کسان نے ماں کیوں بیچی؟۔۔سعید چیمہ

لیکن رحمتے تُو تو جانتی ہے کہ وہ زمین پُرکھوں کی نشانی ہے، میں اسے کیسے بیچ سکتا ہوں، اور یہ سبق خون کی طرح پُشتوں سے ہماری رگوں میں گردش کر رہا ہے کہ زمین تو ماں ہوتی ہے اور ماں کو کیسے بیچا جا سکتا ہے، یہ بات کرتے ہوئے اللہ دتے کی آواز لڑکھڑا رہی تھی، معلوم پڑتا تھا کہ آنکھیں بھی نم ہو رہی ہیں۔

آخر رحمتے بھی تو مجبور ہو کر اپنے شوہر کو مشورہ دے رہی تھی کہ زمین بیچ دو، یہ دوسری عید تھی جس پر  رحمتے اپنے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کو نئے کپڑے نہیں لے کر دے سکی تھی، اس کے بچے عید پر بھی ایسے گم صم تھے جیسے عمر سے پہلے ہی ان کے نحیف کاندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ آن پڑا ہو یا وہ یتیم ہوں جو زمانہ کے حوادث میں چکر کھا رہے ہوں، کتنی ہی خوشیاں تھیں جو اللہ دتے کے خاندان سے معاشی تنگی کی وجہ سے روٹھ گئی تھیں، وہ شادیوں میں جانے سے گریز کرتے، عیدوں اور شبراتوں پر بھی ان کے ہاں خوشیوں کی شہزادی کا گزر نہ ہوتا، بس زندگی گزاری جا رہی تھی

اللہ دتہ ایک کسان تھا جس کی ملکیت میں چناب کے کنارے پانچ ایکڑ زمین تھی،  خاندان کا گزر بسر انہی زمینوں پر ہوتا تھا، تین ایکڑ دھان اور گندم کی فصل کے لیے، ایک ایکڑ جانوروں کے چارے کے لیے جو اللہ دتے نے دودھ کے لیے پال رکھے تھے اور ایک ایکڑ سبزیوں کے لیے جو وہ خود بھی پکاتے اور کبھی شہر بیچ بھی آتے، سردیوں میں گوبھی، شلجم، پالک، میتھی، اور گاجر کا سالن ہی پکتا، گرمیوں میں سبزیاں تبدیل ہو جاتیں، دال وغیرہ تو مہینے میں ایک آدھ بار ہی پکتی اور گوشت تو شاید سال میں ایک مرتبہ، وہ بھی تب جب بقر عید کے موقعے پر کوئی سخی ان کے گھر دو چار بوٹیاں بھیج دیتا، دن تھے کہ پھرنے میں ہی نہیں آ رہے تھے، گزارہ پہلے بھی مشکل تھا مگر اب تو سیلاب نے جیسے اللہ دتے کی کمر ہی دوہری کر دی تھی، چناب میں ساون بھادوں کے مہینوں میں سیلاب کا خطرہ مچھروں کی طرح سر پر منڈلاتا رہتا ہے، سیلاب آیا اور اللہ دتے کی فصلوں کو تباہ کر گیا، سبزیاں بھی جاتی رہیں اور آدھے جانوروں کو بیماری کھا گئی، حکومت کی طرف سے نقصان کے ازالے کے لیے حکومت سے کچھ رقم بھی ملی، مگر اے سی میں بیٹھ کر دنیا کے مزے لوٹنے والوں کو کیا خبر کہ معمولی سی امداد سے کسان کے گھر کا چولھا نہیں جلتا، اس دنیا میں کسان کو شاید انسان نہیں سمجھا جاتا، پہلے جانوروں کو خوراک کو ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور اب شہری بابو کسانوں کو سمجھتے ہیں جو صرف پیداہی شہریوں کو خوراک مہیا کرنے کے لیے ہوتے ہیں، جن کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی، جن کا اپنے اوپر کوئی حق نہیں ہوتا، جن کے سینے میں دل و جگر نہیں ہوتا، جو احساسات سے عاری ہوتے ہیں، اس کسان کی قسمت شاید کبھو نہ بدلے گی، اس مخلوق کو ہمیشہ ذلیل کیا جائے گا، بابو لوگ اس کو ثواب سمجھتے ہیں کہ کسانوں کا دل کھول کر استخصال کیا جائے، کون سا قیامت کے دن اس بات پر پکڑ ہو گی۔

اولاد کی خوشی کے لیے تو والدین ایسی قربانی پیش کر دیں کہ چشمِ فلک ایسا نظارہ نہ دیکھے، اللہ دتے نے بھی اپنی زمین فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا، آخر والدین سے اپنے بچوں کے غم تو نہیں دیکھے جاتے، وہ صبح کا وقت تھا جب اللہ دتہ اپنی زمین پر سجدہ ریز ہوئے بلک رہا تھا، تڑپ رہا تھا، کہہ رہا تھا کہ وہ زمین جو مجھے ماں ایسی عزیز تھی، میں اس کو بیچ رہا ہوں، میں اپنی ماں کو بیچ رہاں ہوں، جب سجدے میں گرا اللہ دتہ تڑپ رہا تھا عین اسی لمحے قدسیوں کو حکم ہو رہا تھا میرا یہ بندہ جن حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے بلک رہا ہے ان کو بد بختوں کی لسٹ میں شامل کر دو۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریر کی دُم: درویش خود بھی کسان کا پسر ہے اور اس کہانی کو آپ سچ سمجھیے کہ گاؤں میں آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply