طے شدہ رجحانات کی بندش/یاسر جواد

سی جی یُنگ کے مطابق ہمارے اندر قدیم دور سے کچھ گہرے نقوش کھدے ہوئے ہیں جنھیں اُس نے آرکی ٹائپس کا نام دیا۔ ہم اِن نقوش کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں، مثلاً تولید اور بچوں کو پالنے کے لیے پڑوسیوں پر حملہ کرنے کا جذبہ، وغیرہ۔ تہذیب اِن آرکی ٹائپس یا ورثے میں چلے آ رہے رجحانات پر آہستہ آہستہ فتح پانے کا نام ہے، نہ کہ اِنھیں فطری مان کر قائم رکھنے کا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بیسویں صدی کے دوران فلموں، موسیقی اور ٹی وی نے ہمارے اندر بہت سے آرکی ٹائپس زیادہ تیزی سے پیدا کیے ہیں۔ مثلاً محبت کے متعلق ’’خودبخود‘‘ بننے والے ہمارے تصورات دراصل اِن راسخ ہو چکے رجحانات کی دین ہیں۔ پڑوسن، کلاس فیلو وغیرہ میں محبت تلاش کرنا ہمیں بہت سی فلمی شاعری اور مناظر نے سکھایا ہے۔ یقیناً ایسا پہلے بھی ہوتا ہو گا، لیکن وہ نتیجہ تھا، نہ کہ نتیجے کی طرف بڑھنے کا راستہ۔
چنانچہ ہم ایک گڑبڑ انبوہ دیکھتے اور اُس میں سے ایک خاص شبیہ یا ترتیب اخذ کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں بتا دیا یا سمجھا دیا گیا ہے کہ محبوب/محبوبہ ایسے ہوتے ہیں، اُنھیں اس طرح عمل کرنا ہوتا ہے، کہ رشتہ ازلی اور ابدی ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ ماڈرن دور کی دین تھے جن میں چیزوں کا کوئی مرکز تھا۔ اب ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ڈسپوزیبل پوسٹ ماڈرن دور سے دوچار ہیں۔ پہلے ہم سیب کو دیکھتے تھے، اب ہم یہ بھی تصور کرتے ہیں کہ سیب ہم کو کیسے دیکھتا ہو گا۔ یہ تجرید سیاسی مقاصد کی خاطر عام کی گئی یا ہو گئی، لیکن تقریباً ہر پہلو میں سرایت کر چکی ہے۔
لہٰذا اب پرانے والے آرکی ٹائپس نہیں چلیں گے۔ ایمان داری اور بے ایمانی کا تصور، مذہبی اور غیر مذہبی کا تصور، نیکی اور بدی کا تصور سب اُلٹ پلٹ ہو گیا ہے۔ اِس تصویر میں اگر آپ ایک انسانی پیکر شناخت کر سکتے ہیں تو اِس کی وجہ یہ فن پارہ بنانے والے کے علاوہ آپ کے دماغ کی تربیت بھی ہے۔ ابھی تک ہم جن غیر ارضی مخلوقات کا تصور کر پائے ہیں وہ سب فیٹس کے امیج کا نتیجہ ہیں۔ انسان زندگی کی کسی ایسی صورت کو تصور ہی نہیں کر پایا جو اُس نے زمین پر نہ دیکھی ہوئی ہو۔ زیادہ سے زیادہ تبدیلی لایا بھی تو کان لمبے کر دیے، آنکھیں زیادہ یا کم کر دیں، دانت لمبے کر دیے، وغیرہ۔
شاید ایک ہزار سال بعد واقعی کوئی خلائی مخلوق زمین پر آ جائے تو اِس تصویر میں سے ہم اُس کا چہرہ یا پیکر شناخت کر لیں۔ فی الحال ہم اِس قابل نہیں، کیونکہ ہم اِس میں انسان کو ہی شناخت کرنے پر مجبور ہیں۔ سیانا ذہن ممکنات کی راہ کھلی رکھتا ہے، اور عجلت کا شکار مذہبی ذہن اپنی ہی زندگی اور تصورات کو حتمی اور مطلق سمجھ لیتا اور اُن کی توثیق چاہتا ہے۔ اِس اعتبار سے مذہب اور محبت ایک ہی ہیں۔ دونوں آرکی ٹائپس کے کھلونے ہیں۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply