آکسیجن کی کمی سے مر گئے سارے شجر
گر اُدھر تھیں ٹہنیاں تو سب پتاور تھے ادھر
آبشاروں کی چھنک میں درد تھا شوخی نہ تھی
اور دریا زرد تھے، کہتے نہیں تھے کچھ مگر
کالے رسوں سے بنا تھا پیار کا اک پل جہاں
اب وہاں ہےگیٹ نفرت کا ،مگر بھولے بشر
پیار کی اس جھوٹی بیڑی سے چھڑا مکتی بھی دے
اے یقیں میرے مجھے،جانے بھی دے ،سر سے اُتر۔
بھوک کے تیشے نے توڑی اینٹ تو لرزی زمیں
اشک بوڑھی آنکھ سے ٹپکے تو پھر پہنچے کدھر
اس لیے مرنا ہے واجب، شہر کے سلطان پر
کتنے کنبے بھوک کے ہاتھوں گئے مرتی کے گھر
یا خدا اب نام لیوا ، تو نہیں، کوئی ترا
کس لیے ہے کھیل جاری، چھوڑ دے اب ، بس بھی کر
میں نے برسوں لفظ کے بوٹے کو سینچا خون سے
پر جہالت کی وبا نے کھا لیا ، سارا ثمر
اس طرف اندھی سیاست کا فسوں، اِک بے حیا
اس طرف ہے سادگی میری ، مرا سپنا،سفر!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں