستان کے ساتھ بڑا پن دکھانے کی بجائے اپنے سے کئی گنا چھوٹے ملک کے ساتھ دشمنی اور نفرت پالنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں چھوڑی ۔ ان کے ہاں انتخابات میں پاکستان مخالفت کارڈ کم از کم شمالی ہندوستان میں آج بھی کامیابی کا نسخہ ہے ۔ خزانے کی تقسیم ( جس پر گاندھی جی قتل ہوئے ) ، کشمیر ، آبی وسائل ، مشرقی پاکستان ، تمام بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی رکنیت اور قراردادوں کی مخالفت ، سندھ ،بلوچستان اور افغانستان میں پاکستان مخالف قوتوں کی مدد ، ہر چیز میں بھارتی حکومت ، سیاستدان ، میڈیا اور عوام پاکستان کو نشانے پر لئے بیٹھے ہیں ۔
پاکستانی کا دفاعی یا جارحانہ رویہ تو اپنی بقا کی جدوجہد سے منسلک کرنا ممکن ہے مگر بھارت کی پاکستان دشمنی کے رویے کو سمجھنا ازحد مشکل ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سال ایک اقلیتی حکومت کا بزور _ شمشیر ، ہندو اکثریت کو زیر _ نگوں رکھنے کا delayed response ہو سکتا ہے کہ پاکستان کا ان حکمرانوں کی legacy ہونے کا اعزاز تو ہم ابھی بھی اپنی درسی کتب میں روز پڑھاتے ہیں ۔
ایک پانچ ہزار سال پرانی تہذیب جب ایک ہزار سال تک اپنی تمام تر تہذیبی اساس کھو بیٹھتی ہے تو دوبارہ طاقت ملتے ہی اس کا رحجان اپنی so called عظمت رفتہ کی علامات کو دوبارہ revive کرنے کا ہوتا ہے ۔ بابری مسجد کا انہدام ، صوبوں اور شہروں کے نئے نام ، رگ وید اور رامائن میں پنڈتوں کی اصطلاحات والی زبان کا رواج اسی کا شاخسانہ ہے ۔ ہزار سال کی بیچارگی کا یہی غصہ شاید پاکستان کو گالی دینے یا نقصان پہنچانے کی مسلسل کوشش کا سبب ہے ۔
دوسری جانب اسی “عظمت _ رفتہ” کا دوبارہ حصول یا دوبارہ ہزار سالہ غلامی میں جانے کے خوف ، انگریز کے وقت میں ہندو تعلیمی اداروں اور ہندو سرمایہ داری اور لیڈر شپ کی صورت نمودار ہوتا ہے اور شاید اسی جذبے نے انہیں طب ، معاشیات ، فنون ، ریاضی اور سائینس میں وہ بڑے بڑے لوگ دئیے جن کے طفیل آج بھارت کا شمار دنیا کے اہم ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور اسی کی ایک نشانی چاند کے جنوب میں ترنگا لہراتی چاند گاڑی ہے ۔
بھارت سے ہماری مسابقت شروع تو تنگ آمد بجنگ آمد سے ہوئی تھی کہ بھارتی عوام نے اسے عارضی بندوبست سمجھا تھا اور لاہور اور سندھ چھوڑ جانے والے ہندوؤں کی وہ جنریشن بہت جلد اپنی جنم بھومیوں کو لوٹنا چاہتی تھی ۔مگر سردار ولبھ بھائی پٹیل اور نہرو کو یہ مکمل علم تھا کہ بھارت کی ترقی کے بڑے فیصلے، انگریز کے بنائے communal system کے تحت نہیں چل سکتے جہاں 75 فی صد اکثریت کو ہر اقدام اور قانون کے لئے 25 فی صد اقلیت کی ویٹو پاور کا سامنا کرنا پڑے۔ آج کے اعدادوشمار دیکھیں تو انگریز کے متحدہ ہندوستان( پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش ) کی کل آبادی میں 55 کروڑ مسلمان ہوتے اور قریب 110 کروڑ ہندو۔ یہ تیس پینتیس فیصد مسلم آبادی کل ہندوستان کے قریب چالیس (projected ) میں سے دس صوبوں میں اکثریت میں ہوتی اور ابھی تک وہاں پر حق_ حکمرانی ، احترام مذہب اور متناسب نمائندگی پر بحث چل رہی ہوتی ۔
بات کا مقصد یہ ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہونے کے باوجود ہم پر قبضہ کرکے اسے اکھنڈ بھارت کا حصہ نہیں بنانا چاہے گا کیونکہ متحدہ ہندوستان کی demography اس کی معاشی اور ترقیاتی پالیسی سے متصادم ہے ۔ بھارت کی پاکستان دشمنی ہمارے ملک کو کمزور رکھنے میں ہے نہ کہ اس پر قبضہ کرنے میں ۔ مشرقی اور مغربی جرمنی اس لئے مل گئے کہ ایک رنگ ، نسل ، مذہب کے لوگ مصنوعی طور پر اشتراکی اور استعماری نظام کے ذریعے تقسیم ہوئے تھے۔ دوسری جانب بھارت دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان پر مکمل فوجی قبضے کے بعد بھی تیرہ مئی 1972 کو اپنی تمام فوج اور لوگ بنگلہ دیش سے نکال کر لے گیا تھا۔
چاند پر پہنچنے والے بھارت کو اپنے میں بڑا پن پیدا کرنے اور دکھانے میں وقت لگے گا کہ اسے اس منافرت سے فوری طور پر کوئی خاص معاشی نقصان نہیں ہو رہا۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنے طور پر اس منافرت اور مسابقت سے بالاتر ہو کر اپنی ترقی کے راستے کو چن سکتا ہے یا نہیں ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ بھارت ہر بین الاقوامی فورم پر پاکستان مخالف لابنگ سے باز آجائے ؟ کیا پاکستان میں موجود بین الاقوامی کمپنیاں (نیسلے ، ٹویوٹا، سوزوکی ، پیپسی ) نسبتا” بڑے اور فیصلہ ساز جنوبی ایشیا دفاتر کے ماتحت آنا چاہیں گی یا مرکزی فیصلہ سازی سے دور فلپائن، تھائی لینڈ کے ذریعے پاکستان میں کاروبار کریں گی ؟ کیا پاکستانی صنعت کو ہندوستان سے منسلک value chains میں کبھی کوئی حصہ داری ملے گی یا ہم دور از کار جگہوں سے درآمدات اور برآمدات کرتے رہیں گے ۔ ہمیں بھارت سے دوستی نہیں چاہئیے اور نہ ہی اس سے دشمنی ختم کرنا چاہئیے مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اکثر باہم متحارب ملک صنعت ، تجارت اور کاروبار کو سیاسی مسائل سے الگ رکھتے ہیں ۔ ابھی یوکرین جنگ سے پہلے سارا یورپ اپ ایندھن روس سے لیا کرتا تھا اور ابھی بھی کچھ ملکوں میں یہ پریکٹس چل رہی ہے ۔ بنگلہ دیش بہت سی سرحدی جھڑپوں اور پانی کے تنازعات کے باوجود بھارت سے تجارت کر رہا ہے ۔ پاکستان کے بہترین مفاد میں کیا ہے اور کیا بھارت اپنی ازلی پاکستان دشمنی کے باوجود پاکستان کو اپنے ہاتھوں کبھی کوئی فائدہ پہنچنے دے گا ؟ اس بات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply