زیارتیں مکمل ہوئیں ،اور اب ہمیں واپس ہوٹل جانا تھا اور ارادہ تھا کہ کہیں سے کھجوریں لے لی جائیں ۔ میرا خیال فاروق قمر سے کھجوریں لینے کا تھا لیکن عبدالعلیم نے اپنے ایک اچھے دوست مکرم عمران کا تذکرہ کیا اور ساتھ ایک ” پنج ریال ” مال کا کہا اور خیال پیش کیا کہ خواتین کو اس مال پر اتار کر ہم کھجوریں لینے چلے جائیں ۔ بلاشبہ جیسے خواتین کے لیے ” شاپنگ ” سے بڑی تفریح کوئی نہیں اور اس سے بڑا ” مقصودِ زندگی ” کچھ نہیں ۔ ایسی پیشکش وہ منتر ہے کہ اس سے بڑا کوئی منتر یا شبد ایجاد نہیں ہوا کہ چہروں پر مسکراہٹ لا سکے ۔ میں نے عبدالعلیم کے اس خیال پر صاد کیا اور خواتین کو شاپنگ مال کے دروازے پر اتار کر ہم کھجوریں لینے نکل گئے ۔ ہمیں کچھ زیادہ دور نہیں جانا پڑا ۔ یہ مدینے کا ایک کھلا علاقہ تھا جہاں ہماری گاڑی ایک بڑے ” وئیر ہاؤس ” کے سامنے رکی ۔ عبدالعلیم نے ہارن بجایا تو گیٹ کھل گیا ۔ خاصا بڑا احاطہ تھا جس میں ایک طرف کھجوروں کے چند درخت بھی لگے تھے اور دوسری طرف ایک شیڈ کے نیچے بڑے کاونٹر دھرے تھے جن پر کھجوریں سجی تھیں۔ یہ کوئی باقاعدہ منڈی نہیں تھی بلکہ نجی گودام جان لیجیے ۔ ذرا آگے ایک وسیع ڈرائنگ روم تھا جہاں سعودی انداز میں بیٹھک کا انتظام کیا گیا تھا ۔ اس میں فرش پر قالین بچھا ہوتا ہے اور چہار طرف گاؤ تکیے لگے ہوتے ہیں ۔ اس زمینی نشست میں صوفوں کی نسبت بےتکلفی پائی جاتی ہے ۔ ہم ادھر بیٹھ گئے اور میزبان کا انتظار کرنے لگے ۔ کچھ ہی دیر میں برادر عمران آ گئے جو پاکستانی پنجاب سے تھے ۔ اُنہوں نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا ۔ یہ ان کی کرم فرمائی تھی کہ یوں دور تک نظر رکھتے تھے ۔ انہوں نے اول ہمیں قہوہ پیش کیا اور پھر کھانے کا اصرار کیا ۔ لیکن مجھے وقت کی قلت کا خیال تھا سو کھجوروں کی طرف جانے کی خواہش کی ۔ ان کے پاس ضرورت کی تمام اقسام موجود تھیں ۔ میں نے عجوہ ، مبروم اور سکری کا انتخاب کیا ۔ عجوہ خاصی اچھی مل گئی ۔ لیکن مجھے کھانے میں سکری زیادہ پسند ہے ۔ اس کی بھی کئی اقسام ہیں ، بعض نرم ہوتی ہیں لیکن جو سخت ہوتی ہے وہ بھی قدرت کا عجیب تحفہ ہے ۔ اتنی سخت جیسے کوئی اخروٹ ہو ، منہ میں جاتے ہی یوں ” حل ” ہو جاتی ہے کہ بس کچھ نہ پوچھیے ۔۔ اب کوئی دوست اس ” حل ” کو ہماری محبوب جماعت اسلامی سے ہرگز نسبت نہ دے ۔ اس کا ” حل ہونا” کچھ اور ہوتا ہے ۔
اب جب کھجوریں لے چکے تو اپنے میزبان سے رخصت چاہی ۔ سچی بات یہ ہے کہ برادر عمران نے مجھے بہت متاثر کیا ۔ پردیس میں اور خاص طور پر حجاز میں اپنے وطن سے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ، انسان مسلسل مہمانداری سے کبھی تھک بھی جاتا ہے لیکن میرے اس سفر میں میزبان مجھے مسلسل حیران کر رہے تھے ۔ عبدالعلیم تو جو تھے وہ کمال تھے لیکن یہ عمران بھائی بھی اپنی مثال آپ نکلے ۔ مجھے ہر کھجور کی قسم کا نرخ بتاتے رہے اور میں پیک کرواتا رہا ۔ جب سب سامان لے چکا تو بل بنانے کا کہا ۔۔۔ بل بک پکڑی اس پر لکھنے لگے اقسام لکھیں ۔۔ اور وزن لکھا اور نرخ لکھنے کی بجائے جیسے دفتر لپیٹ دیا ۔۔۔ میں لاکھ کہتا رہا لیکن مان کے نہ دئیے ۔ یوں ایک مکرم دوست کا یہ خلوص بھرا تحفہ میرے ساتھ رہا اور دعائیں ان کے ساتھ ۔۔۔
ان سے نکلے تو واپس شاپنگ مال کو چلے ، میں جب مال میں گیا تو درجن بھر سے کچھ زیادہ بڑے بڑے ” شاپنگ بیگ ” میرے منتظر تھے ۔ جنہیں گاڑی کی ڈگی میں ٹھونسا اور جگہ کم پڑنے پر آگے سیٹ پر رکھا ۔ اور میں ” پنج ریال ، پنج ریال” کا ورد کرتے گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔۔
رانجھا رانجھا کردی نی میں اپے رانجھا ہوئی
فکر دامن گیر ہو گئی کہ جہاز پر وزن لے جانے کی تحدید ہوتی ہے اور جب میں پاکستان سے چلا تھا تب ہی پورے وزن سے نکلا تھا ۔
دو بجنے کو تھے اور ہمارے امیر سفر عبدالعلیم نے اپنے دفتر پہنچنا تھا جہاں ان کے اوقاتِ کار تین بجے شروع ہوتے ہیں ۔ ہم تیزی سے ہوٹل کی طرف نکلے ، خواتین کو ہوٹل میں اتارا کیونکہ عبدالعلیم کی ضد تھی کہ انہوں نے مجھے عثمانیہ ریسٹورنٹ سے کھانا ضرور کھلانا ہے سو ان کی ضد اور محبت بھرے اصرار کے سامنے مجھے ہارتے بنی اور ہم دونوں عثمانیہ ریسٹورنٹ کی طرف چل دیے ۔ عبدالعلیم نے وہاں بیٹھ کر کھانے کا بولا ، کچھ ہی دیر میں گرم گرم روٹیاں اور چکن مکھنی ہمارے سامنے تھا ۔ عبدالعلیم کا دعویٰ درست نکلا ، بلا شبہ کھانا نہایت عمدہ ذائقے کا تھا۔ کھانے کے بعد عبدالعلیم نے مجھے ہوٹل اتارا اور میں ان کے گلے لگ کر رخصت ہوا ۔ صبح آٹھ بجے سے سہ پہر تین بجے تک اس بندے نے میرا دل لے لیا ۔ اس نفسا نفسی کے دور میں کہ جب انسان کا انسان کی طرف دیکھنا بھی وقت کو ترازو کے پلڑے میں تول کر طے ہوتا ہے کوئی یوں آپ کے لیے نکلے ، وقت دے تو دل ممنونِ احسان ہو جاتا ہے ۔ میرے دل سے اس نوجوان کے لیے دعائیں نکل رہی تھی ۔
عصر کی نماز کا وقت ہونے کو تھا سو میں نے مسجد نبوی کے صحن میں نماز پڑھی اور ہوٹل میں آگیا کچھ آرام کیا مغرب کی نماز کے لیے نکل گئے ۔ ” خاتونِ اوّل” نے نسک کے ذریعے ریاض الجنہ کا وقت طے کیا ہوا تھا ، اور سو وہ تو ریاض الجنہ کو چلیں اور ساتھ ساتھ ہی بیٹی بھی چلی گئیں ۔۔ اور میں اب آزاد تھا ۔
عشاء کی نماز کے فوراً بعد مجھے مدینہ یونیورسٹی جانا تھا اور مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہو کر رات کا کھانا اور ملاقات فاروق قمر کے ہاں طے تھی ۔ مغرب کی نماز میں نے مسجد نبوی میں امام کے دائیں ہاتھ کے صحن میں کھلے آسمان تلے پڑھی۔ سب کچھ بہت خوشگوار تھا اور دل کا موسم بھی یوں تھا کہ جیسے برسوں کی پیاس کے بعد وصل کے رنگ کھلے ہوں ، جیسے محبوب سے مل کر چہرے پر گلاب رنگ اتر آتے ہیں یہی دل کا عالم تھا ۔ نماز پڑھ کر میں باہری دروازے کی طرف چل دیا کیونکہ شیخ سیف الرحمن نے ادھر ہی پہنچنا تھا
سیف الرحمن فیصل آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے طیبہ قرآن محل کے عمر فاروق ایوب کے یار غار ہیں ۔ انہوں نے ہی ان کو پابند کیا تھا کہ مجھے یونیورسٹی دکھا دیں ۔ مقررہ مقام پر ہماری ملاقات ہوئی اور ہم مدینہ یونیورسٹی کو چل دیے۔۔۔ میرا بنیادی مقصود صرف یونیورسٹی کو دیکھنا تھا اور کچھ لمحات کے لیے اس فضاء میں سانس لینا تھا ۔
کچھ ہی دیر میں ہم یونیورسٹی کے اندر تھے ۔ میں کہ متجسس نگاہوں سے اس یونیورسٹی کی وسیع و عریض عمارتوں اور مختلف بلاکس کو دیکھ رہا تھا ۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی کے بالکل آغاز میں ہمارے مرشد و مخدوم علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ادھر پڑھنے آئے تھے ۔ ان کے داخلے کی کہانی بھی عجیب ہے ۔ داخلے ہو چکے تھے اور ان کو شوق اٹھا کہ مدینے جانا ہے ۔۔ بذریعہ سڑک ایران کے راستے چل نکلے اور چلتے چلتے مدینے پہنچ گئے ۔ لمبا قصہ ہے مختصراً یہ کہ یہاں بیٹھ کر انہوں نے بنا کسی سفارش کے داخلہ کروا ہی لیا ۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آنے سے پہلے یہاں موجود ایک بزرگ پاکستانی شخصیت نے انہیں پوری یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ ان کے اس معاملے میں ممد و معاون رہیں گے ۔ لیکن جب آپ پہنچ گئے تو انہوں نے صاف منع کر دیا ۔ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کچھ دل برداشتہ تو ہوئے لیکن پھر کوشش میں لگ گئے حتیٰ کہ مقصود پا لیا ۔
وہاں ہم سب ایک سبزہ زار پر بیٹھ گئے ، گو یہ مصنوعی گھاس تھی لیکن در محبوب کی مٹی بھی خاک شفا ہوتی ہے سو مجھے سب کچھ اچھا لگ رہا تھا ۔ میں خود کو ساٹھ کی دہائی میں محسوس کر رہا تھا ، اور اپنی ذات و ہستی کو بھلا چکا تھا ۔
کچھ ہی دیر میں برادر علیم الدین یوسف اطلاع ملنے پر ملنے چلے آئے ۔ ان سے ہمارا تعارف فیس بک کے حوالے سے ہی تھا اور آپ کا تعلق ہندستان سے ہے ۔ بعض امور پر ہماری رائے میں صبح و شام کا فرق ہے ، لیکن باہمی احترام کے تقاضے پورے رہتے ہیں ۔ اس مجلس میں بھی اس حوالے سے ہماری کچھ دیر گفتگو رہی ۔ جو الجھنیں کتنے ہی دفاتر سیاہ کر کے نہ سلجھ پائیں وہ کیسے اس مختصر سی ملاقات میں طے ہوتیں ۔ البتہ یہ ہوا کہ عزیزم علیم الدین یوسف نے بہت اچھے انداز میں میری بات سنی ۔ اور میں ہی زیادہ بولتا رہا ۔ دوران گفتگو ہی عزیزم انعام اللہ چلے آئے ۔ کبھی لاہور کے نواح میں بیگم کوٹ کی بستی تھی جو مدت ہوئی اب لاہور شہر کا حصّہ ہے ۔ اس بستی میں ہماری جماعت کے بہت محترم عالم دین مولانا محمد ارشد بیگم کوٹی کی رہائش ہے ۔ انعام اللہ ان کے چھوٹے بیٹے ہیں اور بہت ہی محبت و احترام سے ملتے ہیں ۔ ان کے لیے بھی میرا یہاں بنا کسی پیشگی اطلاع کے آنا حیران کن تھا ۔ علیم الدین یوسف کے دوسرے بھائی کلیم الدین یوسف بھی ادھر ہی ہوتے ہیں ۔ان کو اطلاع ملی تو انہوں نے بھی خواہش کی کہ ملاقات ہو ، لیکن وہ فاصلے پر تھے سو یہ ممکن نہ ہوا ۔ مجھے بھی جانے کی جلدی تھی کہ فاروق قمر میرا انتظار کر رہے تھے ۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد میں نے ان احباب سے اجازت چاہی ۔ انعام اللہ نے اچھی سی گاڑی رکھی ہوئی تھی سو مجھے فاروق کے گھر چھوڑنے کی ذمےداری اپنے سر لی ۔ گو میں کہتا رہا کہ میں ٹیکسی پر نکل جاتا ہوں اور فاروق بھی مجھے لینے کے لیے تیار تھے ۔لیکن انعام اللہ نے بصد اصرار مجھے خود چھوڑا ۔ راستے بھی اسی گفتگو کا تسلسل رہا جو ہم علیم الدین یوسف کے ساتھ کر رہے تھے حتیٰ کہ فاروق قمر کا گھر آ گیا ۔
فاروق سے مجھے ملنے کا اشتیاق تھا کہ مدت ہوئی تھی فاروق کو نہیں دیکھا تھا ۔ اچھا یہ تو بتاتا چلوں کہ فاروق کون ہے ہمارے معروف خطاط جناب عبدالرشید قمر کو کون نہیں جانتا مدتوں خطاطی کے میدان میں ان کا طوطی بولتا رہا اور جیسے خطاطی کے بے تاج بادشاہ تھے ۔ آپ کا ہمارے والد مکرم سے گہرا تعلق تھا اسی نسبت سے ہم سے بھی رشتہ الفت استوار ہوا ۔پھر ہم نے جو تنظیمی زندگی گزاری اس حوالے سے ان سے تعلق یوں بنا کہ کئی بار جلسوں کے اشتہارات بنوائے ۔ والد مکرم کے حادثے کے بعد جب مکتبے پر بیٹھے تو کتابوں کے ٹائٹل کی خطاطی ان سے کرواتے ۔ یوں یہ تعلق قریباً چالیس برس کا ہونے کو ہے ۔ جب میں کسی کام سے ان کے پاس جا کے گھنٹوں بیٹھا رہتا اور بنا کام کے ہی اٹھ کے آ جاتا تو اس دوران فیصل اور فاروق دائیں بائیں ہی پھر رہے ہوتے ۔ ہمارے سامنے ہی بڑے ہوئے ۔ پھر پہلے فاروق اور پھر فیصل بھی سعودی عرب اٹھ آئے ۔ میرا خیال ہے کہ فاروق کو سعودی عرب آئے ہوئے بیس برس ہو گئے اور خود ابھی لڑکا تھا اور اب جوان بچے کا باپ ہے یعنی اتنے برس بعد ملاقات ہو رہی تھی جو کسی ہمدمِ دیرینہ سے ملاقات کا منظر نامہ تھی ۔ کتنی دیر تک بیٹھے ہم یادوں کی ٹھنڈی ہوئی راکھ سے گزری محبتوں کی تپش کو تلاش کرتے رہے ، اور ہر ہر یاد سے کوئی کرن پھوٹ رہی تھی ۔ جیسے آسمان پر آتش بازی ہوتی ہے ، کچھ دیر ہؤا میں رہتی ہے اور معدوم ہو جاتی ہے ۔ فاروق کے گھر ان کے ایک عرب مہمان بھی آئے بیٹھے تھے جس سبب مجلس میں بہت زیادہ بےتکلفی نہ تھی ۔ فاروق نے ان سے میرا تعارف کروایا ساتھ ” مرشد” احسان الہی ظہیر کا ذکر کیا تو بے اختیار اس عرب کے منہ سے نکلا ” اسد اہل سنہ ” کہ وہ تو اہل سنت کا شیر تھا۔
پھر دیر تک ان کی تعریف و تذکرہ کرتے رہے ۔ اس بیچ ان دونوں کی کوئی کاروباری گفتگو شروع ہو گئی ۔ وہ فاروق کے کھجوروں کے کام میں شریکِ کار تھے ۔ کچھ دیر میں کھانا آگیا فاروق نے بہت تکلف کیا ہوا تھا ۔ کھانا بہت عمدہ اور ذائقے والا تھا ، میں نے کچھ زیادہ ہی کھا لیا ۔ کچھ دیر میں وہ عرب مہمان رخصت ہوئے تو ہم نے کھل کر دکھ سکھ کیے ۔
رات کافی بیت چکی تھی مجھے صبح مکہ کا سفر کرنا تھا اور یہ خواہش بھی تھی کہ فجر کی نماز لازمی طور پر مسجد نبوی میں پڑھی جائے سو میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا۔ مجھے سامان کی پیکنگ کے لیے دو کارٹن چاہیے تھے فاروق مجھے چھوڑنے بھی جا رہے تھے اور راستے میں ان کے گودام سے یہ کارٹن لینا طے ہوئے ۔ ان کا کھجوروں کا وسیع کاروبار ہے ، ہم ان کے گودام والے محلے میں داخل ہوئے تو میں اسی راستے سے گزرا جس راستے سے دوپہر کو وادی عتیق میں داخل ہوئے تھے۔ پھر دوبارہ یہاں پر آنا اچھا لگا ، فاروق کا گودام خاصا وسیع تھا جس میں چاروں طرف لوہے کے ” ریکس ” میں کھجوریں رکھی ہوئی تھیں ۔ یہ کولڈ سٹوریج تھا میں اندر داخل ہوا تو چند سیکنڈ سے زیادہ ٹھہرا نہ گیا ۔ اس وقت درجہ حرارت منفی پانچ سینٹی گریڈ تھا۔ میں نے پوچھا کہ اگر کوئی اس کے اندر رہ جائے تو ؟؟ ۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں مدینے میں ایسا ایک واقعہ پیش آیا تھا کہ کسی گولڈ سٹوریج کا ملازم اندر گیا تو دروازہ بند ہو گیا جو اندر سے نہیں کھل سکتا تھا اور اس کی وفات ہو گئی ۔ اب حکومت نے اس حوالے سے سختی کی ہے اور حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا ہے اور مخصوص دروازے اور تالے لگانا لازمی قرار دیا ہے ۔ فاروق نے مجھے چلتے ہوئے کھجوروں کے دو ڈبے تحفے میں دیے جن میں ایک نرم قسم کی عجوہ تھی جو عموماً ہمارے ہاں نہیں ملتی کیونکہ اس کو لازمی طور پر ریفریجریٹر میں رکھنا پڑتا ہے ۔ یہ والی عجوہ معمول کی عجوہ سے بہت زیادہ خوش ذائقہ اور عمدہ کھجور تھی ، مجھے بہت پسند آئی ۔
فاروق مجھے چھوڑنے ہوٹل آ رہے تھے ، راستے میں ایک جگہ رک کر ان کے بڑے بیٹے سے بھی ملاقات ہوئی ۔ تعمیر کے سبب ہوٹل جانے کے راستے سب بند کیے گئے تھے ۔ ہم نے مختلف راستوں سے آگے جانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔ فائدہ اس کا یہ ہوا کہ مسجد نبوی کے دائیں بائیں بیشتر علاقے کو اچھے طریقے سے دیکھ لیا ۔ ہر شے روشن تھی ، ہر سڑک اور ہر گلی روشن تھی ۔ راستہ تلاش کرنے کے لیے بعض روایتی محلے تک دیکھ لیے ۔ پھر بھی انجام کار گاڑی دور کھڑی کر کے پیدل جانا پڑا ۔ فاروق کا لائق بیٹا سامان اٹھائے میرے ہمراہ تھا اور مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ ” میں کون سی کتابیں پڑھا کروں” دل میں خیال آیا کہ میں خود کون سی پڑھتا ہوں ۔ پھر معصوم بولا کہ ” شید کوئی نصیحت کر دیں ” میرے اندر ایک دن جیسے سلطنتوں کے رازوں امین ” ابنِ خلدون” انگڑائی لے کر بیدار ہو گیا اور لگا ” دانش کے دریا ” بہانے ۔
چلتے ہوئے فاروق کو میں نے کہا کہ اس بچے کی بہت سی حفاظت کرنا میں دیکھ رہا تھا کہ بہت چھوٹی سی عمر میں فاروق کے گھر میں بیٹھے اس عرب مہمان سے مکمل کاروباری ڈیل محض اس پندرہ سال کے بچے نے کی تھی اور معاملہ بھی اچھی خاصی بڑی رقم کا تھا ۔ مجھے وہ دن یاد آگیا کہ جب عمر فاروق قدوسی صرف پندرہ برس کے تھے اور علامہ احسان علیہ ظہیر رحمہ اللہ ہمارے مکتبے پر آئے بیٹھے تھے ۔ عمر فاروق قدوسی نے کسی معاملے پر کوئی رائے دی یا شاید اپنا لکھا مضمون پیش کیا تو حضرت علامہ نے میرے والد مکرم سے کہا تھا کہ ” قدوسی صاحب اس بچے کی حفاظت کیجئے، یہ بہت قیمتی ہے”
میں اب جب فاروق قمر کو یہ نصیحت کر رہا تھا کہ ” اس نوجوان بچے کو اچھے طریقے سے پڑھاؤ یہ محض کاروبار کی نذر نہ ہو جائے” تو مجھے اس وقت بھی یہ واقعہ علامہ شہید والا یہ واقعہ اور جملہ یاد آ رہا تھا۔
رات خاصی بیت چلی تھی ۔یہ مدینہ میں ہماری دوسری رات تھی اور دو راتوں کا ہی قیام یہاں پر طے تھا ہر ہر لمحے دل پر یہ احساس طاری ہو رہا تھا کہ کوئی بھلا در محبوب پر آ کے خود سے بھی خود پر پیاس طاری کرتا ہے ۔ کہ سامنے محبت کا دریا بہہ رہا ہو اور انسان ایک چلو بھر پئے اور چل دے ۔
صبح اگلے ہی روز ظہر کی نماز کے فورا بعد مکہ کے لیے نکلنا تھا اور غالب کا شعر میرے پیش نظر تھا
تجھ سے قسمت میں میری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
سچی بات یہ ہے کہ میں نے لاہور میں پروگرام طے کرتے ہوئے بہت زیادہ گہری نظر سے دیکھا ہی نہیں اور مؤذن الٰہی ظہیر سے خود ہی میری اہلیہ نے سارا شیڈول طے کر لیا اور اب میری حالت یہ تھی کہ جیسے کوئی پیاسا پرسوں کی پیاس لیے کنویں کے کنارے تک آئے ، منڈیر پر پڑے ڈول میں پہلے سے موجود دو گھونٹ پانی پئیے اور پھر بے تابی سے ڈول کنویں میں لٹکائے اور وہ کنویں میں گر جائے اب وہ بے بس کنارے پر بیٹھا ہاتھ ملے ۔۔
حسرت و یاس کی اور بے چینیوں کی اسی کیفیت میں آنکھ لگی اور موذن کی اللہ اکبر سے پہلے میں بستر پر اٹھ بیٹھا تھا وضو کیا اور مسجد رسول کی جانب چل دیا کہ آج ظہر کے بعد اس در جاناں سے رخصتی طے تھی ۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں